2005ء کا زلزلہ آیا تو دو دن بعد میں مظفر آباد پہنچا‘ہمارا دوست امتیاز اعوان کئی عزیز دفنا چکا تھا ، لوگ ملبے کے اوپر بیٹھے تھے اور ملبے میں ان کے پیارے دفن ہو چکے تھے۔مظفر آباد سٹیڈیم میں کئی اقسام کے ہیلی کاپٹر اتر رہے تھے۔سٹیڈیم کے اطراف اور پریس کلب والی سڑک پر ترکی‘ جاپان‘ ایران‘ جرمنی ‘ فرانس‘ چین‘ برطانیہ ‘کینیڈا، امریکہ اور دیگر ملکوں کے امدادی کیمپ اور رابطہ دفتر فعال تھے۔پاکستان کے اپنے ادارے بین الاقوامی ٹیموں کی معاونت کر رہے تھے۔انسانی و مالی نقصانات کا اندازہ لگایا جا چکا تھا۔مجھے لگا کہ رپورٹس اور زمینی سطح پر کچھ کمی ہے‘ پھر وہ کمی سامنے آ گئی کہ زلزلے نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کو بری طرح متاثر کیا تھا۔انسانی تباہی اس قدر بڑی تھی کہ کوئی جنگلی حیات کی پناہ گاہیں برباد ہونے کی طرف توجہ نہیں دے پا رہا تھا۔حیرت یہ کہ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ بھی کئی مہینے تک اس طرف متوجہ نہ ہو سکا۔ میں نے مقامی لوگوں سے بات چیت کے نوٹس محفوظ کر لئے۔امدادی کام کچھ ڈھب پر آئے اور متاثرین کے زخم بھرنے لگے تو میں نے علاقے کے ان دوسرے مسائل پر لکھنا شروع کیا جو زلزلے سے متاثر ہوئے تھے۔کشمیری مارخور، بھورا ریچھ‘ متعدد اقسام کے سرخاب‘ اڑیال‘ خرگوش،لومڑی وغیرہ اپنے مسکنوں اور پناہ گاہوں سے محروم ہو گئے تھے ۔کئی مقامات پر جنگلی جانور چٹانوں کے نیچے دب کر مارے گئے‘ زلزلے کے بعد وہ محفوظ ٹھکانے تلاش کرتے ہوئے انسانی آبادیوں کی طرف آ نکلتے اور مارے جاتے۔ایسے واقعات اگرچہ کم تھے لیکن اس پر مکمل سروے کی ضرورت تھی۔میں نے چند کالم لکھے اور اسلام آباد میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے عملے کو اس معاملے سے آگاہ کیا۔ وہاں فنڈز کی کمی تھی تاہم نقصان کا احساس موجود تھا۔محکمہ جنگلی حیات سے کوئی توقع نہیں تھی۔ 2010ء کے سیلاب کی تفصیلات ابھی ہمارے ذہن سے محو نہیں ہوئیں۔اس سیلاب نے جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے کچھ علاقوں کو متاثر کیا تھا۔کے پی کے میں کئی علاقے طغیانی کی زد میں آئے۔اس زمانے میں ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا اس لئے بہت سے جنگل اور ویران علاقے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے پہلے ہی جنگلی حیات کی نابودی کا باعث بنے ہوئے تھے۔سیلاب اس قدر وحشی تھا کہ لوگوں کے مویشی ان کی آنکھوں کے سامنے بہہ گئے۔ کند پارک اسلام آباد سے شمال مغرب کی جانب کوئی ایک سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔یہاں دریائے سندھ اور دریائے کابل کا ملاپ ہوتا ہے۔سیلاب نے اس کے اردگرد کے علاقے میں معدومی کے خطرے سے دوچار 100اقسام کے جاندار ختم کر دیے۔ کئی دوسرے مقامات پر چیتے‘ ہرن‘ ریچھ وغیرہ ڈوب گئے۔اس پارک کے جانوروں کو بچانے کے لئے کوئی امدادی آپریشن نیں کیا گیا۔زنجیروں اور پنجروں میں بندھے بہت سے بے بس جانوروں کو پانی کھا گیا ۔ 2015ء میں سیلاب آیا تو برفانی چیتوں کی زندگی متاثر ہوئی۔اس سیلاب کی وجہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشئروں کا پگھلنا بتایا گیا۔ہمالیہ کے پہاڑوں پر رہنے والے برفانی چیتوں کے 30فیصد مسکن اس سیلاب میں ختم ہو گئے۔ حالیہ سیلاب کے معاشی نقصانات 10ارب ڈالر سے بڑھ چکے ہیں۔ساڑھے تین کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔تیرہ سو لوگ سیلاب میں مارے گئے۔محکمہ جنگلی حیات ابھی تک سو رہا ہے۔کوئی ایسی رپورٹ سامنے نہیں آ رہی جس سے اندازہ ہو کہ کون سے علاقے میں کس طرح کی جنگلی حیات کا نقصان ہوا ہے۔سیلاب نے ملک کا ایک تہائی رقبہ متاثر کیا ہے۔ یہ زیادہ تر وہ علاقہ ہے جہاں جنگلی حیات پائی جاتی ہے۔سیلاب سے پہلے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ملحقہ کئی سو کلو میٹر کے جنگلات میں آگ لگی رہی۔اس آگ نے لاکھوں جانوروں کو جلا دیا۔ دنیا میں جانوروں کے تحفظ کے لئے بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں۔ان سے مدد لی جا سکتی تھی لیکن کون ایسا کرتا؟ سیلاب آیا تو کئی جانور جان بچانے کے لئے باہر نکل آئے‘ شاہ پور چاکر ضلع سانگھڑ میں ایک مگرمچھ بلند مقام پر پہنچا تو لوگوں نے اس کو مارنا شروع کر دیا۔کچھ خدا ترس لوگوں نے بچا کر محکمہ جنگلی حیات کے سپرد کیا۔کشمیر کے ضلع باغ کے علاقے کوٹھڑہ مست خان کے عبدالرزاق ڈھیری کے بستر پر رات کو اژدہا آ گیا۔مانسہرہ میں خوبصورت نقوش والی چھپکلیاں اپنے مسکن سے باہر آئیں اور ایک شخص نے پکڑ لیں۔پولیس نے یہ قیمتی چھپکلیاں برآمد کر لیں۔مورو ڈسٹرکٹ دادو سے لوگوں نے ہوگ نسل کے ایک ہرن کو لانچ کے ذریعے پانی سے زندہ نکال لیا۔مجھے مختلف علاقوں کے ماہرین بتا رہے ہیں کہ سیلاب نے وہاں جنگلی حیات کو کس طرح نقصان پہنچایا۔ انڈے اور بچے پانی میں بہنے سے نسل کشی میں ایک وقفہ آ گیا ہے ۔آزاد کشمیر میں جنگلی مرغی‘ خرگوش اور تیندوے کی نسل کو خطرہ ہے‘ بھیڑیا‘ گیدڑ‘ جنگلی بلیاں اور خرگوش جیسے ممالیہ اپنی قدرتی آماجگاہ سے محروم ہو کر پانی کی زد میں آئے ہیں۔خشک زمینوں پر رہنے والے تیتر‘ بٹیر اور سرخاب متاثر ہوئے ہیں۔سانپوں کی بہت سی اقسام اور مینڈک سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔کچھ نئے ماحول میں زندہ رہنے کا جتن کر رہے ہیں۔ ہم ادھورے شعور کو پروان چڑھا رہے ہیں۔انسان اس قدر غیر محفوظ ہو چکا ہے کہ زمین پر اپنی ہمسائی مخلوق اور جانداروں کے حقوق سے غافل ہو رہا ہے۔پاکستان مسلسل سیلابوں کی زد میں ہے‘ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا پہلا شکار پاکستان بن رہا ہے۔پاکستان کے لوگوں کو سیلاب سے متاثرہ جانوروں سے ہمدردانہ سلوک کرنا ہو گا‘ لازم ہے کہ لوگ سیلاب کے ستائے جانوروں کی مدد کریں ،بین الاقوامی اداروں کے ماہرین کو مدعو کیا جائے اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے حکومت سے پالیسی کا مطالبہ کیا جائے۔