سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ریاستی اداروں اور حکمران جماعتوں کی کارکردگی سے نالاں ہے۔ تاہم، ابتدائی سماجی رشتے ؛جیسے عزیزو اقارت ، دوستوں اور پڑوسیوں نے سیلاب زدگان کیساتھ سب سے زیادہ ہمدردی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے بہت عمدہ کردار ادا کیا لیکن انتہائی خاموشی کی ساتھ۔ سیلاب زدہ علاقوں میں پتن تنظیم کے تازہ ترین جائزہ سروے کے دوران یہ بنیادی نکات سامنے آئے ہیں۔ گیارہ سے پندرہ ستمبر کے دوران مقامی کارکنوں کے ذریعے تین صوبوں کے 14 اضلاع کے 38 آفت زدہ علاقوں میں کئے گئے پتن سروے میں انکشاف ہو ا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ زیادہ تر علاقے ،کسی بھی غیر مقامی ادارے سے خوش نہیں ہیں۔ تین مقامات پر الخدمت فاؤنڈیشن کو سراہا گیا جبکہ چند مقامات پر ریسکیو 1122 اور فوج کو بھی سراہا گیا ہے۔ تاہم کچھ متاثرہ افراد سوال کرتے ہیں کہ ہر قسم کے وسائل اور فنڈز ہونے کے باوجود ریاستی اداروں کو متاثرہ افراد تک پہنچنے میں غیر معمولی تاخیر کیوں ہوئی ہے؟ تقریباً 23 علاقوں نے کسی ادارے کا نام نہیںلیا ، کیونکہ ان کے علاقوں میں کسی غیر مقامی ادارے نے کسی قسم کا معاونتی کردار ادا نہیں کیا۔ حالیہ سروے کے نتائج اور ماضی میں کئے گئے سرویز سے سیکھنے کا سبق یہ ہے کہ خود مختار اور طاقتور مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی مقامی لوگوں کی صلاحیتوں کو بڑھا یا جاسکتا ہے ، جیسا کہ حالیہ او ر ماضی کی آفات میں ہمیشہ مقامی ادارے و افراد ہی اولین محافظ ثابت ہو ئے اورفوری مدد کو پہنچے۔ قربت کے اصول کو خطرات ِ آفات کی کمی اور انتظامات کیلئے راہنما اصول بنانا چاہیے ۔ نقل مکانی کے حوالے سے، 92 فیصد مقامات کے لوگوں کو اپنے گاؤں/محلوں کو چھوڑنا پڑا۔ آٹھ علاقوں سے زیادہ تر لوگ اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ تاہم 30 مقامات سے خاندان کا ہر فرد چلا گیا، جب کہ آٹھ علاقوں کے لوگوں نے گھر کے کسی ایک فرد کو پیچھے چھوڑ دیا۔ کمیونٹی میں مقیم زیادہ تر مبصرین نے رپورٹ کیا کہ بے گھر ہونے والے خاندانوں نے اپنی اصل رہائش گاہوں پر واپس جانا شروع کر دیا ہے جبکہ 37 فیصد مقامات پر کوئی بھی خاندان واپس نہیں آیا ہے۔ جہاں تک نقصانات کا تعلق ہے، سروے میں 151 افراد کی موت ہوئی، جن میں 51 خواتین، 49 مرد اور 51 بچے تھے۔ متاثرہ علاقوں میں تقریباً 1,000 گائیں اور 1200 بھینسیں اور 3,000 سے زیادہ بکریاں/ بھیڑیںہلاک ہوئیں۔ مجموعی طور پر 5,795 پکے اور 7,195 کچے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ تقریباً 7,000 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ، لوگوں کو اپنی دکانوں/کاروبار اور مال و متاع کے نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مجموعی طور پر 1700 دکانیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو گئیں۔ گیارہ مقامات سے کسی نے بھی گندم کے اناج کے ضائع ہونے کی اطلاع نہیں دی۔ ایسا لگتا ہے کہ ان مقامات کے لوگ بہت غریب تھے اور وہ گندم سٹور کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے تھے۔ جب کہ چھ علاقوں سے گندم کا نقصان 10 سے 500 کلوگرام کے درمیان تھا اور 14 مقامات سے گندم کا نقصان 500 سے 8000 کلو گرام کے درمیان ہے۔ دو علاقوں کے علاوہ کپاس، چاول، سبزیوں، پھلوں کے درختوں اور چارے کی کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ پتن سروے کافی تعداد میںسٹرکچر اور ایسی عمارتوں کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے جو سیلاب کے دوران محفوظ مقامات کے طور پر استعمال ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، سیلاب سے پہلے، سروے شدہ 38 مقامات پر 158؛ سکول، 65 کلینک اور تقریباً 250 عبادت گاہیں تھیں۔ ہر علاقے میں اوسطاً 12 پبلک عمارتیں تھیں۔ اسی طرح اونچی جگہیں اور پشتے بھی عارضی پناہ کے لیے دستیاب تھے۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ بیشتر علاقوں میں بے گھر خاندانوں نے انہی عمارتوں میں پناہ لی ہے۔ سروے کی روشنی میں پتن تجویز کرتا ہے کہ عوامی مقامات کے چبوترے کی سطح بلند کی جائے تاکہ آئندہ کسی بھی سیلاب میں متاثرہ لوگ ان کا استعمال کر سکیں۔ مختصراً، پاکستان کو مقامی سطح پر کمیونٹی پر مبنی ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم تیار کرنا چاہیے جو کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ پالیسی اور پلان کا ایک اہم لیکن فراموش ستون ہے۔پتن کے سروے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ سیلاب کے چھ ہفتوں کے بعد، 15 مقامات کے بہت سے خاندان سڑکوں، پشتوں اور بغیر خیموں کے کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں، جبکہ 14 علاقوں کے لوگ اپنے گاؤں میں رہتے ہوئے بھی پلاسٹک کی چادروں کے نیچے رہ رہے ہیں۔ امدادکے حوالے سے، دس مقامات پر اکثریت کو ’کچھ نہیں‘ ملا۔ سروے شدہ مقامات کی طرف جانے والی سڑکوں کے حالات کے بارے میں بتایا گیا کہ 9 علاقوں میں سڑکیں مکمل طور پر ٹوٹی ہوئی تھیں، 17 علاقوں کی سڑکیں چھوٹی گاڑیوں کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ آٹھ مقامات کی طرف جانے والی سڑکیں ہر قسم کی گاڑیوں کے لیے موزوں تھیں۔ تاہم، زیادہ تر علاقوں میں موٹرسائیکل، تھری ویلر، اور چھوٹی کاریں (سوزوکی مہران) بہت زیادہ استعمال میں نظر آئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اگلے دو ہفتوں میں زیادہ تر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی طرف جانے والی سڑکیں امدادی سامان لے جانے کے لیے بہتر حالت میں ہو جائیں گی۔ پتن سروے لوگوں کی فوری ضروریات کے حوالے سے بھی راہنمائی فراہم کرتا ہے، جس کے تحت خشک راشن، پینے کا پانی، نہانے کا صابن، سینیٹری پیڈ، مچھر دانی، چارپائیاں اور کمبل/لحاف لوگوں کی اولین ضروریات ہیں۔ یہ سروے کے پی کے، پنجاب اور سندھ کے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں سے 14 میں کیا گیا۔لوئر اور اپر چترال، لوئر اور اپر دیر، مالاکنڈ، سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، راجن پور، مظفر گڑھ، دادو، جام شورو، کشمور، قمر شہداد کوٹ، اور سانگھڑ کے اضلاع اس میں شامل ہیں۔ 1 ۔اس مرحلے پر ڈیجیٹل ذرائع سے ضرورت مند خاندانوں کو نقد رقم کی منتقلی ضروری ہے کیونکہ اس سے مقامی کاروبار کو تقویت ملے گی، قرض خواہی میں کمی آئے گی، اور فراڈ کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ یہ ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے کا سب سے مؤثر اور تیز ترین ذریعہ بھی ہے۔ 2۔تین Bs (Back- Better - Build ) کا بہت احتیاط سے استعمال اور تعمیر نو اور بحالی کے مراحل میں کمیونٹی کی شرکت کو لازماً بنانا ضروری ہے۔3۔مقامی افراد کی صلاحیت اور بنیادی ڈھانچہ (سٹرکچر ) کی کمزوریوں کو دور کرنے پر کام کیا جائے۔ 4۔ تیاری اور فوری اطلا ع کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ 5۔ہر اس رکاوٹ کو ہٹا دیا جائے جو واٹر چینلز/سیلاب کے پانی کے قدرتی بہاؤ میں خلل ڈالتی ہے۔ سروے کا مقصد بنیادی طور پر سیلاب زدگان کی صورتحال او ر بیرونی اداروں بشمول، ریاستی اور غیر سرکاری ادارو ں کی کارکردگی کے حوالے سے عوامی رائے حاصل کرنا تھا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ سب سے زیادہ سرعت اور منظم انداز میں اگر کوئی آفات میں کام کر سکتے ہیں ،تو وہ متوقع طور پر سیلاب یا آفات سے متاثرہ لوگ ہی ہیں۔ اس لئے ریاست اور بین الاقوامی اداروں پر لازم ہے کہ سیلا ب اور آفات سے نبرد آزما ہونے کیلئے مقامی لوگوں کی صلاحیتوں کو بڑھائیں اور اس کیلئے بہترین ادارہ لوکل گورنمنٹ ہے۔