کبھی کبھی انسان اتنا بے بس ہو جاتا ہے کہ اُسے کچھ سجھائی نہیں دیتا، وہ ہاتھ پائوں مارتا ہے، مسائل کا حل ڈھونڈتا ہے، مگر مجال ہے کہ اُس کے لیے کوئی حل نکل آئے۔ مثلاََ 9مئی کے واقعات کے بعد اس وقت پورا ملک خاموش اور پریشان دکھائی دیتا ہے۔ عوام کو سمجھ نہیں آرہی کہ اُس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ وہ بھول بھلیوں میں مارے گئے ہیں، ایک طرف اُنہیں مہنگائی کے تھپیڑے پڑ رہے ہیں، دوسری طرف ناکام ہوتی جمہوریت ۔ ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ عام آدمی ’’فریڈم آف ایکسپریشن ‘‘ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ تبھی ہمارا ملک سفر کرتا ہوا آزادی اظہار رائے کے حوالے سے 86ویں نمبر پر آچکا ہے۔ جو کسی بھی جمہوری ملک کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ خطرناک اس لیے کہ دنیا ایسے ممالک کو ’’ڈینجر زون‘‘ کہہ کر یہاں کا سفر کرنے سے گریز کرتی ہے۔ یہاں لوگ کاروبار کرنے سے کتراتے ہیں۔ اور سیاحت برائے نام رہ جاتی ہے۔ اسی پر بات چیت کرنے کے لیے راقم نے گزشتہ ہفتے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس کا موضوع تھا - Right of Expression and Democracy یہ موضوع اس وقت نہایت اہمیت اختیار کر چکا ہے تبھی اس پر بات کرنے کے لیے ہم نے امتیاز عالم، ایاز میر، حنا جیلانی، راجہ ذولقرنین، طاہر ملک، عابد ساقی، کاظم خان، محسن گورائیہ، صباحت رضوی جیسی شخصیات کو بطور سپیکر مدعو کیا۔ اور الحمدللہ سبھی شخصیات نے سیمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کر کے شکریہ کا موقع فراہم کیا۔ سیمینار میں سب سے پہلے افتتاحی کلمات کے لیے بلایا گیا تو میں نے کہا اس سے قطع نظر کہ 9مئی کو کیا ہوا اور اسکے ذمہ دار کون ہیں اس میں کوتاہی تو ہم سب کی ہے۔ کچھ کہتے ہیں ٹریپ کیا گیا کچھ کہتے ہیں جذباتی ہوگئے اگر دیکھا جائے تو لاہوری ویسے ہی جذباتی ہوتے ہیں، کورکمانڈز ہائوس میں جو حملہ ہوا وہ قابل افسوس ہے، لیکن پارلیمان پرحملہ ہو یا سپریم کورٹ پربھی قابل افسوس ہے.۔سنیئر کالم نگار امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ ہم نے آزادی اظہار رائے کے لیے جنرل ضیاء الحق کی جیلیں کاٹی ہیں، اس لیے ہمارے نوجوان جو گرفتار ہیں اس پر پریشان نہ ہوں، اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کو دفن کرنے میں میڈیا کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا اتنی بڑی سکیورٹی سٹیٹ اتنی چھوٹی سی اکانومی پر نہیں چل سکتی۔ سینئر کالم نگار ایازامیرنے کہا مجھے اتنی حالت خراب صورتحال نظر نہیں آتی، میں سمجھتا ہوں کہ جتنا ہمار ا اجتماعی شعور ہے اس کے مطابق ہماری آزادی اظہار رائے اس سے زیادہ ہے ہم نے ایک بے ہنگم معاشرہ بنادیا ہے جہاں اتنا عدم توازن ہوجائے کہ معاشرے کا ایک ستون بہت اوپر اورباقی نیچے رہ جائیں ،تو آپ کے الیکشن میں مداخلت ہوگی اور امیدواروں کا انتخاب وہیں ہوگا اور سیاسی پارٹیوں کے پذیرائی وہیں سے ملی گی۔ اس موقع پر چیئرپرسن انسانی حقوق تنظیم وسینئر ایڈووکیٹ وسماجی رہنما حناء جیلانی نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایک بہت بڑا سیاسی بحران ہے بلکہ اس کے ساتھ اور بہت سے بحران اکٹھے ہوگئے ہیں۔ اس وقت ایک بہت پیچیدہ بحران نظر آرہاہے،انہوں نے میری بات کو سیکنڈ کیا کہ ہمارے لیے پارلیمنٹ پرحملہ ہو یا ریاست کی کسی بھی عمارت بشمول کور کمانڈر ہائوس پر یہ ناقابل قبول ہے۔ سینئر صحافی وکالم نگار محسن گورائیہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے 32سال ہوگئے ہیں صحافتی شعبے میں افسوس کے ساتھ جو جمہوریت کو درپیش چیلنجز 32سال پہلے تھے آج بھی وہ ہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت ،انسانی حقوق اور آزاد ی اظہار رائے کو آگے بڑھانے والے لوگ بلیک میلنگ کا شکارہوں تو وہ کیسے اس کا تحفظ کرسکتے ہیں۔آج سیاسی کارکنوں کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے بھٹو کے دور سے لیکر آج تک یہی سلوک ہوتا رہاہے یہ کچھ نیا نہیں ہورہا۔سینئر صحافی واینکر طاہر ملک نے کہا کہ ریاست بنیادی طور پر انسان نے پانچ یا چھ ہزار سال کی جدوجہد کے بعد بنائی ہے۔ ریاست کا بنیادی فرض عوام کی خدمت اور تحفظ کرناہے۔ پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جو اپنے بچائو اور اپنے تحفظ کیلئے کام کررہی ہے ریاست کے تینوں ستونوں نے اپنی حفاظت کیلئے قوانین بنا لیے اور جس کی توہین نہ کرنے کیلئے قانون بننا چاہیے تھا یعنی عوام وہ لاوارث ہے ۔ سینئرایڈووکیٹ عابد ساقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ریاست کا بنیاد ی مسئلہ یہ ہے کہ 1947میں آزادی حاصل کرنے کے باوجود سوسائٹی اور سٹیک ہولڈنگز کو ڈی کالو نائیزڈکرنے کی کوشش نہیں کی۔کسی کے پاس اظہار رائے کو دبانے کا اختیار نہیں ہے۔سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن صباحت رضوی نے کہا کہ پاکستان پچھلے 75سالوں میں آگے جانے کی بجائے پیچھے جارہاہے اور اس میں سب سے بڑا ہاتھ ریاست کا ہے۔ ایسے لگتاہے کہ جیسے ہمیں یرغمال بنایا ہوا ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ،سینئرصحافی کاظم خان نے کہا کہ میںاس موضوع آزادی اظہار رائے وجمہوریت کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتامیں حیران ہوں کہ جب انکا وجود ہی نہیں تو ان کو درپیش چیلنجز پر بات کیسے کی جاسکتی ہے جبکہ سینئر ایڈووکیٹ راجہ ذوالقرنین کا کہنا تھا کہ اب ریگولر وار ختم ہو چکی ہے، جبکہ اب پراکسی وار کا زمانہ ہے جس سے ہم سب کو بچنا ہوگا ۔ اینکرعمران شفقت کا کہنا تھا کہ ہم نے حالات ایک جیسے ہی دیکھے ہیں، یہ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں چیزیں شروع ہونے سے پہلے ہی یا تو خود ختم ہو جاتی ہیں، یااُن کے پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔ اس پورے موضوع کا احاطہ کرنے کے لیے ویسے تو کئی کالموں کی ضرورت ہے مگر اختصار سے کام لیں تو مذکورہ بالا سیمینار میں صرف ایک چیز جو مشترک دکھائی دی وہ یہ تھی کہ ریاست اپنے باسیوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔ سب کو آزادی اظہار رائے کا حق دے ورنہ اس قانون کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ کیوں کہ شخصی آزادی کو دبانے کا واحد مقصدیہی ہوتا ہے کہ وہ کسی مسئلے پر کھل کر بات نہ کر سکے ۔ یہ چیز شام، سوڈان، مصر،چاڈ، یمن وغیرہ میں تو چل سکتی ہے مگر پاکستان میں نہیں! ٭٭٭٭٭