’’سینٹ الیکشن‘‘ میں اگرچہ کم و بیش دو ہفتے پڑے ہیں‘ لیکن اس کی گہما گہمی‘ گرما گرمی بلکہ محاذ آرائی میں بتدریج اضافہ جاری ہے ۔ فریقین ایک دوسرے کو ’’ورطہ حیرت‘‘ میں ڈالنے کے لئے پوری طرح سربکف ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان الیکشن کی حقیقی روح اور سپرٹ کو یقینی بنانے کے لئے پوری طرح مستعد ہیں‘ جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ کے منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھی کیا‘انہوں نے بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں کہا :ہم چاہتے ہیں کہ سینٹ کے الیکشن میں پیسہ نہ چلے۔میرٹ پر ٹکٹ دیے ہیں‘ کامیاب ہم ہی ہوں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے بھی ایک بریفنگ میں بڑے اچھے اور مثبت عزائم کا اظہار کیا ہے : ہم سینٹ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنائیں گے۔مزید کہا: پاکستانی قوم کو پتہ چل گیا ہے کہ دیانت دار لوگوں کو آگے لانے کے حق میں کون‘جبکہ ووٹوں کی خریدوفروخت والے قبیح نظام کا حامی کون ہے۔انسانی معاشروں کی اجتماعیت اور اجتماعی معاملات کو چلانے کے لئے ہمیشہ سے حکومتی مشینری میں عوام کی شرکت اور عوامی نمائندگی کا کوئی نہ کوئی اصول اور طریقہ کار فرما رہا ہے۔ قدیم قبائلی جمہوریت میں قبائلی سردار سیاسی حاکمیت کے ذمہ دار ہوتے تھے۔ عوام الناس کی نمائندگی ایسے افراد کو ملتی رہی، جو کسی بھی حوالے سے معاشرے کے نمایاں افراد ہوتے۔ بدلتے تقاضوں اور ضروریات کے تحت اس نمائندگی کے اصولوں اور طریقوں میں فرق آتا رہا ہے۔ تاہم جب بھی جبر کے ذریعے کسی فرد واحد کی حکومت قائم ہوئی، تو لوگوں نے جلد یا بدیر اس سے آزادی کی جدوجہد شروع کر دی ۔ یوں جمہوری رویوں کا سفر جاری رہا۔قدیم یونانی جمہوریتوںمیں شہری ریاست کے عوام براہ راست سیاسی و سماجی فیصلوں میں شریک ہوتے تھے۔ ظاہر ہے ایسا کم آبادی والی چھوٹی ریاستوں میں ممکن ہو سکتا تھا۔ خلافت راشدہ میں بیعتِ عام اور مجلس ِشوریٰ کے تحت لوگ ریاستی امور میں شامل رہتے تھے۔ خلافت اور جمہوریت کے طرز ہائے حکومت میں عوامی نمائندگی کے اصول‘ عملاً دو پہلوئوں سے بالکل مختلف ہیں۔ پہلا یہ کہ جمہوریت ریاست میں عوام کی اکثریت کی رائے اور رویے سے‘ حلال و حرام‘ جائز و ناجائز اور حق و باطل کے بنیادی فیصلوں تک کو تبدیل کیا جا سکتا ہے جبکہ خلافت میں عوام الناس کی سوفیصد اکثریت بھی ایسے بنیادی فیصلے کرنے کی مجاز نہیں ہے ،جو شریعت کے خلاف ہوں اور نہ ہی یہ اختیار عوام کے نمائندوں یا حکمرانوں کو کسی بھی قیمت پر حاصل ہو سکتا ہے۔ تاہم اجتماعی معاملات میں عوام کی شرکت کا پہلو نظام خلافت میں اس قدر اہم ہے کہ خود خلافت کا انعقاد ہی اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک لوگ بیعت عام کے ذریعے اس کی تائید نہ کر دیں۔اسلامی تعلیمات میں ایسی حکومت ‘ملوکیت یا Autocracyہے ،جو بیعت کے بغیر قائم ہو۔ خلافت منعقدEstablishبیعت کے ذریعے ہوتی ہے ۔ مشاورت و شوریٰ کی بنیاد پر چلتی اور قائم رہتی ہے۔ دوسرا عوام سے مراد قدیم شہری ریاستوں میں مرد شہریوں پر مشتمل وہ ’’خواص‘‘ تھے، جنہیں شہری کہا جا سکتا تھا۔معاشرے میں آزاد آبادی کا نصف یعنی طبقۂ خواتین‘ حقوق شہریت سے محروم ہوتا تھا جبکہ غلام کسی گنتی میں نہیں آتے تھے ،حالانکہ ان کی تعداد ہر ریاست میں ’’شہریوں‘‘ سے کئی گنا زیادہ ہوتی تھی۔ اسلامی خلافت میں ایسی طبقاتی تقسیم کاکوئی وجود نہیں تھا۔ عوام یا جمہور سے مراد مسلمانوں کی اجتماعیت تھی، جس میں کسی کو اس کی معاشی حالت اور سماجی مقام کی بنیاد پر کوئی امتیاز حاصل نہ تھا۔یہاں شہری حقوق کے لحاظ سے تمام برابر تھے۔ عہد خلافت راشدہ کا مطالعہ بتایا ہے کہ اسلامی مملکت خاص مقصدیت کی حامل ریاست ہوتی ہے۔ جغرافیائی سرحدیں‘ہجوم انسانی اور حاکمیت انسانی‘ اس کا مقصود و مطلوب نہیں بلکہ اس ریاست کا مقصد منشائے الٰہی کے مطابق انسانی معاشرے کی اصلاح اور فلاح ہے۔ اس مقصد وجود کو پورا کرنے کے لئے خلافت راشدہ کی پوری حکومتی مشینری امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ کے مرکز و محور پر یکسو رہتی تھی۔ریاستیں عموماً عوام الناس کی اخلاقی تربیت کے معاملہ میں لاپرواہ اور غیر جانبدار ہی رہتی ہیں۔ جمہوری ریاست کا تو تصور ہی لوگوں کی خواہشات کی تکمیل ہوتا ہے۔ وہ عوام کی اخلاقی حالت کی نگرانی اور معاشرتی زندگی میں تبدیلی کی مجاز نہیں ہوتی۔ جبکہ خلافت اسلامی کی بنیادی ذمہ داری ہی افراد معاشرہ میں اچھائیوں کو فروغ دینا اور برائیوں سے دور رکھنا ہوتا ہے۔ خلافت راشدہ کی حکومت کو اس مقصدیت کے اسی دور کی دیگر تمام ریاستوں سے منفرد نوعیت کی ریاست میں تبدیل کر دیا تھا ،جس کی خارجہ پالیسی میں بھی یہی مقصد نمایاں تھا۔ یہ مقصد ایک ہمہ گیر وسعت رکھتا ہے، جس کی تکمیل کے لحاظ سے وہ کسی خاص قبیلہ ‘ قوم اور وطن تک محدود نہیں رہ سکتی۔ وہ ہر دم وسعت پذیر ہوتی ہے، مگر اس کی توسیع مذکورہ بالا مقصد کی خاطر ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت راشدہ کی توسیع کسی انتقام ‘ کسی قومی عصبیت‘ معاشی اقدام اور ملکی سرحدوں میں اضافہ کو بنیاد بنا کر نہیں ہوئی بلکہ انسانیت کو ظلم و جہالت سے نجات دلانے اور صلاح و فلاح سے روشناس کروانے کی خاطر ہی ہوئی۔ خلافت اسلامی کا دیگر ریاستوں سے دوستی اور دشمنی کا معیار یہی دو اصول رہے۔ ظلم و استحصال سے پاک معاشرہ اور انسانیت کی اصلاح و فلاح۔اس انفرادیت کا اظہار سفارت کاری کے ساتھ ساتھ معرکہ آرائی میں بھی یوں ہوتا رہا، کہ ہر جنگ سے پہلے اسلامی فوج‘ مخالف حکومت و ریاست میں مقاتلین(یعنی لڑنے والے‘فوجی) اور غیر مقاتلین(عام شہری) کو علیحدہ کر لیتی۔ عورتوں بچوں معذوروں اور مذہبی پیشوائوں سے تعرض نہ کرتی۔ پھر اہل جنگ کو بھی پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی۔ اگر یہ شرط نامنظور ہوتی تو جزیہ دے کر عدل و انصاف پر مبنی اسلامی معاشرے کا حصہ بن جانے کی ترغیب دی جاتی۔ اگر یہ شرط قبول نہ کی جاتی تو پھر تلوار کو فیصلے کی بنیاد بنایا جاتا۔ قوت کے استعمال اور معرکہ آرائی کے اصولوں کے اعتبار سے بھی خلافت اسلامی انسانیت کو پہلی بار‘ مقاصد جنگ کی پاکیزگی اور آداب جنگ کی انقلابی اصلاحات سے روشناس کروایا۔ خلافت راشدہ کے ابتدائی دور سے ہی روم و ایران کی سلطنتوں نے جب اسلامی ریاست میں انتشار کی حوصلہ افزائی کی تو خلیفۂ اول نے دفاعی حکمت عملی کے تحت‘اس فوجی کارروائی کو جاری رکھنے کا حکم دیا، جس کی تیاری خود رسول خداﷺ کی ہدایت سے ہو چکی تھی‘ مگر اپنی فوج کو یہ حتمی ہدایات دیں:خیانت نہ کرنا ‘ دھوکہ نہ دینا‘ امیر کی نافرمانی نہ کرنا‘ کسی شخص کے اعضاء مت کاٹنا‘ کسی بچے‘ بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرنا‘ کھجور یا کسی پھلدار درخت کو مت کاٹنا‘عبادت گاہوں میں مصروف لوگوں سے تعرض نہ کرنا۔ اب اس سے بہتر خارجہ اور دفاعی پالیسی اور کیا ہو گی، کہ غیر مسلموں کے مذہب اور معاہدہ کا احترام‘ ان کے حقوق کی نگہبانی اور انصاف رسانی‘ان کے ساتھ معاہدوں کی پابندی‘ان کی خوشحالی کی ضمانت اور ان کی جان و مال کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری اسلام نے قبول کی ہے۔ہر دور میں مشاورت کا سلسلہ جاری رہا ہے ،زمانے کے بدلنے سے اس کے انداز بدلتے رہے ہیں ،کبھی شورائی نظام توکبھی جمہوریت۔