عمران خان کی طرف سے اوپن بیلٹنگ کی تجویز سینٹ انتخابات میں شفافیت لانے کے لئے تھی اور شائدنیک نیتی کا مظہر‘ اس تجویز کو عملی شکل دینے کے لئے مگر مناسب ہوم ورک ہوا نہ بامقصد مشاورت اور نہ اس کے نتائج و عواقب پر سنجیدہ غور و فکر۔ سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کرنے کے بعد پارلیمنٹ سے رجوع اور پھر اچانک صدارتی آرڈی ننس کا اجراء عجلت پسندی اور غیر سنجیدگی کے سوا کیا ہے؟ گزشتہ روز وفاقی وزراء نے ایک ٹی وی چینل پر چلنے والی فوٹیجز کو اوپن بیلٹنگ کی تجویز کے حق میں مضبوط دلیل کے طور پر پیش کیا‘ وزیر اعظم کے حکم پر خیبر پختونخواہ کے وزیر قانون سلطان محمد خان سے استعفیٰ لے لیا گیا مگر بعد میں پتہ چلا کہ ارکان صوبائی اسمبلی میں نوٹوں کی گڈیاں خیبر پختونخوا کے سپیکر ہائوس میں بانٹی گئیں اور نوٹوں کی تقسیم اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک کی موجودگی میں ہوئی جو‘ اب بھی عمران خان کے قابل اعتماد ساتھی اور وفاقی وزیر دفاع ہیں گھر کے بھیدی۔ قومی اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر نے لنکا ڈھائی کہ فوٹیجز واقعی سپیکر ہائوس کی ہیں تاہم وہ سارے معاملے سے لاعلم ہیں۔ پچھلے سینٹ انتخابات کے موقع پر عمران خان نے ووٹ فروشی کی پاداش میں خیبر پختونخوا سے تحریک انصاف کے بیس ارکان صوبائی اسمبلی کی پارٹی رکنیت ختم کر کے خوب داد سمیٹی اور اب بھی اوپن بیلٹنگ کا محرک ان کی یہی سوچ تھی‘ ووٹ فروش ارکان اسمبلی اگرچہ چیختے چلاتے رہے کہ انہوں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی نہ کسی مخالف امیدوار کو کامیاب کرایا مگر ان کی کسی نے نہیں سنی‘ عدالت عظمیٰ میں اوپن بیلٹنگ کا معاملہ زیر سماعت اور اٹارنی جنرل کو فاضل جج صاحبان کے سخت سوالات کا سامنا ہے‘ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن تازہ فوٹیجز سے عمران خان اور تحریک انصاف کے اُصولی موقف کو نقصان پہنچا اور مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ ووٹ فروش ارکان اسمبلی نے تو جو کیا سو کیا لیکن تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے سپیکر ہائوس میں بیٹھ کر رقوم کیوں بانٹیں‘ اور ووٹ فروشوں کے ساتھ ساتھ ووٹ کے سوداگروں کے ساتھ ازروئے انصاف کیا سلوک ہونا چاہئے؟کیا ووٹ فروشی جرم ہے یا خریداری بھی پرلے درجے کا ناقابل معافی سیاسی و اخلاقی گناہ؟۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کہاکہ سلطان محمد خان کی ووٹ فروشی کا علم عمران خان کو ایک ٹی وی چینل کی فوٹیجز دیکھ کر ہوا‘ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ تین سال قبل ارکان صوبائی اسمبلی کی ووٹ فروشی کے معاملے پر تحریک انصاف کی قیادت نے سنجیدگی سے توجہ دی نہ مناسب چھان بین کی اور نہ ووٹ فروش ارکان اسمبلی کی تحریک انصاف میں شمولیت پر پابندی لگائی‘ سلطان محمد خان وطن پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو کسی کو ان کی ووٹ فروشی کا علم نہ تھا ورنہ بیس ارکان اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے والے عمران خان ایک ایسے شخص کو پارٹی ٹکٹ کیوں جاری کرتے جو ان ارکان اسمبلی کے ساتھ شریک جرم تھا‘ اس پر مستزاد محمود خان کی کابینہ میں بطور وزیر قانون شمولیت۔ تین سال قبل کیمرہ بند ہونے والے مناظر سینٹ انتخابات سے تین ہفتے قبل عین اس وقت کیوں ‘کیسے افشا ہوئے ‘جب حکومت اوپن بیلٹنگ کے لئے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں آئین‘ اپوزیشن اور انتخابی قواعد و ضوابط سے نبرد آزما ہے اور عمران خان خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے فراہم کردہ ٹھوس معلومات کی بنا پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ارکان اسمبلی کی منڈی سج چکی‘ ووٹوں کی خریدوفروخت شروع ہے اور دولت مندوں کا ایک کنسورشیم اپوزیشن کی ایک جماعت کو مطلوبہ سرمایہ فراہم کرنے پر آمادہ ہے۔ یہ رقم ووٹوں کی خریداری اور تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی سینٹ میں متوقع اکثریت کو روکنے کے علاوہ اپوزیشن کے متفقہ چیئرمین سینٹ کو کامیاب کرانے کے کام آئیگی‘ دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کے امیدوار مخدوم یوسف رضا گیلانی کو وفاقی نشست سے کامیاب کرانے اور بعدازاں چیئرمین سینٹ بنانے پر آمادہ ہوں تو اس سے نہ صرف سینٹ پر بالادستی کی عمرانی خواہش دم توڑ جائے گی بلکہ گیلانی صاحب کی کامیابی دراصل قومی اسمبلی میں عمران خان حکومت کی اکثریت کے خاتمے اور متوقع عدم اعتماد تحریک کی کامیابی کی نوید ہو گی۔ قومی اسمبلی میں ایک سو اسی ارکان کی حمایت یافتہ تحریک انصاف اگر سینٹ کی وفاقی نشست پر اپنا امیدوار کامیاب نہیں کرپائی اور مخدوم یوسف رضا گیلانی آصف علی زرداری کی اشیر باد کے ساتھ معرکہ مار لیتے ہیں تو اس سے یہ مطلب بھی اخذ کیا جائے گا کہ صادق سنجرانی کی بطور چیئرمین سینٹ کامیابی اور بعدازاں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی میں بنیادی کردار ادا کرنے والی قوتیں واقعتاً سیاسی اور پارلیمانی کھیل سے لاتعلق اور اپنے اصل فرائض یعنی دفاع قومی وطن میں مشغول ‘ آصف علی زرداری و بلاول بھٹو کے اچھا بچہ بننے پر خوش ہیں ۔یہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کی مہم جوئی سے محفوظ رکھنے کے لئے پیپلز پارٹی کی قیادت کے ذمہ دارانہ جمہوری کردار کا اعتراف ہو گا اور ملک میں کثیر الجماعتی جمہوریت کے فروغ و استحکام کی طرف پیش قدمی کا اظہار۔ بعض قنوطی تو یہ دور کی کوڑی بھی لا رہے ہیں کہ پنجاب میں تمام تر نالائقی کے باوجود بزدار حکومت کو برقرار رکھنے کی ضد عمران خان کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہے ۔عثمان بزدار اپنی محدود ذہنی صلاحیت اور سیاسی ناتجربہ کاری کے باعث وسطی پنجاب میں مسلم لیگ ن کو کمزور کر پائے نہ تحریک انصاف کی سیاسی وپارلیمانی قوت میں اضافہ اور نہ مسلم لیگ ق کی حلیف قیادت کو مطمئن و مسرور‘اس کے باوجود عمران خان بضد ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ خواہ تحریک انصاف کا کھنڈر بنے یا مسلم لیگ ن کا مضبوط گڑھ ‘ عثمان بزدار کا کلّہ مضبوط ہے‘ مضبوط رہے گا۔ موجودہ نظام کے حقیقی سٹیک ہولڈرز یہ رسک لینے کو تیار نہیں اور آصف علی زرداری صورتحال سے باخبر ہونے کے سبب اپنی تگ و تاز کا محور سینٹ انتخابات کو بنا چکے‘ سینٹ میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی برتری کو روکنا اور اپنی مرضی کا چیئرمین سینٹ منتخب کرانا ان کی ترجیح اول ہے جس کے بعد ان کی سودے بازی پوزیشن مضبوط ہو گی اور وہ میاں نواز شریف کے علاوہ مولانا فضل الرحمن کا کندھا استعمال کر کے پنجاب میں اپنے نئے اتحادیوں کے سہارے سیاسی و پارلیمانی جگہ بنانے کی نئی کوششوں کا آغاز کر سکتے ہیں۔ عمران خان نے اپوزیشن پر اخلاقی برتری کی دھاک بٹھا کر اوپن بیلٹنگ کا پتہ کھیلا‘ آغاز شاندار تھا مگر عجلت پسند نالائق مشیروں نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا‘ عدالت عظمیٰ کی طرف سے جو بھی فیصلہ آئے فائدہ اپوزیشن اٹھائے گی۔ خیبر پختونخوا کے سپیکر ہائوس میں مبینہ طور پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی طرف سے ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے کی ادائیگی کے شواہد منظر عام پر آنے کے بعد عمران خان یہ نہیں کہہ سکتے کہ ووٹوں کی خریدو فروخت کا کاروبارفقط اپوزیشن نے کیا اور کروڑوں روپے خرچ کر کے صرف پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے‘ ہاں یہ حقیقت ہے کہ کے پی کے میں پچھلی بار پیپلز پارٹی نے اپنے حجم سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اب بھی شاید تاریخ اپنے آپ کو دہرائے۔ سوال یہ ہے کہ ووٹ فروش ارکان اسمبلی تو گردن زدنی ٹھہرے‘ ان ضمیر فروشوں کے ووٹوں سے کامیاب ہونے والے سنیٹرز کس سلوک کے مستحق ہیں ؟فواد چودھری کا مطالبہ درست ہے کہ انہیں نااہل قرار دیا جائے‘ لیکن ان کا تعلق اگر حکمران جماعت سے ہوا تو؟کے پی کے سپیکر ہائوس میں لگنے والی منڈی کی فوٹیجز کا منظر عام پر آنا فارن فنڈنگ کیس میں الجھی تحریک انصاف کے لئے نیک شگون نہیں‘ یہ فوٹیجز کہیں پرویز خٹک کے لئے جواب آں غزل نہ ہو‘ موصوف نے ہی یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’’میں جب چاہوں عمران خان کی حکومت کو منٹوں میں گرا دوں‘‘