روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق سینٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت پر اٹھنے والے مسلسل سوالات کے باعث الیکشن کمیشن نے معاملے کا نوٹس لیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی عبدالسلام آفریدی سے روپے کے عوض ووٹ دینے کی پیشکش کی تفصیلات طلب کرلی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انہیں ہدایت کی ہے کہ ووٹ بیچنے سے متعلق واٹس ایپ چیٹ‘ آڈیو اور دیگر ثبوت فراہم کریں۔ یاد رہے کہ عبدالسلام کو مبینہ طور پر صومالیہ کے موبائل نمبر سے ووٹ کے بدلے 8 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔ 25 فروری کو این اے 75 سیالکوٹ کی نشست پر ضمنی انتخاب ہوا۔ اس حلقے میں ڈسکہ شہر اور نواحی علاقے آتے ہیں۔ سارا دن فائرنگ اور تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہے۔ شام ہوئی تو مبینہ طور پر 20 پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسر انتخابی نتائج ریٹرننگ افسر کے پاس بوجوہ دھند جمع نہ کرا سکے۔ اگلے دن صبح سویرے یہ لوگ ریکارڈ لے کر ریٹرننگ افسر کے پاس پہنچے تو وہ پہلے ہی الیکشن کمیشن کوشکایت کر چکے تھے۔ ہر معاملے پر سستی کا مظاہرہ کرنے والے الیکشن کمیشن نے فوری طور پر ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو 20 پولنگ سٹیشنوں کے نتائج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا خدشہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے حتمی فیصلے سے پہلے ہی اپوزیشن نے دھواں دھار پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ وزیراعظم عمران خا ن نے اپنے امیدوار کو ہدایت کی کہ وہ ان 20 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخاب کی درخواست دائر کردیں۔ اس طرح وقت اور ریاست کا پیسہ بچ جائے لیکن اپوزیشن نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا ۔ الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا۔ ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور حکومت پنجاب کو حکم دیا کہ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ‘ ڈی پی او‘ اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ اور ڈسکہ و سمبڑیال کے ڈی ایس پیز کو معطل کردیا جائے ۔ ان احکامات پر فوراً عملدرآمد ہو گیا۔ ڈسکہ الیکشن کو مدنظر رکھ کر جب 3 مارچ کو ہونے والے سینٹ انتخابات کو دیکھیں تو ایک مختلف رویہ نظر آتا ہے۔ حکومت نے پارلیمنٹ کے ایوان میں‘ عدالت عظمیٰ کے روبرو اور ذرائع ابلاغ میں مسلسل دھاندلی اور ووٹوں کی خریدوفروخت پراپنے خدشات کا اظہار کیا۔ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل شفاف رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال سمیت ہر ممکن اقدام کی ہدایت کی۔ اس دوران اسلام آباد سے پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے فرزند اور پھر سندھ کے ایک وزیر کی ویڈیوز سامنے آئیں۔ ان ویڈیوز میں ایسے ا شارے موجود تھے جن سے پتہ چلتا ہے کہ اراکین اسمبلی سے رضاکارانہ اپیل نہیں کی جا رہی بلکہ انہیں کچھ مراعات اور فوائد کے عوض اپنا ووٹ پی ڈی ایم کے امیدوار کو دینے کا تقاضا کیا جارہا ہے۔ ان شواہد پر پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سے نوٹس لینے کی درخواست کی ، اسی زبردستی کے ماحول میں انتخابات کرائے گئے اور پی ٹی آئی کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ پی ڈی ایم امیدوار کو اگر حکومتی اراکین آزادانہ منشا سے ووٹ دیتے تو یہ ایک جمہوری روایات سمجھ کر قابل قبول ہوتا لیکن جب معلوم ہو گیا کہ اپوزیشن نے ووٹ خریدے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن کو ڈسکہ والی نظیر دہراتے ہوئے یہ انتخاب کالعدم قرار دینا چاہیے تھا۔ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ جس طرح الیکشن کمیشن نے برق رفتاری سے معاملات کا جائزہ لینے کے بعد 18 مارچ 2021ء کو ڈسکہ میں نئے سرے سے ضمنی انتخاب کا اعلان کیا ہے اسی طرح سینٹ انتخابات سے متعلق شکایات کو بروقت سنجیدگی سے لیا جاتا اور پی ٹی آئی کی شکایت کا ازالہ کیا جانا چاہیئے تھا۔ بلاشبہ الیکشن کمیشن ایک آزاد و خودمختار ادارہ ہے لیکن اس کے اختیار کا محور وہ آئینی و قانونی ذمہ داریاں ہیں جو سوفیصد غیرجانبداری اور بروقت فیصلے کے ساتھ انجام دی جاتی ہیں۔ کسی انتخاب کے موقع پر الیکشن کمیشن کو تمام انتظامی اختیارات تفویض ہو جاتے ہیں۔ فوج‘ پولیس‘ ضلعی انتظامیہ سب اس کی معاونت کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ اس سب کے باوجود اگر انتخابی عمل ہنگامہ آرائی‘ تشدد اور دھاندلی کا شکار ہو جائے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کے عملے نے اپنے اختیارات کے استعمال میں بوجوہ سستی کا مظاہرہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان تواتر کے ساتھ انتخابی عمل پر سوال اٹھا رہے ہیں‘ وہ جب اپوزیشن میں تھے تو اس وقت بھی انہوں نے الیکشن کمیشن اور اس کے انتظامات پر اعتراض کیا تھا۔ جمہوریت اپنے آپ نہیں چلتی ،اسے اداروں کے ذریعے تحفظ دیا جاتا ہے۔ عموماً اپوزیشن جماعتیں دھاندلی کی شکایت کرتی ہیں لیکن اس بار خود حکومت کو ادارے کی کارکردگی سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ انتخابی عمل کو شفاف رکھنے اور فریقین کا اعتماد بحال رکھنا خود الیکشن کمیشن کی اپنی ساکھ کے لیے بہت اہم ہے۔ 12 مارچ کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا انتخاب اس حالت میں ہورہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے انتخاب کا معاملہ ہنوز طے نہیں ہو سکا۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جب تک سینٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت کا معاملہ منطقی اور قانونی انجام تک نہ پہنچے اس انتخاب کو روک دیا جائے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں ایک بار پھر ووٹوں کی خریدوفروخت الیکشن کمیشن اور جمہوریت کو داغدار کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں موجود ثبوتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔