پنجاب حکومت نے لاہور میںسیوریج اور واٹر سپلائی لائنوں کی تبدیلی کیلئے32 ارب کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ واسا نے ورکنگ پیپر ترتیب دے کر ایل ڈی اے سے فنڈز مانگ لئے ہیں۔ بدقسمتی سے 71 برس میں صوبائی دارالحکومت کے لئے سیوریج اور سپلائی لائنوں کا منصوبہ تشکیل نہیں دیا جا سکا۔ درحقیقت شہری آبادی کے متعلقہ محکموں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں۔ جب سڑک تعمیر ہوتی ہے تو کحھ عرصے بعد سیوریج کے نام پرواسا حکام اسے اکھاڑ دیتے ہیں۔ پھر تعمیر کے بعد محکمہ سوئی گیس والے آ دھمکتے ہیں تو سڑک اکھاڑ کر چلتے بنتے ہیں۔ پھر بجلی اور ٹیلیفون والوں کو ہوش آتا ہے۔ یوں رابطے کے فقدان کے باعث سڑک تعمیر ہونے کے بعد چار سے پانچ محکمے خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہیں، جو صرف پیسے کا ضیاع ہے۔ شہر کا سیوریج اور واٹر سپلائی کی لائنوں کو ہر پانچ سال بعد تبدیل کیا جاتا ہے۔ دراصل ان لائنوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اس میں کمیشن مافیا متحرک ہوتا ہے جبکہ حکومت اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو نوازنے کیلئے فنڈز کا اجراء کر دیتی ہے جس بنا پر مسائل جنم لیتے ہیں۔ اگر حکومت ترقیاتی فنڈز عوامی نمائندوں کو دینے کی بجائے براہ راست عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرے تو ایسے مسائل سرے سے ختم ہو جائیں۔ تمام بڑے شہروں کیلئے پلاننگ کے تحت ایکسیوریجسسٹم ترتیب دیا جائے۔ اس کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ عائد ہو۔ لاہور شہر کو ایک بار ہی اکھاڑ کر سیوریج لائنیں ڈال لیں۔ نئے ٹائون اور ہائوسنگ سوسائٹیوں کو بھی ایک ماسٹر پلان دیں تاکہ یہ مسائل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں۔