یہ اس بیانیے کی شکست ہے جو میرے ملک پاکستان کی وجہ تخلیق کی نفی کرنے کے لیے شروع دن سے دانشوروں نے تخلیق کیا تھا۔ یہ بھارت کی ستر سالہ منافقت کے خاتمے اور ہندو تعصب کے اصل چہرے کی نقاب کشائی کا دن ہے۔ یہ شیخ مجیب الرحمن، اسکی نظریاتی باقیات اور اس کی بنگالی عصبیت پر شروع کی گئی آزادی کی تحریک کی مکمل موت کا لمحہ ہے۔ اس انجام کا آغاز اسی دن سے لکھا جا چکا تھا جب دسمبر 1971 ء میں بنگلہ دیشی جو اس وقت مشرقی پاکستانی کہلاتے تھے انہوں نے اس دور کے قوم پرست کمیونسٹوں اور بھارت نواز سیکولروں کے پراپیگنڈے کی چکاچوند میں آکر یہ خواب دیکھ لیا تھا کہ ہر وہ شخص جو بنگالی بولتا ہے، خلیج بنگال کے آس پاس رہتا ہے، بنگالی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا ہے، دریا میں کشتی رانی کرتے اور میگھا چھانے پرسریلے گیت گاتا ہے، ٹیگور کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، ستیہ جیت رائے کی عالمی شہرت یافتہ بنگالی فلموں کو اپنی شناخت تصور کرتا ہے، ایک بنگالی قوم کا حصہ ہے۔ پاکستان بنتے ہی یہ گمراہ کن پراپیگنڈہ صرف مشرقی پاکستان میں ہی نہیں بلکہ مغربی پاکستان میں بھی اسی زور و شور سے کیا جاتا تھا۔ یہاں کا دانشور کہتا تھا کہ ایک تہذیب کے پالے، ایک تاریخ کے امین اور ایک سرزمین کے بیٹے کیا صرف ''ہری اوم'' کہنے، ''ست سری اکال'' پکارنے یا ''اللہ اکبر ''کا نعرہ بلند کرنے سے علیحدہ قومیں بن سکتے ہیں۔ مورخوں کی تاریخ نگاری، شعراء کی شاعری اور افسانہ نگاروں کی افسانہ تراشی 1947 ء سے لے کر 1971 ء تک اپنے عروج پر تھی۔ کیسے کیسے فقرے تراشے گئے تھے، تاکہ نظریہ پاکستان کی نفی کی جاسکے، '' ہم تین ہزار سال سے بنگالی، پشتون اور بلوچ ہیں جبکہ چودہ سو سال سے مسلمان اور چند برسوں سے پاکستانی''۔یہ ویسے ہی فقرے ہیں جو مشرکین مکہ سید الانبیاء ﷺ کے اس دین کے مقابلے میں بولا کرتے تھے جو رنگ، نسل، زبان اور علاقے کے تعصبات کی جڑ کاٹنے کے لیے آیا تھا۔ گنگا جمنی تہذیب کی رنگارنگی اور پنجاب و سندھ کی بھارتی پنجاب اور راجستھان کی تہذیبوں کے یکساں خدوخال پر زور و شور سے پروگرام کیے جاتے تھے ۔ کہا جاتا،''لاہور کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے''، کیسا شاندار فقرہ ہے جو ایک لمحے میں،مشرقی پاکستان میں رہنے والوں کو مغربی پاکستان سے متنفر کر دیتا تھا، نفرت کا بیج بو دیتا تھا۔ صرف چوبیس سال کے اس زہر آلود پروپیگنڈے، سیاسی عدم استحکام، فوجی و سیاسی غلطیوں اور بھارتی افواج کی براہ راست مداخلت اور حملے کے نتیجے میں مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوگیا۔ لیکن بھارتی افواج کی فتح کے بعد، ٹھیک اسی دن بنگالی قومیت کا نعرہ بھی خلیج بنگال میں غرق ہو گیا۔ وہ کلکتہ جو بنگالیوں کی شناخت اور مرکز نگاہ تھا، وہاں پر آباد ہندو بنگالیوں نے مسلمان بنگالیوں کو اپنا نسلی بھائی اور ہم قوم ماننے سے یکسر انکار کر دیا۔ اس وقت کسی کو اکھنڈ بھارت یاد نہ آیا۔ بس اتنا کہا گیا کہ بنگلہ دیش اب ایک علیحدہ ملک ہوگا، کیوں؟ کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ صرف اس لئے کہ مغربی اور مشرقی بنگال کی یہ لکیر انگریز نے کھینچی تھی۔ نہیں، اس لیے کہ وہاں وہ بنگالی رہتے تھے جو کلمہ طیبہ پڑھتے تھے۔ ملیچھ یعنی ناپاک تھے۔ اس دن سے دنیا کے نقشے پر دو قومیتیں وجود میں آگئیں، بنگالی اور بنگلہ دیشی۔ منافقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔اصل میں یہ دو قومیں تھیں مسلمان اور غیر مسلم۔ آج ٹھیک اڑتالیس سال بعد، دسمبر ہی کے مہینے میں، شہریت کے متعلق بھارت کی لوک سبھا میں میں منظور ہونے والا سٹیزن شپ ایمینڈمنٹ بل (CAB)،دراصل اس نئے تخلیق کردہ ملک بنگلہ دیش اور نئی تخلیق کردہ قومیت ''بنگلہ دیشی'' کا منطقی نتیجہ ہے۔ وہ مشرقی پاکستان جنہیں ''خوشحال'' اور ''مہربان'' بھارت کا چہرہ ایک دوست کے روپ میں دکھایا گیا تھا۔ اسی خوبصورت فریب کا شکار بنگلہ دیشی، غربت و افلاس سے تنگ آکر بھارت کے پڑوسی علاقوں بنگال اور آسام کی طرف ہجرت کرنے لگ گئے۔1971 ء سے پہلے کسی نے افلاس سے مجبور ہو کر بھارت ہجرت نہیں کی تھی۔ لیکن تکلیف دہ حقائق یہ ہیں کہ 1971 ء سے 2019 ء تک کے 48 سالوں میں نوزائیدہ بنگلہ دیش کے ڈیڑھ کروڑ بنگلہ دیشی بھوک و افلاس سے تنگ آکر محنت مزدوری کے لیے بھارت کے مختلف شہروں میں جا کر آباد ہو گئے۔ بھارت کی وزارت داخلہ کے مطابق ہر سال تین لاکھ بنگلہ دیشی ''خوشحال'' بنگلہ دیش سے ''بدحال'' بھارت کی جانب روزگار تلاش کرنے کے لئے ہجرت کرتے ہیں۔ بھارت والوں نے شروع شروع میں تو انہیں سستے مزدوروں کے طور پر لیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب انہیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ بنگال اور آسام میں مسلمانوں کی آبادی میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے تو خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔ مغربی بنگال میں 1961 ء سے 1971 ء تک ہندوؤں کی آبادی 26 فیصد کے حساب سے بڑھی اور مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد کے حساب سے، لیکن 2001 ء سے 2011 ء تک ہندوؤں کی آبادی صرف 11 فیصد کے حساب سے اور مسلمانوں کی آبادی 22 فیصد کے حساب سے بڑھی۔ آسام میں تو یہ معاملہ اس قدر تیز ہوا کہ چاروں جانب خطرے کے سائرن بجنے لگے۔ 1961 ء سے 1971 ء تک آسام میں ہندوؤں کی آبادی 35 فیصد کی شرح سے بڑھتی رہی جبکہ مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد کی شرح سے بڑھی جبکہ 2001 ء سے 2011 ء کے درمیان ہندوؤں کی آبادی بڑھنے کی شرح صرف 11 فیصد رہ گئی اور مسلمان 30 فیصد کی شرح سے ہی بڑھتے رہے۔ اس مسلسل ہجرت نے پورے بھارت کی آبادی میں بھی ہندو مسلم شرح کو بری طرح متاثر کیا۔ یوں تو مسلمان آبادی میں اضافے کی شرح ہمیشہ سے ہی زیادہ رہی ہے یعنی 1 197 ء کی دس سالہ مردم شماری کے مطابق ہندوؤں کی آبادی میں 24 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا تھا جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں 31 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا۔ لیکن 2011 ء میں ہندوؤں کی آبادی میں شرح اضافہ گر کرصرف 17 فیصد رہ گئی جبکہ مسلمان آبادی اسی شرح سے آج بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ آسام وہ صوبہ تھا جہاں ان بنگلہ دیشی مسلمانوں کی آمد کے خلاف 1979 ء میں ہنگامے شروع ہوئے جو 1985 ء تک چھ سال جاری رہے۔ یہ ہنگامے انتہائی خونی شکل اختیار کر گئے تو آخرکار 15 اگست 1985 ء کو وزیراعظم راجیو گاندھی کی موجودگی میں ایک معاہدہ طے پایا کہ جو غیر ملکی جنوری 1966 ء سے مارچ 1971 تک آسام میں آکر آباد ہوئے ہیں انکی شہریت ختم کر دی جائے گی اور 1971 ء کے بعد آسام آنے والوں کو زبردستی بنگلہ دیش واپس بھیج دیا جائے گا۔ یہ سب وہ بنگلہ دیشی ہیں جن کی زبان، رنگ، نسل، قوم اور علاقہ وہاں کے لوگوں سے مشترک ہے، لیکن ان سے نفرت صرف ایک وجہ سے ہے، اور وجہ ہے ''لا الہ الا اللہ''۔ جوسیاست دان /دانشور زور و شور سے بولتے تھے کہ ہم نے دسمبر 1971ء میں دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے آج انہی کے ہر گھر سے ہندو قومیت کے روپ میں دو قومی نظریے کا پرچم بلند ہو رہا ہے۔ 1985 ء کے بعد آنے والا بھارت کا ہر دن بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس نظریے کی فتح کا دن ہے کہ یہ بھارت صرف اور صرف ہندوؤں کے لئے تھا، ان کے لئے ہی رہے گا اور کوئی اور ناپاک وجود یہاں نہیں رہنے دیا جائے گا۔ یہ شہریت کا بل ایک زناٹے دار تھپڑ ہے بنگلہ دیش اور افغانستان کی اس سیاست پر جو انہوں نے بھارت کے بل بوتے پر پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر کی۔ آج اس بل نے اعلان کردیا کہ مسلمان خواہ بنگلہ دیش سے ہو یا افغانستان سے، بھارت دھرتی پر قابل قبول نہیں، البتہ ہندوؤں کو خوش آمدید۔ اس سے بڑھ کر دو قومی نظریہ کی بلندی و سرفرازی اور فتح کیا ہوگی اور اس سے زیادہ اس بیانیے کی شکست کیا ہوگی کہ اس برصغیر میں صرف ایک تہذیب کی چادر اوڑھنے والی ایک قوم رہتی ہے۔ ستر سالہ منافقت کا دور ختم ہوا۔ سیکولر اور لبرل جمہوریت کا نقاب تار تار ہوا۔ رہے نام اللہ کا۔