ایک اک کر کے وہ تمام ممالک جہاں ’’اکثریت کی آمریت‘‘،کہ جسے عرفِ عام میں ’’جمہوریت‘‘کہتے ہیںنافذ ہے، ان کے چہروں سے نقاب اتر رہے ہیں اور اندر سے ان کے ظالم، متعصب اور خونیں چہرے بے نقاب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اسی چہرے کی نشاندہی تو اقبالؒ نے کی تھی۔سیکولرازم اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جس طرح ہر تخلیقی تجربے کا ایک لباس ہوتا ہے، جیسے شاعری میں نظم اور غزل، نثر میں ناول یا افسانہ اور چشمِ تصور میں ابھرنے والے مناظر کے لئے مصوری، اسی طرح سیکولرازم اور لبرل ازم کو اپنے اظہار کے لئے ایک’’ قوتِ نافذہ‘‘ چاہیے تھی جو اس نظریے کا لباس بن سکے، تو اس نے ’’انسانوں کی حاکمیت‘‘ کے نام پر ’’جمہوریت‘‘ کا چولا پہن لیا۔ یہ انسانی تاریخ میں اللہ کی حاکمیت، آسمانی ہدایت اور مذہبی اخلاقیات کے خلاف پہلی منظم ’’اجتماعی بغاوت‘‘ تھی۔ سیکولرازم اور لبرل ازم کے لئے یہ بغاوت اس لئے بھی ضروری تھی کہ جب تک انسانوں کو اس بات پر نہ اکسایا جائے کہ تم اس دنیا میں زندگی گذارنے کے لئے مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہو، اپنے لئے جو اخلاقی معیار چاہے بناؤ، جیسی خاندانی زندگی چاہے ترتیب دو، جزاء و و سزا کے جو پیمانے چاہے مقرر کرو، تمہیں مکمل طور پراس کا اختیار ہونا چاہیے۔یہی ہے جمہوری نظام کی روح اور اساس۔ اس جدید سیکولر، لبرل اور جمہوری نظام کی ’’جنم بھومی‘‘ فرانس کی سرزمین سمجھی جاتی ہے۔ قدیم جمہوری نظام کے آثار تو تین ہزار سال قبل ،یونان کی شہری ریاستوں میں بھی ملتے ہیں۔ اس قدیم جمہوری نظام کا پہلا ’’شہید ‘‘سقراط تھا، جسے ’’سچ‘‘ بولنے کی پاداش میں شہر کی منتخب اسمبلی نے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا تھا۔ مرنے سے پہلے اس کی تقریر کے الفاظ یہ تھے کہ’’ میرے خلاف ایک ہجوم نے فیصلہ دیا ہے اور ہجوم سے انصاف کی توقع نہیں رکھنی چاہیے‘‘۔لیکن جدید سیکولر جمہوری نظام کے خالق زیادہ تر ’’انقلابِ فرانس‘‘ کے آس پاس جلوہ گر نظر آتے ہیں۔’’ والٹیئر‘‘ اور’’ روسو‘‘ اس کے روح رواں تھے۔ یہیں سے یہ تصور برطانیہ میں عام ہوا۔ ’’جارج ہولی اوک‘‘(George Holyoake) نے سب سے پہلے فرانسیسی فلسفیوں کے مذہب بیزار تصور کو ’’سیکولرازم‘‘ کی اصطلاح بخشی۔ سیکولرازم کے تصور کا یہ بانی برطانیہ کا وہ آخری فرد تھا جسے توہینِ مذہب پر سزا سنائی گئی۔اسے زنجیروں میں جکڑ کر جیل خانے لے جایا جا رہا تھا کہ ہجوم نے اسے راستے میں روک لیا۔ اس مقدمے کے دوران برطانیہ کے اخبارات نے آزادیٔ اظہار کے نام پر ’’توہینِ مذہب‘‘ کی پہلے سے ہی کھل کرحمایت کر رکھی تھی۔لوگوں کے ہجوم کے نتیجے میںاگست 1842ء میں سیکولرازم کے اس بانی کو برطانوی ہوم سیکرٹری نے توہینِ مذہب جیسے سنگین جرم پر سزا نہ دینے کا اعلان کر دیا۔ یوں ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کے جدید دور کا آغاز ہوا ۔ اس کے بعد مذہب بیزاری اور مذہب دشمنی کی ایک طویل داستان ہے جس کا ایک ایک لمحہ مذہبی تصورات، مذہبی اخلاقیات اور مذہبی شخصیات کی توہین اور تضحیک سے عبارت ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد پورے مغرب کو جب اس بات کی لوریاں سنا سنا کر قائل کر لیا گیا کہ ’’انسان عظیم ہے خدایا‘‘، تو پھر وہ وقت آن پہنچا کہ اب مغرب کو ’’جمہوری لباس‘‘ پہنا دیا جانا چاہیے۔ یوں بیسویں صدی کے آغاز میں مغرب کے اکثر ممالک میں جمہوریت آگئی۔ گذشتہ ایک صدی سے قائم اس سیکولر جمہوری نظام کے تین بڑے مراکز ہیں۔ اپنی ابتدا اور جنم بھومی کے حساب سے ’’فرانس‘‘، آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت’’بھارت‘‘ اور طاقت و قوت اور غلبہ و اقتدار کے حساب سے سب سے بڑی بلکہ واحد عالمی طاقت ’’امریکہ‘‘۔ ان تینوں ممالک میں گذشتہ سالوں میںسیکولرازم، لبرل ازم اور جمہوری نظام کا جو نقاب الٹا ہے، اس نے اس کے کریہہ المنظر چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جمہوری نظام کو تخلیق کرنے والوں نے اس کی بنیاد دو اصولوں پر استوار کی تھی۔ پہلا اصول تھا ’’پاپولر مینڈیٹ‘‘، یعنی’’ ایک آدمی ایک ووٹ ‘‘اور دوسرا اصول تھا ’’سیاسی گروہ بندی‘‘یعنی پارٹی سسٹم۔ ان دونوں کے ذریعے مقتدر قوتوں یا آج کی زبان میں ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ نے سوچ سمجھ کر ایک مکروہ جال بچھایا۔ جمہوری نظام تخلیق کرنے والوں کو علم تھا کہ ہر معاشرے میں سوچنے سمجھنے والے ، غور کرنے اور رائے رکھنے والے لوگ اقلیت میں ہوتے ہیں، جب کہ اکثریت، سادہ ، بیوقوف، جاہل اور امورِ حکومت سے لاتعلق ہوتی ہے۔ اسی لئے اگر ہرشخص کی رائے کو برابرکر دیا جائے تو سوچ رکھنے والوں کی اقلیت بے معنی سی ہو کر رہ جائے گی۔ اسی طرح سیاسی پارٹیوں کی تخلیق بھی ضروری تھی تاکہ معاشرے کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے ایک کشمکش کے ذریعے دو بڑے طبقات ، حکومت اور اپوزیشن کوحصولِ اقتدارکی سولی پر لٹکا دیا جائے۔ پارٹی وفاداری کو مذہب کی طرح مقدس بنا کر سیاسی پارٹیاںمنظم کی جائیںاور پھر پارٹی فنڈنگ کے نام پر پوری کی پوری پارٹی کو خرید لیا جائے۔ یوں ان لیڈروں سے جیسا چاہے قانون منظور کروالیا جائے۔ پارٹی سسٹم کایہی کمال ہے کہ اس میں قانون سازی کے لیئے عوام کی رائے کی اکثریت کی ضرورت نہیںہوتی بلکہ ’’ پارٹی لائن‘‘اہم ہوتی ہے۔ ایک فیصد سے بھی کم لوگ اگر ہم جنس پرستی کے حق میں ہوں، توپھر بھی پارٹی لائن کے مطابق ’’سیکولر کارپوریٹ مافیا‘‘ کے خریدے ہوئے پارٹی ارکان ہم جنس پرستی کے حق میں قانون منظور کر لیتے ہیں۔ آج ٹھیک ایک سو سال گذرنے کے بعد سیکولر جمہوری نظام کے ان تین بڑے مراکزامریکہ، بھارت اور فرانس میں ’’اکثریت کی آمریت‘‘ کا بدترین اقتدار قائم ہو چکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا اس بات پر بھی حیران ہے کہ جمہوری نظام کو تخلیق کرنے والی پس پردہ قوتیں اسقدر طاقت ور ہیں کہ انہوں نے ہر ملک کے حساب سے ایک ایسا نظام تخلیق کیا ہے کہ عوام کی اکثریت کے فیصلے کو بھی، کسی بھی وقت کوڑے دان میں پھینکا جا سکتا ہے۔ امریکہ کے 2016ء کے الیکشن میں ہیلری کلنٹن کو چھ کروڑ اٹھاون لاکھ ووٹ ملے تھے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو چھ کروڑ انتیس لاکھ ، لیکن کرسی صدارت پر ٹرمپ فائز ہوا۔ آج چار سال بعد ٹرمپ اس نظام کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹارہاہے ۔ اس سیکولر جمہوری نظام میں عدالتیں بھی انصاف سے عاری ہوتی ہیں ۔ پورے امریکہ میں اسوقت یہی شور برپا ہے کہ سپریم کورٹ میں تو ری پبلیکن ججوں کی اکثریت ہے ،وہ کیسے انصاف کر سکتے ہیں۔ یعنی جس ملک میں ’’ اکثریت‘‘ آپ کے حق میں ہو، وہاں براہ راست اس کی ’’آمریت‘‘ نافذ کر دو اور جس ملک میں اکثریت آپ کے خلاف ہو وہاں پر ناجائز، غیر قانونی اور غیراخلاقی حربے استعمال کرتے ہوئے اکثریت کی رائے کو کچل کر رکھ دو۔ امریکہ جیسے ممالک میں یہ کام ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ یا’’ ڈیپ سٹیٹ‘‘ (Deep State) کرتی ہے جبکہ مصر اور الجزائر جیسے ممالک میں ’’فوجی قوت‘‘ سے اکثریت کو کچل دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فرانس اور بھارت میں جمہوریت کاایسا متعصب اورمکروہ چہرہ برآمد ہوا ہے کہ جو مذہبی تعصب کے خون سے لتھڑا ہوا ہے۔ ایک مذہب کی دوسرے مذہب پر آئینی بالا دستی صرف جمہوریت کے ’’پاپولر ووٹ‘‘ کی بنیاد پر ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ آج دنیا کے ہر کونے میں عالمی سطح پر بحث جاری ہے کہ ’’پاپولر ووٹ کا متبادل‘‘ کیا ہو سکتا ہے۔ بات آخر وہیں پر ختم ہوگی،کوئی مانے یا نہ مانے،حل وہی ہے جو تصور’’رائے یا ووٹ‘‘ کے بارے میں اسلام نے دیا ہے یعنی رائے کی گنتی نہیںبلکہ رائے کے وزن کو تولا جائے۔ اگر ہر حال میں جمہوری طور پر ووٹنگ کو ہی برقرار رکھنا ہے تو پھر آپ کوہر فرد کے ووٹ کا علیحدہ وزن کرنا ہوگا۔ ایک پی ایچ ڈی کا ووٹ دس میٹرک پاس لوگوں کے ووٹ کے برابر ہونا چاہیے۔ عدالت سے سزایافتہ، جیل میں قید ملزم، مجرم کو ووٹ کا حق نہیں ملنا چاہیے ۔صرف بے داغ اور غیر سزا یافتہ لوگ ہی ووٹ دیں۔ ایسے تصورات پر مبنی گفتگو آج پوری دنیا میں عام ہو چکی ہے۔ کیمونزم کی ناکامی کے تیس سال بعد،اب جمہوریت کی ناکامی کا باب بھی تحریر ہو رہا ہے۔