عرصہ پہلے کی بات ہے۔ تب پاکستان میں سول سوسائٹی اتنی فعال نہیں تھی۔ خدانخوستہ کوئی آزمائش درپیش ہوتی تو مساجد میں نمازیںا دا کی جاتیں ۔جان لیوا سانحہ ہوتا تو مرنے والوں کے لئے مغفرت کی دعائیں کی جاتیں۔ کوئی خوشی کا موقع آتا جو کم کم ہی آتا تو عوام اجتماعی شکرانے کے نوافل ادا کرتی۔ پرویز مشرف کا زمانہ آیاتو سول سوسائٹی بحالی جمہوریت کی تحریک میں وکلا اور میڈیا کے ساتھ سڑکوں پہ نکل آئی اور آمر کو وردی اتارنے پہ مجبور کردیا۔ اس کے بعد پاکستان کی "رجعت پسند" عوام،مٹھی بھر این جی اوز اور سول سوسائٹی کے ہاتھ ناریل کی طرح لگ گئی۔ ان دنوں دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے عروج پہ تھی۔ دنیا بھر میں دہشت گرد کا متفقہ حلیہ یہ تھا کہ اس کی بھرواں داڑھی ہو اور حسب توفیق و مقام سر پہ ٹوپی یا پگڑی ۔ مسلمان پیدائشی دہشت گرد تھا اور اس کا واحد مشغلہ یہ تھا کہ وہ جابے جا کسی بھی پرہجوم مقام پہ نعرہ تکبیر بلند کرکے پھٹ جایا کرتا ۔ اگر دہشت گردی کا شکار مقام لندن پیرس یاکوئی امریکی ریاست ہو تی تو سول سوسائٹی کی علمبردار خواتین کا غم دیدنی ہوتا۔ وہ موم بتیاں جلا کر دہشت گردی کے واقعے میں جاں بحق ہونے والوں کی یا د میں ریلیاں نکالا کرتیں اور دہشت گردوں کی مذمت میں جو ظاہر ہے مسلمان ہی ہوتے تھے، مظاہرے کیا کرتیں۔ موم بتیاں جلانے کی ابتدا کہاں سے ہوئی اس کا مجھے علم نہیں لیکن دہشت گردی کے مسلسل واقعات اور منطقی طور پہ اس کی مذمت کے اظہار کے لئے یہ عمل ساری دنیا میں مقبول ہوگیا۔ میں نے کئی سال قبل اس فیشن کو بھانپتے ہوئے سوشل میڈیا پہ متنبہ کیا کہ اس طرح پاکستان سمیت دنیا بھر میں غم اور خوشی کے اظہار کے مذہبی مظاہرکو سیکولر روایت میں تبدیل کیا جارہا ہے جس کا انجام یہ ہوگا کہ رفتہ رفتہ مذہبی عبادات کی جگہ ایسی سیکولر روایات لے لیں گی جو سب کے لئے قابل قبول ہوں۔یہ خدشہ درست ثابت ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے مذہب پسند معاشرے سے دعا، دعائے مغفرت اور شکرانے کے اجتماعی نوافل ختم ہوتے گئے اور ان کی جگہ موم بتیوں اور جائے حادثہ پہ مرحومین کی تصویروں اور پھولوں کے چڑھاووں نے لے لی۔ یہی کام رمضان کے مقدس مہینے کے ساتھ کیا گیا۔ اسلامی عبادات کو دیگر مذہبی عبادات پہ اسی طرح فوقیت حاصل ہے جس طرح اسلام کو دیگر مذاہب پہ ۔ ہمارے اس تخصص و تفاخر کو ایک اور طریقے سے لگام ڈالی گئی۔ امریکہ اور برطانیہ میں حکومتی سطح پہ مسلمانوں کے لئے افطار پارٹی کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے جس سے سربراہان مملکت خطاب کرتے اور مسلمانوں کو رمضان کا پیغام دیا کرتے۔ ایک عجیب روایت یہ ڈالی جانے لگی کہ افطار پارٹیوں میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے افراد کو بھی مدعو کیا جانے لگا۔ مجھے اس حرکت کی شرعی حیثیت کا علم نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ روزہ افطار کرنا نعوذ باللہ کوئی پکنک یا پارٹی جیسی لغو شے نہیں بلکہ بے پناہ اجرو فضیلت والی ایسی عبادت ہے جو مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگر غیر مسلموں کو افطار پارٹیوں میں اس لئے مدعو کیا جائے کہ ان پہ ہماری عبادات کی شوکت اور شکوہ کا اثر ہو اور وہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوں تو بلاشبہ یہ ایک مستحسن عمل ہے۔ایسا لیکن اس نیت سے کیا جائے کہ اسلام کو ایک ایسے ہومیو پیتھک اور غیر فعال مذہب کے طور پہ پیش کیا جانا مقصود ہو جس کی عبادات بھی دیگر مذاہب کی طرح رسومات سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی ہوں، تو یہ بدترین جرم اور اسلام جیسی نعمت عظمی کے ساتھ بدترین خیانت ہے۔ایسا لیکن کیا گیا اور ہم نے دیکھا کہ ہندوستان میں لکھنو کے مندر میں مسلمانوں کو افطار پارٹی دی گئی اور بتوں کی موجودگی میں مسلمانوں نے ہنسی خوشی افطار کیا۔ دنیا بھر میں رمضان کریم کو ایک ایسا فیسٹیول بنادیا گیا جس میں معاشی سرگرمی زیادہ سے زیادہ ہو اور بلا تفریق مذہب اس میں حسب توفیق ہر کوئی شریک ہوسکے۔ آپ عرب امارات میں اس کا مظاہرہ دیکھ سکتے ہیں جہاں روحانیت سے خالی رمضان المبارک جو اللہ اور رسول ﷺ کا محبوب ترین اور انتہائی افضل مہینہ ایک تہوار کی طرح منایا جاتا ہے۔یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کا کوئی مذہب جامد نہیں ہوتا۔ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ کوئی نظریہ جامد نہیں ہوتا اور مذہب بھی ایک نظریہ حیات ہے۔ ہر نظریے میں اتنا تعامل ہوتا ہے کہ اسے پھیلایا اور اس کی تبلیغ کی جائے حتی کہ لامذہبیت یا الحاد بھی ایک نظریہ ہی ہے جسے بالکل مذہبی نوعیت کی تبلیغ درکار ہوتی ہے۔یہ انسانی نفسیات ہے اور مذہب اس کا ایک مظہر ہے۔مذہبی عبادات کو رسومات میں بدل دینا اور رفتہ رفتہ دنیا کو ان کی جگہ ایسی علامات اور روایات پکڑا دینا جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو سیکولرازم کے مذہب کی اولین ترجیح ہے۔ یہ کھیل ایک عرصے سے ہمارے مذہبی معاشرے کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس کا لامحالہ اثر ہماری سیاست پہ بھی آیا بلکہ کچھ مخصوص قوم پرست جماعتوں نے اس میں بھرپور حصہ ڈالا۔ مجھے یاد ہے جب عراق پہ امریکہ نے حملہ کیا تو امریکہ کی حمایت میں ایم کیوایم کے حق پرستوں نے کراچی میں شمع بردار ریلی نکالی۔ہماری سیاسی جماعتیں اپنی بنیاد میں سیکولر ہی ہوتی ہیں کیونکہ انہیں سیکولر کے مذہب کے رکن اعلی جمہوریت کا پرچار اور تحفظ کرنا ہوتا ہے۔سیاست میں سیکولر ازم اور رائج برطانوی جمہوریت سے اس کے تعلق پہ خود مغرب میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے جسے میں نے بارہا نقل کیا ہے۔ اس کی تفصیل میں جائے بغیر ایک المیے کا اظہار ضروری ہے کہ اب نام نہادمذہبی جماعتوں میں بھی غیر مسلم ارکان شامل ہوتے ہیں۔ تین سال قبل اپنی پچھتر سالہ تاریخ میں پہلی بار جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں غیر مسلموں کو مدعوکیا گیا۔اسی کی دہائی سے اس جماعت کا اقلیتی ونگ کام کررہا ہے۔اس کے سربرآوردہ صالحین گرجاوں میں کرسمس کیک کاٹتے نظر آتے ہیں۔ایسے میں بلاول کراچی کے کسی مندر میں تلک لگائے شیو جی کی آرتی اتارے تو تکلیف کس کو ہوگی؟جن کی معیشت سوشلزم ہو ان کی سیاست میں اتنی گنجائش تو ہونی ہی چاہئے۔ مذہبی رواداری ایک علیحدہ شے ہے اور ہمارے مذہب کا جزو لاینفک ہے۔اس کی موجودگی کسی بھی معاشرے کی بقا کے لئے ضروری ہے لیکن جس ملک کی بنیاد دو قومی نظریہ ہو، جب وہاں سیکولر روایات کو غیر محسوس طریقے سے پروان چڑھایا جائے تو کچھ خطرے کی گھنٹیاں تو بجتی ہیں اور اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ توحید اور جہاد کے موٹو والی فوج میں سکھ اور ہندو بھرتی ہوتے اور مادر وطن کے تحفظ کی خاطرشہید بھی ہوتے ہیں پھر جب دشمن حملہ کرتا ہے تو ہم یہ قرآنی اعلان نہیں کرتے کہ تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو بلکہ قوم مطمئن رہے ہم اس کے دفاع کے لئے موجود ہیں جیسے دعوے کرتے ہیںاور جب فتحیاب ہوتے ہیں تو شکرانے کے نفل نہیں پڑھتے ، فیس بک پہ جگتیںمارتے ہیں۔