9 مارچ 2012ء کو اگر سہیل ظفر مرحوم کے فرزند خرم کو امریکہ سے ایک خاتون فیملی فرینڈ کی کال نہ آتی تو کبھی کسی کو آسیہ کے مرنے کی خبر نہ ملتی، اس خاتون نے آسیہ کے ساتھ اپنی ایک تازہ تصویر بھی فیس بک کے ذریعے بھجوائی، جو بظاہر کسی شادی تقریب میں اتاری گئی، کبھی لاکھوں دلوں پر راج کرنے والی آسیہ کے آخری دن کیسے گزرے؟ تصویر سب کچھ بتا رہی ہے، اسے چار دہائیاں پہلے اس کا ماموں اکرم کراچی سے لاہور لایا تھا، اس مامے کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑی تھی،1970ء میں شباب کیرانوی کی فلم ، انسان اور آدمی، نے آسیہ کو راتوں رات صف اول کی ہیروئن بنا دیا ، اس فلم کی کامیابی کے بعد ایک شام وہ ایور نیو اسٹوڈیو میں داخل ہو رہی تھی کہ اس پر رنگیلا کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جاوید رضا کی نظر پڑ گئی ، جاوید رضا کو سونگھنے کی عادت تھی، وہ اپنی اس عادت کو پورا کرنے کے لئے اپنی آنکھوں اور تمام حسوں کو ہر لمحے بیدار رکھتا تھا، اس روز وہ رنگیلا کے ساتھ ،، دل اور دنیا،، کی آؤٹ ڈور شوٹنگ سے واپس آیا تھا، آسیہ کو دیکھا تو وہ اسے رنگیلا کے دفتر لے گیا، ابھی وہ آسیہ کو شیشے میں اتار ہی رہا تھا کہ رنگیلا اندر آگیا ، جاوید رضا نے آسیہ کا تعارف کرایا تو رنگیلے نے کچھ بولنے کی بجائے آسیہ کو تکناشروع کر دیا ، جاوید سٹپٹا گیا ، رنگیلے نے جب آسیہ کا ایکسرے مکمل کر لیا تو اپنے مخصوص اسٹائل میں جاوید سے مخاطب ہوا، کل شوٹنگ ہوگی، اور اسی لڑکی کے ساتھ ہوگی، جاوید حیران تھا کہ کل شوٹنگ ہوگی تو کس فلم کی، کیونکہ دل اور دنیا کا گیت ،،یہ چمپا اور چمبیلی، کلیاں نئی نویلی،،،،،آج ہی دیبا پر فلمایا گیا تھا، اور اس فلم کی کہانی میں کوئی ایسا کردار بھی نہیں تھا ، جو آسیہ سے کرایا جا سکتا، جاوید کی یہ الجھن رنگیلے نے خود ہی دور کردی، دیبا کٹ ، اب دل اور دنیا کی اندھی ہیروئن آسیہ ہوگی۔ دل اور دنیا ریلیز ہوئی تو آسیہ نے گویا ساری ہیروئنوں کی چھٹی کرادی، ہر پروڈیوسر، ہر ڈائریکٹر اس کے پیچھے تھا۔ لیکن ایک کہانی آسیہ کے گھر میں بھی چل رہی تھی ، ایک تو تھا اس کا ماموں اکرم جو بعد میں حاجی اکرم بن گیا تھا، دوسرا آسیہ کا باپ، جسے شاہ جی کہہ کر پکارا جاتا تھا، یہ دونوں آسیہ پر جسمانی تشدد کیا کرتے تھے، یہ کیوں ہوتا تھا؟ اس بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے ، آسیہ کی بھی کوئی سہیلی کوئی دوست نہیں تھا جسے وہ اپنے نجی اور گھریلو مسائل سے آگاہ کرتی ، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس پر گھر میں تشدد کیوں ہوتا تھا،، بات یہ تھی کہ آسیہ کے ماموں اور باپ کو جوئے کی لت پڑ گئی تھی ، باری اسٹوڈیو میں ہر رات۔۔انورا، فیم خلیفہ نذیر برادران کے دفتر میں جواء ہوتا تھا،اس محفل میں جب یہ دونوں جیب میں پڑی رقوم ہار جاتے تو وہ آسیہ کو داؤ پر لگا دیتے ، اگلے دن لوگ بتاتے کہ رات ماما اور باپ آسیہ کو ہار گئے ، آسیہ کو ہارنے کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا کہ وہ جیتنے والے کی فلم میں مفت کام کرے گی، مولا جٹ کی تاریخی کامیابی کے بعد آسیہ تھانہ سمن آباد کے قریب طارق ماڈل اسکول کے سامنے ایک کرائے کی کوٹھی میں رہائش پذیر تھی ، ایک دن میں اسی گلی میں ایک دوست کے گھر بیٹھا تھا کہ اس دوست کے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ آسیہ اپنے گھر میں خود قلعی (رنگ و روغن) کر رہی ہے، یہ کام تو غریب لوگ بھی خود نہیں کرتے تھے ، آسیہ خود کیوں کر رہی ہے، میں تصدیق کرنے آسیہ کے گھر گیا تو وہ واقعی سیڑھی پر چڑھی ہوئی گھر کی بیرونی دیوار کو قلعی کر رہی تھی۔ یہ بھی شاید مامے اور باپ کی طرف سے دی گئی سزا تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر جانب آسیہ کے نام کا طوطی بج رہاتھا، اردو ہو یا پنجابی اس کی ہر فلم کامیاب ہو رہی تھی، سلطان راہی کو یہ مقبولیت بعد میں ملی تھی ، پھر ایک رات کیا ہوا؟؟؟ایک کیمرہ مین تھا ریاض بٹ، جو ہر فلمی لڑکی کو اپنی جاگیرتصور کرتا ، ہر لڑکی سے خراج وصول کرنا اپنا حق سمجھتا ،فلمی لڑکیاں بھی کیمرہ مینوں کو ڈائریکٹر اور پروڈیوسر سے زیادہ اہمیت دیتی تھیں ، ہیروئنز اور دوسری ایکٹرسوں کا خیال ہوتا ہے کہ کیمرہ مین چاہے تو انہیں اس طرح پکچرائز کر سکتا ہے کہ وہ راتوں رات اسٹار بن جائیں ، وہ کیمرہ مین کے تعاون سے جلدی جلدی زیادہ نمایاں ہو سکتی ہیں،ہالی وڈ اور بولی وڈ میں یہ اہمیت اسٹوری رائٹرز کو حاصل ہوتی ہے۔آسیہ ایور نیو اسٹوڈیو کے ایک فلور میں شوٹنگ کر رہی تھی، کیمرہ مین ریاض بٹ تھا، وقفہ ہوا تو وہ کسی طرح آسیہ کو بہلا پھسلا کر آغا جی اے گل کے آفس میں لے گیا، آغا صاحب اس وقت اپنے دفتر میں نہیں تھے، ان کی عدم موجودگی میں اسٹوڈیو اور دفتر کی نگرانی ان کا با اعتماد ملازم بوستان خان کرتا تھا، آغا صاحب کے آفس میں ریاض بٹ نے آسیہ سے دست درازی شروع کردی کہ اچانک بوستان خان اندر آ تا ہے اور آسیہ پر تھپڑ برسانے شروع کر دیتا ہے، اسٹوڈیو میں موجود تمام لوگ اس دفتر کے باہر جمع ہوجاتے ہیں، آسیہ کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے ، وہ کانپ رہی تھی ، وہ رو رہی تھی اور یہ ہجوم اسے تھو، تھو کر رہا تھا ، گھر واپسی پر اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہوگا، یہ صرف سوچا ہی جا سکتا ہے، کیا یہ واقعہ صرف ریاض بٹ کی حرکت تھا؟ یہ کسی دوسری ایکٹرس کا طے شدہ ڈرامہ بھی ہو تو سکتا ہے یہ بھی کہا گیا کہ بوستان خان آسیہ کا عاشق تھا ،اس نے آسیہ سے انتقام لیا، کیونکہ آسیہ نے اس کی خواہش یامحبت کو ٹھکرا دیا تھا۔یہ جو بھی ہوا، سو ہوا ، لیکن آسیہ اسی دن مر گئی تھی ،اگلے دن یوسف خان درجنوں لوگوں کے ساتھ آسیہ کے گھر گئے ، آسیہ پر کروڑوں کی سرمایہ کاری تھی ، یہ سرمایہ ڈوب جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا ، اسے اس بات پر منا لیا گیا کہ وہ زیر تکمیل فلمیں مکمل کرائے گی ، بنکاک کا ایک بزنس مین فاروق اس سے شادی کاخواہاں تھا، وہ اچانک ایک دن اس کے ہمراہ اپنا ملک ہی چھوڑ گئی۔ ٭٭٭٭٭ اب ایک قاری کا خط جو یوسف خیل پشاور سے موصول ہوا ہے میرا نام حمید اللہ ہے، پانچ بیٹیوں کا ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر باپ ہوں، کوئی بیٹا نہیں ہے، دوکمروں کے مکان میں رہتا ہوں، باورچی خانہ اور غسل خانہ بھی انہی دو کمروں کے اندر ہے۔ پنشن بہت معمولی سی ہے جس میں گزر بسر مشکل سے ہوتا ہے،ریٹائر ہوا تو دوبیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر دیے، جو بچا اس سے بیمار بیوی کا آپریشن کرا دیا،اب تین بیٹیاں گھر پر بیٹھی ہیں ،تینوں حافظ قران ہیں، ایک بیٹی کی دو سال پہلے منگنی کی تھی، لڑکے والے آئے روز شادی کا تقاضا کر رہے ہیں،لیکن میرے ہاتھ خالی ہیں، بیٹی کی شادی کیلئے اسی ہزار روپوں کا قرض حسنہ درکار ہے، جو پندرہ سو روپے کی پنشن سے ادا کر دوں گا ،اس امید پر آپ کو خط لکھ رہا ہوں کہ آپ شائع کرکے مجھ ناچار باپ پر احسان کریں گے، میری حافظ قران بیٹیاں دعائیں دیں گی۔۔ حمید اللہ ( ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر) سکنہ پلوسی روڈ ڈاک خانہ پوسٹل مال محلہ یوسف خیل پشاور 8148106 0303