میرے سامنے اسکرین پر چیختی چنگھاڑتی مریم اورنگزیب صاحبہ ہیں جن کے منہ سے اک بس جھاگ نہیں اڑ رہی مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب کبھی سہ پہر میں گھر کے آنگن میں اسکول کا کام کرتے ہوئے مداری کی ڈگڈگی کی آواز سنائی دیتی اور میں بھاگ کر باہر پہنچتا تومیلے لباس میں پکے رنگ والا مداری ریچھ کی رسی تھامے تماشے کی تیاری کر رہا ہوتا اس کے ساتھ عموما ایک چھوٹا بچہ بھی ہوتا تھا جو بیک وقت اسکا شاگرد معاون اور خزانچی بھی ہوتاتھا اس کا کام کرتب سیکھنے کے ساتھ ساتھ اسکی مدد کرنا اور آخر میں تماش بینوں کے سامنے ڈبہ کرکے پیسے اکھٹا کرنا ہوتا تھا یہ لڑکا بھی چھوٹے موٹے کرتب کرلیا کرتا تھا ان میں سے ایک منہ میں مٹی کا تیل بھر کر آگ کے گولے نکالنا بھی تھا میں یہ سب بڑی حیرت اور دلچسپی سے تکتا تھا آج مجھے ماڈل ٹاؤن میں کیمروں کے جھرمٹ کے سامنے کھڑی گرجتی برستی مریم اورنگزیب دیکھ کر وہی آگ کے گولے پھینکنے والا چھوٹا مداری یاد آگیاجومٹی کا تیل بھر بھرکرآگ سے بھڑکتی ڈنڈی منہ کے قریب کرکے تیل پھونک کر شعلے نکالتا تھا ۔ مریم بی بی یہ کام کسی تیل اور آگ کے بغیر کررہی تھیں اور کمال کاکر رہی تھیں وہ گرج برس رہی تھیں کڑکتی بجلی بن کر گر رہی تھیں غضبناک لہجے میں کہہ رہی تھیں کہ جب شہباز شریف کی نیب کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دی جاچکی ہے توان کی گرفتاری کے لئے نیب کی ٹیم کو گھر آنے اور لکی ایرانی سرکس کرنے کی کیا ضرورت تھی،مریم اورنگزیب صاحبہ نیوز چینلز پر براہ راست مخاطب تھیں وہ شعلہ بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آتشیں لب و لہجے میں نیب نیازی گٹھ جوڑ،چینی چور وزیر اعظم اور نالائق اعظم کی پھبتیاںکس کس کر پارٹی ترجمانی کے لئے اپنا انتخاب درست ثابت کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ،یہاں وہ میڈیا کے ذریعے گرج برس رہی تھیں اور دوسری جانب نیوز چینلزکے نیوز پروڈیوسرمقابلے کے لئے سرکار کی صفوں میں ہم پلہ شخصیت تلاش کر رہے تھے قرعہ فال وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان کے نام نکلا نیوز کاسٹر نے انہیں لائن پر لے لیا کہ مریم اورنگزیب صاحبہ تو یہ اور یہ کہہ رہی تھیں ،فیاض الحسن چوہان بھی تیزابی گفتگو میں سندیافتہ ہیں لیکن آج وہ کچھ مناسب بات کر رہے تھے ان کی گفتگو سے گندھک کا تیزابی لب و لہجہ نکال لیا جائے تو بات بڑی حد تک درست تھی کہ انہیں نیب نے طلب کیا تو انہیں جانا چاہئے تھا یہ عذر کہ نیب کے دفتر میں بھی کورونا وائرس دستک دے چکا ہے کچھ عجیب ساہے وہ جانے والے بنتے تومسلم لیگ ن کی جانب سے ڈاکٹروں میں تقسیم کی جانے والی حفاظتی کٹس میں سے کوئی ایک پہن کر بھی مثال بن سکتے تھے جس کے بعد یقینی طور پر کوسنے بددعائیں لعن طعن اور تبرہ نیب کا مقدر ٹھہرتالیکن گھر میں بیٹھی نیب ٹیم کے لئے انہتر سالہ قائد حزب اختلاف چھلاوہ بن گئے اور ایسے بنے کہ دوسرے دن عدالت میں ہی نمودارہوئے اور ضمانت قبل از گرفتاری لے کر سامنے آئے تھے۔ ،شہباز شریف پر آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے پر نیب متحرک ہے الزامات کی نوعیت کروڑوں نہیں اربوںروپے کی ہے شہباز شریف اس پر ہر اس سیاست دان کی طرح انکاری ہیں جن کی جانب انگشت شہادت سے اشارہ کیا جاتا ہے ہمارے یہاںکرپشن کورونا وائرس سے زیادہ عام ہے اسپتالوںسے لے کر عدالتوں تک کوئی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں کرپشن کی پھپھوندی نہ ہو ماسک دستانے اور فاصلوں کی مدد سے شائد بندہ کورونا وائرس سے بچ جائے لیکن کرپشن سے بچنا ممکن نہیں کھولتے تیل کی طرح سچ یہی ہے کہ اب کرپشن ہماری زندگی کا حصہ ہے اور لوگوں نے یہ سچ تسلیم بھی کرلیا ہے میں نے اپنے کانوں سے خلق خدا کو یہ کہتے سنا ہے کہ کیا ہوا اگر وہ کھاتا ہے ۔۔۔لگاتابھی تو ہے ۔ ہم لوگوں میں ’’ایماندار ‘‘ وہ ہے جو روپے میں چار آنے کھائے جو روپے میں پچاس پیسے خرد برد کرتاہے وہ اچھا اور جو پچھتر پیسے کا جادو کرتا ہے وہ عام سی بات ہے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیتا ان الزامات پر ان سوسائٹیوں میں نوٹس لئے جاتے ہیں جہاں اقدار زندہ ہوں ،یاد ش بخیر اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی بدمزاج اہلیہ کو عدالت نے پندرہ ہزار تین سو ڈالر کا جرمانہ کیا تھا ان پر الزام تھا کہ سرکاری باورچی کے ہوتے ہوئے انہوں نے باہر سے کھانے منگوائے ، مقدمہ عدالت میں چلا مقدمے کی نوعیت اور وکلاء کے دلائل تفتیش کاروں کے ثبوت دیکھتے ہوئے خاتون اول نے پلی بارگینگ میں بہتری سمجھی اور من پسند کھانوں کا بل اور جرمانے کی رقم ادا کرکے جان چھڑائی ہمارے ملک میں ایسی ’’کہانیاں‘‘ چائے کی چسکیوں کے ساتھ وقت گزارے کے لیے ہی سنی جا تی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ بھی سچ ہے کہ جہاںزنخوں کی تالیوں سے زیادہ ایک دوسرے پرکرپشن ، چور بازاری، اقرباء پروری کے الزامات ہوں کون نوٹس لیتا ہے ؟پہلے کبھی رشوت ستانی خبر ہوا کرتی تھی اب خبر یہ ہے کہ فلاں کا ’’ریٹ ‘‘ کم اور کام پکا ہے۔ ہمارے ملک میں الزامات اور سزاؤں سے کسی کی ساکھ متاثر نہیں ہوتی لیکن شاہد خاقان عباسی کواس چارج شیٹ کا جواب دینا ہوگا انہیں مافیا کا سہولت کار قرار دیا گیا ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ اس بار یہ تحقیقات نتیجہ خیز ثابت ہوں گی شاید اس بار بڑے بڑے سیاست دانوں بیوروکریٹس کا منہ کڑوا کردے کاش ایسا ہو جائے کہ کہیں سے توآغاز ہو!!