9اپریل قومی اسمبلی میں جبری ووٹنگ سے 21اپریل لاہور میں عمران خاں کے احتجاجی جلسے تک ایک طرف بہت تشویشناک صورت حال دکھائی دیتی ہے۔تو دوسری طرف اتنے ہی حوصلہ افزا اشارے بھی ہیں ۔ٹھیک پینتالیس(45) سال پہلے 9اپریل 1977ء بھی کم خوفناک نہیں تھا۔اس دن مال روڈ پر کسی کی ناجائز حکمرانی قائم رکھنے کے لئے خون بہایا گیا تھا۔پرامن اور نہتے شہریوں کا خون اسی دن اس بازار سے کرایہ پر لائی گئی اخلاق باختہ کسبیوں کو پولیس کی وردیاں پہنا کر پردہ دار خواتین پر چھوڑ دیا گیا، جو فاطمہ جناح روڈ پر احتجاج کے لئے جمع تھیں۔ان واقعات نے پورے ملک کو احتجاج میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا‘یہ احتجاج اس قدر موثر اور شدید تھا کہ چند دنوں میں پولیس اور شہری انتظامیہ بے بس اور مفلوج ہو کر رہ گئی۔ مجبوراً فوج کو بلانا پڑا ،فوج نے سیاسی طالع آزما کے لئے پرامن مگر پرجوش ہجوم پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ چار برگیڈیئر اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے، ان میں ہر ایک کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ پیشہ وارانہ امور میں اس قدر ادراک رکھتے ہیں کہ فوج کے اعلیٰ ترین منصب کو سر کر لیں گے، مگر غیر قانونی احکامات نہ ماننے کی پاداش میں ان کا سفر آدھی منزل پر تمام ہوا۔ اس کے بعد پانچ جولائی آیا سیاست کی بساط لپیٹ دی گئی اور … 45سال کے بعد 9اپریل پھر ایک سیاسی بحران نے سر اٹھایا ہے اور ہمارا سفر پانچ جولائی کی طرف گامزن ہے۔ Opertion Getting rid Imran khan. وزیر اعظم عمران خاں سے نجات حاصل کرنے کا منصوبہ بڑی عجلت میں بنایا گیا اور بڑے بھونڈے طریقے سے اس پر عملدرآمد ہوا۔ عموماً امریکہ کے سارے منصوبے اسی طرح بھونڈے اور کم تر ذہانت سے ترتیب دیے ہوتے ہیں، جو جلد ہی کھل کر سامنے آ جاتے اور اتنی ہی تیزی سے ناکام بنائے جا سکتے ہیں۔ بشرطیکہ کوئی انہیں ناکام بنانے کیلئے کمر بستہ ہو جائے۔ عمران خان سے نجات کی منصوبہ بندی پاکستان سے باہر امریکہ میں کی گئی۔اس پر عملدرآمد پاکستان میں امریکی سفارتکاروں نے کیا ،تمام کردار انہوں نے خود منتخب کئے اور ان سے ضروری معاملات طے کئے جو اس منصوبے کو ناکام بنا سکتے تھے ،انہیں بھی اعتماد میں لیا گیا۔ یہ سب کچھ چھپ چھپا کر بھی نہیں کیا گیا‘ تواتر سے ان سفارتکاروں کی ملاقاتیں اور دیگر سرگرمیاں اخبارات اور دیگرذرائع ابلاغ کی زینت بنتے رہے۔آخر میں انکی معاونت کیلئے زلمے خلیل زاد بھی موجود تھے، یہ خفیہ منصوبہ بس اتنا ہی خفیہ تھا کہ پاکستان میں ٹیلی ویژن پروگرام کے میزبان ارشد شریف نے امریکی اہلکاروں اور سفارتکاروں کی افرادی‘انفرادی اور اداروں کے سربراہوں تک سے ملاقاتوں کی صحیح تاریخ اور وقت کے ساتھ تفصیلات شائع کر دیں ،یوں کہ ‘جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی آپریشن تھا جیسا اسامہ بن لادن کے خلاف صدر بل کلنٹن کے دور میں کیا گیا جب بحیرہ عرب سے چھ درجن میزائل پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں اس کے ٹھکانے پر فائر کئے گئے۔عین اس وقت جب یہ میزائل چلائے جانے تھے امریکن سنٹرل کمانڈ کے چیف نے ایئر پورٹ اسلام آباد پر پاک فوج کے سربراہ جنرل جہانگیر کرامت کو ملاقات کیلئے مدعو کر رکھا تھا۔ٹھیک فائر شروع ہونے کیساتھ ہی امریکی جنرل نے جنرل جہانگیر کرامت کو بتایا کہ چند میزائل آپ کی فضائی حدود سے گزریں گے مگر یہ آپکے خلاف نہیں بلکہ افغانستان میں اسامہ کے ٹھکانے کو تباہ اور اسے ہلاک کرنے کے لئے فائر کئے ہیں، اب نہ ان میزائلوں کا توڑ ممکن تھا نہ کسی احتجاج سے کچھ حاصل۔بعینہ زلمے خلیل زاد عمران خاں کے خلاف آپریشن کے آخری لمحات میں موجود تھے کہ مبادا آخری منٹ پر ان کا بے احتیاطی سے بنایا گیا منصوبہ بھی ناکام نہ رہ جائے۔ پاکستان میں (Regime Change)یعنی حکومت کی تبدیلی کا امریکی منصوبہ پہلی بار نہیں بنایا اس سے پہلے ایسا منصوبہ 2008ء میں مشرف کے خلاف بنایا گیا اور وہ منصوبہ دس سال تک کامیابی سے چلایا جاتا رہا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صدر پاکستان جو فوج کے سربراہ بھی تھے ان کے خلاف بنایا گیا وہ اس قدر کند ذہن اور ناکارہ آدمی تھا کہ سارا منصوبہ اس نے اپنے خلاف اپنے ہاتھوں مکمل کیا۔اس زمانے میں بھی امریکی کٹھ پتلیاں یہی تھیں جو آج ہیں یعنی شریف خاندان اور زرداری ان دونوں کو باری باری اقتدار ملا اور امریکہ کو پاکستان اور افغانستان میں من مانی کی کھلی چھوٹ اس وقت پاکستان میں ان کی سرپرستی اور ضمانت کیلئے اشفاق پرویز کیانی کو مشرف کے ہاتھوں فوج کا سربراہ بنوایا گیا۔ زرداری کے بعد حسب وعدہ یا پروگرام کے مطابق اقتدار شریف خاندان کے سپرد کرنے کیلئے کیانی صاحب کو اپنے عہدے میں توسیع بھی دی گئی تھی ۔ 14برس پہلے حکومت کی تبدیلی اور آج میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت تھکا ہارا پرویز مشرف تھا عملدرآمد کے لئے خاموش طبع ذہین اور صاحب تدبیر اشفاق پرویز کیانی تھے۔مشرف لنگڑی بطخ کی طرح آسان شکار ثابت ہوئے آج مقابلے میں عمران خان ہے تازہ دم قوت عمل سے بھر پور شعلہ بیان متحرک اور عوام میں مقبول بھی ہے ۔ لنگڑی بطخ شکار کرنے والوں نے پردم عقاب پر غلیل چلا دی۔ 9اپریل قومی اسمبلی میں ’’جبری ووٹنگ‘‘ سے 21 اپریل لاہور میں عمران خاں کے احتجاجی جلسے تک ایک طرف بہت تشویشناک صورتحال دکھاتی دیتی ہے تو دوسری طرف اتنے ہی حوصلہ افزا اشارے بھی ہیں۔ اس فقرے سے آج کے کالم کا آغاز ہوا ہے ،یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے اتنا مختصر نہیں کہ اسے کالم میں نمٹا دیا جائے ماضی قریب کے چند واقعات کا ذکر کیا ہے جو ہماری نظروں کے سامنے نمودار ہوئے انکے اثرات اور نتائج کو محسوس کیا، بھگتا۔ بڑی حد تک خود اس کا حصہ بھی رہے اگرچہ بڑا معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ 45 سال پہلے کے 9اپریل کا ذکر ہے اور 14برس پہلے امریکہ کی طرف سے حکومت کی تبدیلی کا ذکر بھی۔ 45 بس طویل عرصہ ہے اور 14برس بھی کچھ کم نہیں لیکن آج وہ حالات پہلے سے ہیں نہ کردار‘ ایک زمانہ بیت گیا نئے لیڈر نئی قوم‘ شکست خوردہ نیم مردہ امریکہ پرانی سال خوردہ کٹھ پتلیاں اور تھکی ہوئی رعشہ زدہ بوڑھی انگلیاں جن کو حکم ہے کہ وہ ان کٹھ پتلیوں کو نچا کر تماش بینوں کو متوجہ کریں مگر تابہ کے۔وطن عزیز کی سیاست میں جو معرکہ جاری ہے اس کا انجام کیا ہونیوالا ہے؟ اس پر حکم لگانے کیلئے بہت زیادہ سوچ بچار کرنے‘ ڈیٹا اکٹھا کرنے‘ معلومات فراہم کرنے کیلئے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں ۔سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کھیل سامنے کھیلا جا رہا ہے‘ کھلاڑی نظروں کے سامنے ماضی کے حالات کارکردگی ہم سب جانتے ہیں جو باقی رہ گیا وہ شاکر شجاع آبادی کی زبانی: اساں اجڑے لوک مقدراں دے ویران نصیب دا حال نہ پُچھ توں شاکر آپ سیانا ایں ساڈا چہرہ پڑھ حالات نہ پُچھ عمران خان کی باڈی لینگوئج یا بدن بولی وزیر اعظم کے چہرے کی رنگت ‘کابینہ کے اڑے ہوئے رنگ مہربانوں کی وضاحتیں۔ ترجمانوں کی بے بسی ۔احسان دانش نے خوب کہا: یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے گیسو تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ یار زندہ صحبت باقی