وہ تھک کر چپ ہو گئیں مگر میں نے انہیں پھر اکسایا۔میں اس پورے سیاق وسباق سے واقف ہونا چاہتی تھی جس میں روبینہ باجی درانی صاحب(عبیداللہ درانی) سے ملی تھیں…یہ حالا ت تھے جب آغا جی کو فالج کا حملہ ہوا اور ہم پہنچ گئے پشاور ۔پشاور ایئر پورٹ پرہماری ملاقات درانی صاحبؒ سے ہوئی درانی صاحبؒ میرے سسر آغا جی کو پہلے سے جانتے تھے۔ میرے سسر ڈاکٹر نوازش علی قزلباش بھی پروفیسر تھے اور درانی صاحبؒ بھی پروفیسر تھے۔وہ باٹنی کے پروفیسر تھے اور درانی صاحبؒ انجینئرنگ کے پروفیسر تھے۔آغا جی نے بھی فارماسوٹیکل باٹنی میں کافی ریسرچ اور دریافتیں کی ہوئی ہیں۔ایک پلانٹ کا نام بھی ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔اس لئے ان کو بھی بہت سے لوگ جانتے تھے لیکن وہ انٹلیکچول کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور بابا جان کی تو بات ہی اور تھی نا۔He was lager than lifeپروفیسری تو میں سمجھتی ہوں ایک لیبل تھا جو ان کی ذات کو چھپانے کے لئے لگایا گیا تھا تاکہ کسی کو ان کی اصلی حیثیت کا پتہ نہ چلے کہ یہ کیا چیز ہیں۔یہ تو اب میرا خیال ہے لیکن اس وقت کی رائے پوچھیں تو وہ بہت humbleاور بہت غیر معمولی پروفیسر تھے۔اگر اس زاویے سے بھی دیکھیں تو لگتا تھا وہ الیکٹریکل انجینئر تو ہیں ہی لیکن سقراط اور افلاطون بھی ہیں۔‘‘ ’’روبینہ باجی‘سقراط اور افلاطون پر آکے رک گئی ہیں۔ارسطو کا نام نہیں لیا؟‘‘ دل میں میں نے سوچا اور خود ہی اس کی توجیہات تلاش کرنے لگی۔ ’’یہ وہ بات ہے جو میں نے اس وقت محسوس کی جب میں ان سے ملی۔اتنی brillianceاتنا profound intellectمیں نے تو نہیں دیکھا کبھی کہیں اور۔میں تمہیں بتائوں نجیبہ‘ اللہ نے مجھے بہت exposureدیا ہے۔میں زندگی میں بہت لوگوں سے مل چکی ہوں جن میں اپنے اپنے میدان کے بڑے غیر معمولی لوگ بھی شامل تھے‘مثلاً جن دنوں میں پیرس جایا کرتی تھی‘سارترا بھی زندہ تھا۔پھر Andre Malrauxتھا جو ان دنوں فرانس کا کلچر منسٹر تھا۔انٹرنیشنل کانفرنسوں میں میں دنیا بھر کے مشہور و معروف لوگوں سے مل چکی تھی لیکن کسی نے مجھ پر وہ اثر نہیں چھوڑا جو بابا جان کی موجودگی اور گفتگو نے کیا حالانکہ تب میں انہیں ایک پروفیسر سمجھ کر ملتی تھی‘کوئی ولی یا بزرگ سمجھ کر نہیں۔لیکن میں سوچتی تھی:خدایا‘یہ تو ایک زندہ سقراط ہمارے درمیان موجود ہیں‘ہم ان سے کچھ سیکھتے کیوں نہیں ہیں؟میں تو ان سے یہی سوچ کر ملتی تھی کہ میں اپنے عہد کے سقراط اور افلاطون سے مل رہی ہوں‘یہ سوچ کر نہیں کہ میں ایک saintسے مل رہی ہوں۔مجھے تو معلوم ہی نہ تھا کہ saintکیا اور کیسا ہوتا ہے۔‘‘ ’’پھر آپ کی ان سے پہلی ملاقات کیسے ہوئی‘روبینہ باجی !‘‘ میں نے مراجعت کی۔ ’’امتیاز لاہور جا رہے تھے ۔میں ان کے ساتھ ایئر پورٹ تک گئی۔جب ہم پشاور ایئر پورٹ پہنچے تو بابا جان اپنے کچھ مہمانوں کے ہمراہ‘جو سائوتھ افریقہ جا رہے تھے‘ایئر پورٹ پر موجود تھے۔یہ ان کے کوئی مرید تھے جو اپنی بچی کے علاج کے لئے بابا جان کے پاس آئے تھے اور اب اسے واپس لے جا رہے تھے۔یہ مجھے بعد میں پتا چلا کہ درانی صاحبؒامتیاز کو بچپن سے ایک پروفیسر دوست کے بیٹے کی حیثیت سے جانتے تھے۔انہیں دیکھتے ہی وہ اپنے مہمانوں کو بنچ پر بیٹھا چھوڑ کے امتیاز کے ساتھ چپک گئے۔یعنی فزیکلی جڑ گئے۔امتیاز بیٹھتے تھے تو ان کے جسم کے ساتھ جڑ کر بیٹھ جاتے تھے‘وہ کھڑے ہوتے تھے تو ان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے‘وہ ایک کائونٹر پر معلومات لینے گئے تو یہ بھی ساتھ ساتھ‘اسی طرح چپکے ہوئے‘کندھے سے کندھا جڑا ہوا۔پھر امتیاز کا جہاز لیٹ ہو گیا۔یہ امتیاز کے ساتھ جڑے جڑے ان سے باتیں کرتے رہے۔میں مسلسل انہیں دیکھتی رہی کہ یہ کیسے پروفیسر صاحب ہیں جو میرے خاوند کے ساتھ جڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کو اس بات کا احساس ہی نہیں۔یہ تو بہت بعد میں‘جب ان سے بے تکلفی ہو گئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ اس روز آپ امتیاز کے ساتھ جڑ کیوں گئے تھے؟تب انہوں نے بتایا کہ امتیاز ان دنوں شدید اذیت ‘کرب اور ذہنی دبائو میں تھے‘ اس لئے میں نے سوچا جتنا ہو سکے ان کا کرب جذب کر لوں۔ بابا جان کے مہمان‘جو سائوتھ افریقہ سے اپنی بچی کو بابا جان کے پاس لائے تھے‘مجھ سے باتیں کرنے لگے اور مجھے بتانے لگے کہ بابا جان اصل میں کون ہیں۔میں ان کی باتیں سنتی رہی۔ لاہور میں میں نے ایک پارسی سے meditationسیکھی تھی۔ transcendental meditationمیں وہ کیا کرتی تھی لیکن پشاور آ کر میری پریکٹس بالکل ختم ہو گئی تھی‘میں کر ہی نہیں سکتی تھی۔میں نے دل میں سوچا اچھا‘اگر یہ پروفیسر صاحب ایسے مزاج کے ہیں تو انہیں ضرور meditationکا پتا ہو گا۔میں ان سے جا کر پوچھوں گی کہ میں یہاں meditationکیوں نہیں کر سکتی؟ تو خیر‘امتیاز جب چلے گئے اور بابا جاان انہیں خدا حافظ کہہ کر واپس آئے تو بابا جان نے تو مجھے دیکھا تک نہیں‘میں ہی ان کو دیکھ رہی تھی۔میں نے ان کو روکا اور کہا: ''Sir I want to you something'' وہ کہنے لگے’ ’’جی کیا بات ہے؟‘‘ میں نے کہا: '' Sir do you know any thing about transcendental meditation?'' انہوں نے سر سے لے کر پائوں تک مجھے غور سے دیکھا۔ میں نے کہا: ''Sir I used to meditate but I can,t meditate here. I am looking for somebody to help me. Do you Know anything about it? Can you help me?'' ایک بار پھر سر سے پائوں تک مجھے دیکھ کر بولے: ''A girl like you... interested in transcendental medditation?'' کمال ہے!‘‘ بس یہ کہا اور چلے گئے۔میری بات کا کوئی جواب دیے بغیر ہی۔اور جس طریقے سے انہوں نے مجھے دیکھا ‘مجھے اتنی curiosityہو گئی کہ کسی طرح میں ان سے ملوں اور ان کو جانوں۔امتیاز لاہور سے واپس آئے تو میں نے ان سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ امتیاز نے بڑی مزاحمت کی‘کہنے لگے: ’’دیکھو ‘میں تمہیں خود لے کر جائوں گا۔پہلے ان سے وقت لوں گا‘اجازت لوں گا‘اگر وہ مان گئے تو خود تمہیں ساتھ لے کر جائوں گا اور پھر تمہیں باقاعدہ متعارف کروائوں گا۔ایسے ہی انہیں تنگ کرنے نہ چلی جانا۔‘‘ ایک ہفتہ گزرا ‘دس دن گزرے‘پندرہ دن گزر گئے۔امتیاز کو وقت ہی نہ ملا۔مصیبتوں میں جو پڑے ہوئے تھے۔اچانک ہمیں پتا چلا کہ ضیاء الحق سے مل کر فضل رازق ‘امتیاز کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے۔ضیاء ان دنوں ان سب لوگوں کی پکڑ دھکڑ کر رہا تھا جو بھٹو کے قریب رہے تھے اور بھٹو‘امتیاز کو بہت پسند کرتا تھا۔اس نے نیو یارک سے امتیاز کو فون کیا تھا کہ مجھے حکومت بنانے کے لئے تمہارے مشوروں کی ضرورت ہے اور جب وہ حکومت بنا رہا تھا تو امتیاز گورنمنٹ ہائوس میں موجود تھے۔بھٹو کی پہلی تقریر بھی امتیاز نے لکھی تھی‘پوری نہیں تو تقریباً نوے فیصد صد انہی کی لکھی ہوئی تھی۔مگر امتیاز کوئی سیاسی آدمی نہیں تھے۔لیکن اسی بات سے فائدہ اٹھا کر فضل رازق نے امتیاز کی گرفتاری کے احکام جاری کروا لئے۔ہمارے بھی کچھ دوست تھے جنہوں نے ہمیں کچھ دیر پہلے اس بارے میں اطلاع دے دی اور امتیاز کو مشورہ دیا کہ وہ کچھ عرصے کے لئے فوری طور پر ملک سے باہر چلے جائیں‘کیوں کہ یہ لوگ جب کسی کو پکڑ لیتے ہیں تو اسے کوڑے مارتے ہیں۔انہیں ڈر تھا ایسی کوئی نوبت آ گئی تو ہمارے بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا۔تو یوں امتیاز کچھ مہینے کے لئے ملک سے باہر چلے گئے۔ (جاری ہے)