شام سرمئی ہو رہی تھی‘نجیب احمد اور میں سوئے سیالکوٹ رواں تھے کہ وہاں کی ضلعی انتظامیہ نے حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال کی یاد میں ایک قومی مشاعرہ برپا کر رکھا تھا اقبال کے حوالے سے جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ پچھلے دو دنوں میں ہمارے کالم نگاروں نے ان پر کیا کیا کالم باندھے ہیں! بس ایک بنیادی بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شاعر مشرق کی شاعری کی بنیادی اکائی تحریک ہے کیونکہ وہ جمود کو موت سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں زندگی عمل ہی سے عبارت ہے۔ ان کی شاعری میں جو زندگی دھڑکتی ہے وہ انہیں جذبوں کی مرہون منت ہے جو انہیں بیداری نے بخشے ہیں۔ انہوں نے ہمارے لیے اک ایسا خواب دیکھا جس نے انہیں پھر سونے نہیں دیا۔ کیوں نہ ان کی نذر اک شعر کر دوں: میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا اور آپ کو یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ان کی ساری فلاسفی کے پیچھے جو روح رواں ہے وہ قرآن و سنت سے مستعار ہے۔ یہ بڑے شاعر کا کمال ہوتا ہے کہ وہ خرابی کی نشاندہی کرتا ہے تو پھر اس خرابی کو دور کرنے کا نسخہ بھی بتاتا ہے۔ یہ آپ ہی کی نظر بصیرت تھی کہ جس نے شیطان سے اس کی شوریٰ میں کہلوایا: وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو مجھے یہاں اپنے قلم کو مشاعرہ کی طرف موڑنا پڑے گا۔یہ ایک شاندار مشاعرہ تھا جو شہر اقبال میں بسنے والوں کے جذبوں کا آئینہ تھا میرا خوشگوار فریضہ ہے کہ میں آر پی او عباس قریشی‘ ڈی سی طاہر وٹو اور ڈی پی او عبدالغفار قیصرانی کو جی بھر کر داد دوں کہ انہوں نے مہمان شعرا کو بہت عزت و تکریم دی اور سب سے بڑی بات یہ افسران آخری وقت تک مشاعرے میں رہے اور سب کو داد بھی دیتے رہے۔ پتہ چلا کہ یہ سب شاعری کے گرویدہ ہیں۔ آصف بھلی جو ہمارے یونیورسٹی دور کے دوست ہیں۔ تب بھی ان کے چکنے چکنے پات تھے۔ حیرت ہوتی ہے ان کی کمپیئرنگ سن کر کہ وہ ابھی تک کسی چینل کی نظر میں کیوں نہیں آئے۔ آصف بھلی نے آغاز ہی میں بتایا کہ انہوں نے غالباً 1981ء میں فیض صاحب کا انٹرویو کرتے ہوئے ان سے پوچھا تھا کہ کیا اقبال کے بعد ان ہی کا نام آتا ہے۔ فیض تو عاشق اقبال تھے کہنے لگے کہ اقبال ایک بلند بالا پہاڑ ہے اور ہم تو اس کے دامن میں کھیلنے والے ایک کھلنڈرے بچے کی طرح ہیں۔کھلنڈرے بچے سے مجھے نجیب احمد کا لازوال شعر بھی ذہن میں آ گیا: کھلنڈرا سا کوئی بچہ ہے دریا سمندر تک اچھلتا جا رہا ہے صدارت بھی تو نجیب احمد کی تھی مہمانوں میں جان کاشمیری‘ محبوب ظفر‘ عباس تابش‘ شہزاد قمر‘ منصور آفاق‘ طارق نعیم‘ قمر رضا شہزاد اور شکیل جاذب تھے۔ لوگوں نے انہیں جی بھر کر سنا۔ قمر رضا شہزاد نے اچھی بات کی کہ وہ تو اقبال کے شہر میں آئے ہیں تو گویا اپنے مرشد خانے میں آئے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ اقبال کو مرشد ماننا بھی دانش کی دلیل ہے۔ زاہد فخری اور طاہر شاہیر نے بھی وہاں خوب رونق لگائی۔ سعید اقبال سعدی نے بھی بہت داد وصول کی: مولوی ہو یا فیشن ایبل لڑکی ہو دونوں دو دھاری تلواریں ہوتی ہیں ہوتے ہیں گفتار کے رسیا دونوں ہی دونوں کی اونچی شلواریں ہوتی ہیں ایک خوبصورت شعر شہزاد قمر کا بھی دیکھ لیں وہ دینہ سے تشریف لائے تھے: ہوائیں آئی ہیں میرے پروں میں دم لینے نڈھال ہوکے گرا جب کسی اڑان سے میں کچھ مزے مزے کی باتیں بھی چلتی رہیں کہ ایسی باتیں مشاعروں کا حسن ہوتی ہیں۔ مثلاً آصف بھلی نے ہمارے دوست محبوب ظفر کو بلانے سے پہلے ایک شعر میں خوب تصرف کیا: وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے اک نظر تم مرا محبوب ظفر تو دیکھو عباس تابش کا ایک شعر بھی دیکھیے: اس لیے اب میں کسی کو نہیں جانے دیتا جو مجھے چھوڑ کے جاتے ہیں چلے جاتے ہیں یہ تو آپ سمجھتے ہیں کہ کالم میں تمام شعرا کے شعر نقل نہیں ہو سکتے۔ وگرنہ سب کے اشعار لکھنے کے قابل تھے۔ ایک نعتیہ شعر جان کاشمیری کا ضرور لکھوں گا: اس لیے چاند کو محبوب کا منصب بخشا یہ محمدؐ کے اشارے کی زباں جانتا ہے نعت کے شعر کے ساتھ یاد آیا کہ نجیب احمد کی مشہور نعت کے لیے مطالبہ ہونے لگا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے یہ نعت 1976ء میں کہی تھی۔ بعدازاں اس زمین میں حسن نثار ‘زاہدفخری اور دوسرے شعرا نے نعتیں کہیں۔ نجیب صاحب کی نعت کے اشتعار: کاش میں بھی لحد کی مٹی میں آپؐ کے ہاتھ سے مِلا ہوتا آپؐ کا ہاتھ مجھ کو دفنا کر بن کے ابرِ دعا اُٹھا ہوتا ایک انسان دیکھتا میں نجیب اور قرآن پڑھ لیا ہوتا بہت ہی اچھی شاعری سننے کو ملی۔ آخری وقت تک پورا ہال لوگوں سے بھرا رہا۔ زاہد فخری نے بیٹی کے حوالے سے خوبصورت نظم پیش کی: نکّی جیہی اک دھی اے میری نکے تاریاں ورگی ساریاں ورگی لگدی اے پر اوہ نہیں ساریاں ورگی رات گئے یہ مشاعرہ ختم ہوا۔ ایک شعر کیساتھ اجازت: وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقین آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لیے