شمال مشرقی دہلی کی آبادی لگ بھگ 26 لاکھ ہے۔ وہاں 23 لاکھ ووٹرز ہیں۔ یہاں آبادی کی رہائش کی ترکیب ایسی نہیں کہ اکثریتی برادری ایک جگہ رہتی ہے اور اقلیتوں کی بستیاں اْن سے کافی فاصلے پر ہیں۔ نارتھ ایسٹ دہلی کی یکساں گلی اور بستی میں ہندو اور مسلمان دونوں رہتے ہیں۔ کہیں کہیں مسلمانوں اور ہندوؤں کے محلے جدا ہیں۔ دونوں برادریوں کے پڑوسی علاقے واضح طور پر مختلف اور جداگانہ دکھائی دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہاں ملی جلی آبادی ہے، جیسا کہ ہونا بھی چاہئے۔ دہلی میں یو پی، بہار اور اترکھنڈ سے کام کی تلاش میں آنے والے لوگ نہیں ہیں۔ انھیں دریائے یمنا کی کراسنگ کے وسیع تر علاقے میں جگہ دی گئی ہے۔ اس پس منظر میں دہلی فسادات میں جو معاشی نقصان ہوا، اْس کا تخمینہ کرنا اہم ہے۔ شمال مشرقی دہلی کے علاقہ شیو وِہار کا ہی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بیکری انڈسٹری کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ شیو وہار میں سنگین تشدد پیش آیا ہے۔ مقامی افراد اس کا تقابل شام (سیریا) سے کرنے لگے ہیں۔ شیو وہار والوں میں شاید ہی کسی نے سیریا کو دیکھا ہوگا، لیکن شیو وہار کو دیکھنے پر شام جیسا نظارہ ہورہا ہے۔ ہوسکتا ہے شیووہار کے لوگوں نے سیریا کی خانہ جنگی کے بارے میں ٹی وی چیانلوں پر دیکھا اور سنا ہے۔ اب وہ دیکھ سکتے ہیں کہ شیووہار کی کئی گلیاں، کئی سڑکیں جلی ہوئی ہیں۔ دْکانات جلی ہوئی ہیں۔ مکانات تباہ حال ہیں۔ ریلیف فارم پْر کرنے کیلئے آدھار کارڈ ضروری ہے۔ ریلیف فارم میں ووٹر آئی ڈی کارڈ کی تفصیل بھی پْر کی جاسکتی ہے۔ شیووہار بیکری بزنس سے پہچانا جاتا ہے۔ یہاں کے گلیوں و محلوں کے کئی مکانات میں بیکریاں قائم ہیں، جہاں فرخ آباد، ایٹاہ اور مین پوری (تمام اترپردیش کے اضلاع) کے کاریگر کام کرتے ہیں۔ ان بیکریوں میں غریب اور متوسط طبقہ والوں کیلئے کئی اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔بیکریوں کی کوئی یونین نہیں جو بیکریز کی قطعی تعداد بتا سکے۔ بعض بیکریوں کا کہنا ہے کہ شیووہار میں 1,500 تا 2,000 بیکریاں ہوں گے۔ کسی گھر میں چھوٹی بیکری چلائی جاتی ہے تو کسی گھر میں بڑی بیکری قائم ہے۔ ان بیکریوں میں 10 تا 12 ہزار افراد ملازم ہیں۔ اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ بڑی تعداد میں بیکریاں لوٹ لئے گئے اور نذر آتش کردیئے گئے ہیں۔ اسٹریٹ نمبر 12 میں واقع ’امن بیکری‘ والوں نے بتایا کہ روزانہ پچاس ہزار اشیائ￿ بیکری سے تیار کرکے مارکیٹ میں بھیجے جاتے ہیں۔ بیکری میں آٹھ لاکھ روپئے کی مشین نصب ہے۔ یہ مشین اور مکان آتشزنی کا بْری طرح شکار ہوئے ہیں۔ انھوں نے کوئی انشورنس کرایا ہوا نہیں ہے۔ اس بیکری میں آٹھ لوگ کام کرتے تھے۔ 30 سال قدیم بیکری جلا دی گئی۔ نیا بزنس قائم کرنے برسہا برس لگ جاتے ہیں۔ عام طور پر کاریگروں کو دس تا 15 ہزار کی کمائی ہوجاتی ہے۔ ان میں اکثریت اترپردیش کے اضلاع سے تعلق رکھتی ہے۔ اس محلے میں درجنوں بیکریاں قائم ہیں۔ چونکہ ان کا بیمہ نہیں کرایا گیا، اس لئے کوئی معاوضہ نہیں ملے گا۔ یوں ایک نسل کی محنت اور کمائی ضائع ہوگئے ہیں۔ دس ہزار لوگ آئندہ چند ماہ سے لے کر ایک سال کیلئے بے روزگار ہوگئے ہیں۔ہم نے چار ، پانچ بیکریوں کا بہ نفس نفیس جائزہ لیا۔ بعض جگہ پانچ لاکھ کی مشینیں نصب ہیں، بعض جگہوں پر آٹھ اور دس لاکھ کی مشینیں بھی نصب ہیں۔ بعض کا روزانہ پچاس ہزار اور دیگر کا دس تا 15 ہزار کا بزنس ہورہا تھا۔ کئی جگہوں پر ایسا ہے کہ گراؤنڈ فلور پر بیکری قائم ہے اور اوپری منزل پر مکان ہے۔ بیکری جلا دی گئی اور مکان کو لوٹ لیا گیا ہے۔ ’مسکان بیکری‘ کے مالک فرخ خان کو 12 تا 13 لاکھ روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ سلمان نامی بندہ مٹیریل سپلائی کرتا تھا، اسے روزانہ چھ تا سات ہزار کی کمائی ہوجاتی تھی، اسے بھی تین تا چار لاکھ کا نقصان ہوا ہے۔ ذین الدین کی ’سونم بیکری‘ کو بھی آگ لگا دی گئی۔ اس کے مکان میں بیٹی کی شادی کا سامان رکھا تھا۔ سب کچھ لوٹ لیا گیا، یا پھر جلا دیا گیا۔ اس بیکری و مکان کو دو ملین (بیس لاکھ) روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ اِسلام کی ریلیف بیکری آدھی جلی ہے۔ پھر بھی انھیں سات تا آٹھ لاکھ روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ان فسادات نے کاری معاشی ضرب لگائی ہے۔ اِس سنگین تشدد میں کتنے دکانات، یا مکانات جلائے گئے یا کتنا مالی نقصان ہوا، ان کی ٹھیک ٹھیک تعداد تو معلوم ہوتی رہے گی، لیکن کافی تشویش کی بات یہ ہے کہ متعدد بسے بسائے گھر، چالو کاروبار کا ستیاناس ہوگیا، ہزاروں افراد پہلے سے بے روزگار کروڑہا افراد کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ سب چھوٹے اور اوسط درجہ کے بزنس کی تباہی سے ہوا ہے۔ اگر بزنس محفوظ نہیں ہے تو جی ڈی پی (مجموعی دیسی پیداوار) میں بہتری کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ متعدد انٹری پرینرز کو 5 تا 20 لاکھ روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ کئی بیکری والوں نے کہا کہ آگ لگانے سے قبل فسادیوں نیدکان کی اشیاء لوٹی ہیں۔ فریج سے ٹی وی تک، میدہ سے بسکٹس تک۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فسادی اچھی تیاری کے ساتھ پہنچے۔ کوئی فریج آسانی سے نہیں اٹھایا جاسکتا ہے۔ شیو وہار کا فساد معاشی جڑوں پر بھی وار ہے۔ صرف حکومت ہی تحقیقات کرا سکتی ہے کہ کتنے سو کروڑ کا بیکری انڈسٹری کو نقصان ہوا ہے۔ کتنے ہزار لوگ اپنے جابس کھو چکے ہیں۔ اسی طرح فسادات نے ریڈی میڈ گارمنٹ سیکٹر کو بھی مساوی طور پر نشانہ بنایا۔ شمال مشرقی دہلی میں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ گھروں میں تیار ملبوسات کی 500 تا 700 مِنی فیکٹریاں قائم ہیں۔ ان کا تعلق گاندھی نگر (گجرات) سے ہے جہاں سے خام مال ناتھ ایسٹ دہلی کو آتا اور یہاں ریڈی میڈ گارمنٹس تیار ہوتے ہیں، جیسے جیکٹس اور ٹراوزرس وغیرہ۔ میٹرو لائن سیلم پور، جنتا کالونی، ویلکم کالونی اور جعفرآباد سے گزرتی ہے۔ اس کے نیچے بیوپاری بڑی تعداد میں ریڈی میڈ گارمنٹس اور دیگر کپڑے ٹھیلہ بنڈیوں اور رکشا وغیرہ پر اِدھر سے اْدھر گھوم کر اپنی اشیاء فروخت کرتے رہتے ہیں۔ گاندھی نگر سے آرڈرس لیتے ہوئے ریڈی میڈ گارمنٹس شمال مشرقی خطہ کی فیکٹریوں میں تیار کئے جاتے ہیں۔ کسی جگہ چند کاریگر کام کرتے ہیں تو کہیں پر 25 کاریگروں کا روزگار جڑا ہے۔ ان میں مختلف قسم کے کام کرنے والے ہوتے ہیں۔ سیونگ ورکرس، پیاکنگ ورکرس، کٹنگ ورکرس، وغیرہ۔ اس طرح یہاں کی ریڈی میڈ گارمنٹ انڈسٹری سے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کا پیٹ پلتا ہے۔ (بشکریہ:روزنامہ سیاست بھارت)