پہلے ذرا سلامتی کونسل کے 16اگست کے اجلاس پر بات ہوجائے کہ جس پر ہمارے کپتان کے اوپننگ بیٹسمین وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے وزارت خارجہ کے ’’بابو‘‘ پھولے نہیں سما رہے۔72سالہ طویل جد وجہد میں 70ہزار سے زائد کشمیریوں کی شہادت کے بعد 50سال۔۔۔جی ہاں، پوری نصف صدی بعد ’’مسئلہ ٔ کشمیر‘‘ پر محض سلامتی کونسل کی ایک نشست پر اتنا شور وغوغا ۔۔۔کم از کم معذرت کے ساتھ میرے معزز قابل احترام دوست شاہ محمود قریشی کو تو یہ زیب اس لئے بھی نہیں دیتا کہ وہ پیپلز پارٹی کی 2008ء کی حکومت میں ایک طویل عرصے وزیر خارجہ رہے۔ اور حیرت ہے کہ ’’بھٹو‘‘ کی پارٹی کے اُس وقت خاصے جوان ِ رعنا وزیر خارجہ نے اقوا م متحدہ کے اجلاسوں میں تواتر سے شرکت کے باوجود ۔۔۔ اس بات کی کوشش نہیں کی جو اُن کے فرائض ِ منصبی میں شامل تھی کہ کم از کم مسلسل خون سے رستے کشمیر پر ایک بار ہی سلامتی کونسل کو مجبور کرتے کہ وہ برصغیر پاک و ہند کے اس عظیم المیے پر زیادہ نہیں تو ایک مذمتی قرار داد ہی پاس کردیں۔جہاں تک میری یادداشت میںہے کہ محترم شاہ محمود قریشی نے ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے پر استعفیٰ دیاتھا۔تحریک انصاف میںاُن کی شمولیت بڑی دھوم دھام سے ہوئی اور یہ ایک اوپن سیکرٹ تھا کہ مستقبل میں جب بھی تحریک انصاف کی حکومت آئی تو وزارت خارجہ کا ہُما اُن ہی کے سر پہ سجے گا۔5اگست کو بھارت کے درندہ صفت حکمراں نریندر مودی کا آرٹیکل 370،35Aجیسا انتہائی قدم کوئی راتوں رات نہیں اٹھایا گیا تھا۔اس کے لئے ’’بی جے پی‘‘ سرکار کے دماغوں نے پورا ہوم ورک کیا تھا ،کہ انہیں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے شدید رد عمل کا پورا علم تھا۔اصل مسئلہ بیرونی محاذ کا تھا۔اب تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران ’’ثالثی‘‘ کا جو شوشہ چھوڑا گیا ،وہ بھی مودی کی حکمت ِ عملی کے حوالے سے ایک چال تھی۔جس میں ہمارے کپتان وزیر اعظم آبھی گئے ۔یہ کیسی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش تھی کہ صرف ہفتے بھر بعد نریندر مودی نے وہ انتہائی سفاکانہ قدم اٹھایا کہ جسے بھارت کی طاقتور ترین وزیر اعظم اندرا گاندھی تک کو اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی۔پاکستان کو دو لخت کردینے والی جواہر لال نہرو کی بیٹی کی یادداشت میں یہ ضرور محفوظ تھا کہ اُن کے والد نے راضی بہ خوشی متنازعہ کشمیر میں استصواب ِ رائے قبول نہیںکیاتھا۔چند ہزار معمولی ہتھیار وں سے لیس چھاپہ مار 40فیصد آزاد کشمیر سے ہوتے ہوئے سرینگر سے محض چار میل دور رہ گئے تھے۔اگر اُس وقت کے ہمارے پاکستانی حکمراں گومگو بلکہ خوف کا شکار نہ ہوتے تو ’’سقوطِ سرینگر‘‘ کا ہونا ٹھہر گیا تھا۔مہاراجہ ہری سنگھ تو پہلے ہی اپنے اہل خانہ اور مال و اسباب کے ساتھ فرار ہوچکا تھا۔پھر ’’سرینگر‘‘ پر قبضہ بھی کوئی اتنا آسان نہ تھا۔جغرافیائی یعنی سرحدی اعتبار سے بھارت کے لئے ہمارے مغربی یا مشرقی محاذ کی طرح چڑھائی کرنا اتنا آسان نہ تھا۔بھارت نے جو انگریز کے تربیت یافتہ چھاپہ مار اتارے وہ بھی اُس وقت پر جوش مزاحمت کرنے والے کشمیریوں کے آگے ’’ڈھیر‘‘ہوجاتے۔کہ اُس وقت کے مقبول ترین کشمیری رہنما شیخ عبداللہ دہلی حکومت کے زیر عتاب تھے۔ اور ان کی جماعت جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی مزاحمتی تحریک اپنے عروج پر تھی۔ جواہر لال نہرو جیسے ذہین و فطین رہنما کی یقینا دونوں محاذ یعنی داخلہ اور خارجہ پر بڑی کامیابی تھی کہ انہوں نے محض استصواب ِ رائے کی قرار داد پاس کرا کے ایک کروڑ کشمیریوں کو اپنی غلامی میں لے لیا۔جواہر لال نہرو جیسے بین ا لاقومی حالات کے نباض سے زیادہ کون جانتا تھا کہ برصغیر کو آزادی کسی قرار داد کے سبب نہیں ملی تھی ۔اس کے لئے دس لاکھ سے اوپر تو محض ہجرت کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔اوپر کی سطروں میں 50ء کی دہائی میں شیرِکشمیر کی شہرت رکھنے والے شیخ عبداللہ کا ذکر ذرا سرسری رہا ۔مگر تحریک ِ آزادی ِ کشمیر کی خونی تاریخ شیخ عبداللہ کے تفصیلی ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ۔زیادہ تفصیل سے عالمی تاریخ میں نہیں جاؤں گا۔مگر کیا قائد اعظم کے بغیر پاکستان کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہوسکتا تھا؟ ماؤزے تنگ کے بغیر چین کو آزادی مل سکتی تھی؟ہو چی منہ کی قیادت ہی ویتنام کی آزادی کی ضمانت تھی۔50ء کی دہائی کے آغاز میں کشمیری عوام کے لئے شیخ عبداللہ ایک نجات دہندہ کی حیثیت سے سامنے آئے تھے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری لے کر وطن لوٹے تو ساٹھ روپے ماہوار پر اسکول ٹیچر ہوگئے۔سرکاری ملازمتوں میں ہندو پنڈتوں کے مقابلے میں پڑھے لکھے مسلمانوں کو جس طرح امتیازی سلوک کیا جاتا اور ہندو بنیا جس طرح غریب کشمیریوں کا استحصال کرتا ،اُس نے جلد ہی انہیں سیاست کی پُر خار وادی میں دھکیل دیا۔اُس وقت کے مشہور مذہبی اسکالر میر واعظ محمد یوسف کے ساتھ شیخ عبداللہ نے ’’آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ‘‘ کی بنیاد رکھی۔مگر برصغیر پاک و ہند ،پھر خاص طور پر جموں کشمیر میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کے سبب انہوں نے اپنی ایک علیحدہ تنظیم تشکیل دی جس کا faceیعنی ہیئت سیکولر تھی۔ تاکہ بغیر نسل و مذہب کے دہلی سرکار کے خلاف آزادی کی تحریک لڑی جائے۔جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے نام سے تنظیم قائم کر کے وہ کانگریس خاص طور پر جواہر لال نہرو کی پُر کشش شخصیت کے اسیر ہوگئے۔شیخ عبداللہ کی کشمیر میں مقبولیت دیکھتے ہوئے ریاستی حکمرانوں نے انہیں جیل میں ڈال دیا۔تقسیم ِ ہند کے وقت شیخ عبداللہ جیل ہی میں تھے۔مگر سنہ1948ء میں جنگ بندی کے بعد جواہر لال نہرو اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ وہ شیخ عبداللہ کے بغیر سرینگر پر راج نہیں کرسکتے ۔نہرو نے اس وقت کے ریاستی حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ ریاستی سیٹ اپ میں شیخ عبداللہ کو کم سے کم نمبر دو پوزیشن دیں۔مارچ1948ء میں مہاراجہ جو ریاست کا وزیر اعظم کہلاتا تھا، شیخ عبداللہ کی جارحانہ سیاست اور سخت گیر حامیوں کے سبب اقتدار سے دست بردار ہو گیا۔جس کے بعد جموں و کشمیر میں جو نگراں سیٹ اپ بنا اُس کی سربراہی کا تاج دہلی سرکار نے شیخ عبد اللہ کے سر پہ رکھا۔ جواہر لال نہرو اور شیخ عبد اللہ کی ذاتی دوستی مثالی تھی۔مگر اُس کی بنیاد خلوص اور کمٹمنٹ پر نہیں تھی۔یوں یہ سمبندھ 1953ء میں ٹوٹ گیا اور پھر اگلے گیارہ سال شیخ عبداللہ اپنے دوست وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے قیدی رہے۔ (جاری ہے) کہیں 1964ء میںجا کر انہیں رہائی ملی۔سنہ1965ء کی جنگ بلکہ ’’آپریشن جبرالٹر ‘‘ سے پہلے۔ یہی نہیں ،بلکہ وہ اسلام آباد کے سرکاری دورے پر بھیجے بھی گئے۔شیخ عبداللہ تین دہائی کے سرد و گرم سے گزرنے کے بعد کشمیریوں کے بادشاہ گر بن چکے تھے۔اُن کا خیال تھا اور اپنی مقبولیت کے سبب یہ درست بھی تھا کہ وہ بیک وقت دونوں کشتیوں کے چپوؤں پرگرفت رکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔مگر جواہر لال نہرو کی ناگہانی موت اورپھر 65ء کی جنگ نے سارا نقشہ ہی تبدیل کردیا۔نہرو کے بعد اُن کی بیٹی اندرا گاندھی کے پاس شیخ عبداللہ کے پائے کا دوسرا رہنما بھی نہ تھا کہ جس سے وہ آزادی کا سودا سر میں سمائے بکھرے کشمیریوں کو قابو میں رکھتے۔اندرا/شیخ معاہدے کے نتیجے میں سن 1977ء میں ایک بار پھر وہ سرینگر کے تخت پر بیٹھنے میں کامیاب ہوگئے اور سن 1982ء میں اپنی وفات تک اس منصب پر فائض رہے۔مگر کشمیریوں کے پاپولر رہنما کی حیثیت سے نہیں، ایک puppetیعنی پٹھو کی حیثیت سے۔شیخ عبد اللہ کے بعد ریاست جموں و کشمیر کی وراثت ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹرفاروق عبداللہ کو ملی۔اور پھر یہ سن1987کے دھاندلی زدہ انتخابات ہی تھے جس نے 1990ء کی دہائی کی عظیم الشان تحریک کی بنیاد رکھی جس نے دہلی سرکار کو دہلا کر رکھ دیا۔(جاری ہے)