’’آپ ہی بتائیں میں کیا کروں ؟ بھارت پر حملہ کر دوں؟ ‘‘ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی بیچارگی اور جھنجھلاہٹ اپنے عروج پر تھی جب اپوزیشن کے سینیٹرز اور اراکین اسمبلی کے پہ در پہ حملوں کے بعد خان صاحب نے جس طرح بھارت پر حملہ کرنے کا اظہار کیا اس سے لگا کہ واقعی وہ ابھی تک کرکٹ کی کپتانی سے نہیں نکلے ورنہ اس بیچارگی اور بے بسی سے بھارت پر حملے کا اظہار نہ کرتے۔ اسکرینوں سے لگے کروڑوں پاکستانی عوام پچھلے بہتر گھنٹے سے بے زاری کی حد تک پریشان بلکہ شدید غصے میں ہیں کی جو اجلاس بھارتی وزیر اعظم مودی کی آرٹیکل 370شق 34-A جیسے سفاکانہ فیصلے کے خلاف کشمیری عوام سے یک جہتی کے لیے بلایا گیا تھا اسے حکومتی ارکان اور اپوزیشن نے سیاسی اکھاڑا بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ آخر خان صاحب کے وہ کون سے مشیر اور معاون ہیں جنہوں نے اس بات کا مشورہ دیا کہ اس نازک وقت میں اپنی سب سے بڑی مخالف جماعت کی صف اول کی رہنما بن جانے والی مریم نواز کو اس وقت گرفتار کیا جائے کہ جب وہ اپنے والد سے ملاقات کر کے کوٹ لکھ پت جیل سے باہر نکل رہیں تھیں اسے کسی طور پر بھی محض نیب کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا کہ اس سے پہلے بھی ایسے کئی احمقانہ اقدام سامنے ہیں جس سے حکومت کی نا صرف سبکی ہوئی بلکہ اسے اس پر معافی بھی مانگنی پڑی ۔ اس کی حالیہ مثال سینئر صحافی عرفان صدیقی کی ہتھکڑیوں میں گرفتاری اور پھر چھٹی کے دن رہائی ہے۔ سینیٹ کے الیکشن میں ہزیمت آمیز شکست کے بعد یقینا اپوزیشن یہ موقع کیسے ہاتھ سے جانے دیتی بلاول بھٹو زرداری جس طرح چیختے چلاتے پارلیمنٹ میں داخل ہوئے اور پھر اتنی ہی تیزی سے مریم نواز کی گرفتاری پر احتجاج کرتے باہر نکلے اتنے شدید رد عمل کا اظہار تو انہوں نے مودی کے اس وحشیانہ اقدام پر بھی نہیں کیا ہوگا ۔ گذشتہ تین دن میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں جو سو سے اوپر حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان نے جو تقاریر کیں ان میں سے اسّی فیصد سے زائد ایک دوسرے کو نیچھا دکھانے اور پوائنٹ اسکورنگ پر تھیں۔ کئی موقعے پر تو نوبت ہاتھاپائی تک آ گئی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ شرمناک تماشہ ساری دنیا پر دیکھ رہی ہوگی۔ جب ہمارے حکومتی اور اپوزیشن کے منتخب عوامی نمائندوں کا یہ حال ہو کہ پاکستان ہندوستان کے درمیان سنگین ترین مسئلہ پر ایک جنگ کی سی کیفیت ہواور ادھر حال یہ کہ اپنے اپنے مفادات اور پارٹی کے لیے ان کے گلے بیٹھے جا رہے ہوں ایسے میں ہم اسلامی ممالک اور عالمی رائے عامہ کو کیا دوش دیں کہ ان کا مودی کے اس انتہائی اقدام پر رد عمل معمول سے زیادہ نہیں ۔ جس دن بھارتی پارلیمنٹ آرٹیکل 370کی قراداد پاس کر رہی تھی ٹھیک اسی وقت جدہ میں OIC کا اجلاس شروع ہوا تھا جی ہاں 56 اسلامی ملکوں کے نمائندوں نے اتنا بھی پر جوش احتجاج نہ کیا کہ جتنا کہ بھارت کی اپوزیشن کے ارکان نے مودی حکومت کے خلاف کیا ہوگا۔ قومی سلامتی کونسل نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ فرضی نوعیت کے ہیں، اقوام متحدہ سے بھی صرف یہی امید کی جائے گی کہ روایتی طور پر یہ مطالبہ کریں گے کہ فریقین کشیدگی میں کمی لائیں۔ اور تو اور حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کا دوسرا گھر متحدہ عرب امارات کے سفارتکار نے تو بھارتی اقدام کا خیر مقدم تک کر ڈالا۔ ہمارے برادر ملک ترکی کے صدر کا بیان بھی روایت سے ہٹ کر نہ تھا، ایک بس ہمارا دوست چین ہی ہے جس نے بھارتی اقدام پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ مگر اس میں بھی انہوں نے لداخ کا ذکر کرنا زیادہ ضروری سمجھا، جہاں تک واشنگٹن کا تعلق ہے تو وہاں سے موصول ہونے والا پیغام میں صاف تھا کہ اس وقت ان کی توجہ افغانستان پر ہے۔ یوں رہے مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ بیس لاکھ مظلوم عوام جو 60 ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور جن کے حوصلوں کو بھارت کی 8لاکھ فوج بھی پسپا نا کر سکی۔ انتہائی بے بسی کے عالم میں اس بات کے منتظر ہیں کے مودی کے اس انتہائی اقدام پر بھی پاکستان عالم اسلام کا یہی روایتی رد عمل رہا اس کے بعد اور ایسی کون سی قیامت ہے جو دلی سرکار ان پر ڈھا سکتی ہے۔ اس وقت میں کشمیریوں کی طویل تاریخ میں نہیں جاؤں گا کہ جس میں وہ دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ بیک وقت ڈسے جاتے رہے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں میں بلا شبہ اس بات کا کریڈٹ تو صرف بانی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کو ہی جائے گا کہ انہوں نے سنہ 1965 ء میں آپریشن جبرالٹر ہی نہیں بلکہ ایٹمی قوّت کی بنیاد رکھ کر بھارت کو جواب دیا تھا کہ وہ کشمیریوں کہ خود مختاری کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ بعد کے برسوں میں تو ہمارے حکمران کرکٹ ڈپلومیسی ہی کھیلتے رہے کیا جنرل ضیاء الحق کیا جنرل پرویز مشرف۔ رہے ہمارے میاں نواز شریف تو انہوں نے با جماعت اٹل بہاری واجپائی کو بھی سرخ قالین پر خوش آمدید کہا اور مودی کو تو خیر اپنی نواسی کی شادی میں بھی بڑی دھوم دھام سے اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس وقت تو POORخان صاحب کی حکومت اندرون محاذپر ہی اتنی جکڑی ہوئی ہے کہ وہ بھارتی محاذ پر محض بیانوں سے زیادہ کوئی قدم اٹھانے کے قابل نہیں لیکن جولائی 2016ء میں برھان وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں کی آزادی نے جو نیا رخ اختیار کیا ہے اسے اب پاکستان سمیت کسی دوسرے ملک کی زبانی کلامی حمایت کی یوں بھی ضرورت نہیں آرٹیکل 370 کے بعد بھارت کشمیر کھو چکا ہے۔