پروفیسر سعید احمد سعید نے اپنی ایک تحریر میں’’دستِ سوس‘‘ کا ایک خوبصورت جملہ استعمال کیا ،جو یوں ہے۔’’وہ ایک شعلہ مستعجل تھا جو اپنی آگ میں آپ ہی جل بجھا‘‘ ۔ تحریک انصاف کے طرز حکمرانی اور حکومتی رٹ کے تناظر میں یہ جملہ عمران خاں پر صادق آتا ہے۔ ڈسکہ کے دھند زدہ الیکشن اور الیکشن کمشن کے این اے 75میں دوبارہ پولنگ کروانے کے فیصلے کے خلاف وزیر اعظم کی ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی ہدایت کے بعد حکومت اور الیکشن کمشن دونوں ہی میڈیا کا موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کی طرح میڈیا میں بھی دو رائے موجود ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ جب مسلم لیگ (ن)360حلقوں میں 337کے نتائج کو نہ صرف تسلیم کر چکی تھی اور لگ بھگ تین ہزار ووٹوں سے جیت رہی تھی تو پھر الیکشن کمشن نے پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا فیصلہ کیوں دیا؟ کچھ مبصرین حکومت پر تنقید کر رہے ہیں اور عمران خان کو انتخابی شفافیت پر 126دن کا دھرنا یاد دلا رہے ہیں۔ عوامی سطح پر بھی تقسیم کچھ یوں ہے کہ مسلم لیگ (ن )کے حامی حکومت کے ہائی کورٹ میں جانے کے فیصلے کو عمران خاں کا ایک اور یوٹرن اور منافقت ثابت کرنے پر بضد ہیں۔جہاں تک تحریک انصاف کے خیر خواہوں اور حامیوں کا سوال ہے تو ان میں سے غیر مشروط حامی تحریک انصاف کے اس فیصلے کی آنکھیں بند کر کے حمایت کر رہے ہیں جبکہ غیر جانبدارلکھنے والوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو عمران خاں کو شعلہ مستعجل سمجھتے ہیں جو اپنی میرٹ اور شفافیت کی آگ میں آپ ہی جل بجھا ہے۔19فروری کو ڈسکہ میں الیکشن کے دوران جو کچھ ہوا وہ حکومتی بد انتظامی کی بد ترین مثال ہے۔ بھلے ہی طاقت کے اس استعمال میں مسلم لیگ کا ہاتھ ہو، عمران خاں خود کو الیکشن کے دوران جاں بحق ہونے والے دو نوجوانوں کے خون ناحق سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مسلم لیگ ن نے طے شدہ منصوبے کے تحت بٹ برادران کے ذریعے پولنگ سٹیشن پر خوف ہراس پھیلانے کی سازش رچی ، تب بھی الیکشن میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری حکومت ہی کی بنتی ہے ۔ الیکشن کے بعد 20 پولنگ سٹیشنز کے عملہ کو نتائج اور ووٹ لے کر آر او آفس پہنچانا حکومت کی ذمہ داری تھی ناکہ مسلم لیگ (ن ) کی ۔ اپوزیشن پر کوئی جتنے بھی الزام دھر لے مگر ڈسکہ الیکشن میں ہونے والی بدنظمی اور کوتاہی کے الزام سے تحریک انصاف کو بری نہیں کرسکتا۔ ڈسکہ کے انتخابات کے بعد عام آدمی کے ذھن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا عمران خاں کے شفافیت، میرٹ اور انصاف کے دعوے دھوکہ اور منافقت تھے؟یا پھر عمران خاں حکومت میں ہوتے ہوئے بھی بے بس ہیں؟۔ اس سوال کا جواب سمجھنے کے لئے تحریک انصاف کے دو برس کے اقتدار کا جائزہ ضروری ہے۔ ڈیڑھ سال حکومت کرنے کے بعد خود وزیر اعظم اپنے ماتحت کام کرنے والی بیورو کریسی کے تعاون نہ کرنے کی شکایت کر چکے ہیں ۔ ان کے ایک مشیر تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ پنجاب کی 85 فیصد بیورو کریسی اس امید پر حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی کہ ان کو یقین ہے مسلم لیگ (ن )دوبارہ حکومت میں آ جائے گی۔ تحریک انصاف کی مخلص قیادت اور بیورو کریسی کے حوالے سے اندر کی خبر رکھنے والوں کا مانناہے کہ بیوروکریسی تحریک انصاف کو ناکام کرنے کے لیے ’’سلو ڈائون‘‘ حکمت عملی پر خاموشی سے کاربند ہے۔ بیورو کریسی کے اسی چلن کی وجہ سے اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کے سونامی کا سامنا بھی سب سے زیادہ وفاق اور پنجاب کی بیورو کریسی کو کرنا پڑا ہے۔ وزیر اعظم کے وسیم اکرم پلس نے اپنے ڈیڑھ سال کے اقتدار میں تین چیف سیکرٹری اورپانچ آئی جی ہی تبدیلی نہیں کئے بلکہ اس مدت میں 129اعلیٰ افسران کے تبادلے بھی کیے جس کا جواب افسر شاہی نے ڈسکہ الیکشن کے دوران اپنے بہترین’’ سلوڈائون‘‘ سے دیا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خاں وہ شعلہ مستعجل ثابت ہو رہے ہیں جو کرپٹ نظام کو جلانے کے بجائے خود جل کر راکھ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بھی نہیں کی حکومت اپنے ایجنڈے پر علمدآرمد کے لیے کوشش نہیں کر رہی۔ نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے تبادلوں کے علاوہ تحریک انصاف سول بیورو کریسی کے نظام میں اصلاحات پر بھی کام کر رہی ہے مگر اب تک تمام کاوشیں نقش بر آب ثابت ہورہی ہیں۔ اصلاحات کی بات کریں تو بیڈ گورننس کے خاتمے اور بیورو کریسی کو فعال کرنے کے لئے اوسطاً ہر تین سال بعد اصلاحات کی جاتی ہیں۔قیام پاکستان سے اب تک تقریباً 26نامور کمیشن، ٹاسک فورسز اور ایک شخصی اسکواڈ تشکیل دیے جا چکے ہیں تاکہ بہتر حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان اصلاحاتی کمیشنوں کی سربراہی برطانوی افسران بھی کرتے رہے۔ 1958ء سے ان کی قیادت جی احمد، جسٹس کارنیلئیس، خورشد حسن میر، جسٹس انوار الحق، جسٹس دراب پٹیل، راجہ ظفر الحق ،حامد ناصر چٹھہ ،فخر امام ،ڈاکٹر شاہد امجد، جنرل نقوی نے کی ۔ اب وزیراعظم نے یہ کام ڈاکٹر عشرت حسین کو سونپا ہے۔ ماضی میں ان کمیشنوں کے قیام کے مقاصد الٹ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے گورننس اور ریاستی عمل داری بتدریج گر رہی ہے۔ حکومت نے افسر شاہی کو کنٹرول کرنے کے بہت جتن کئے ۔ تبادلوں، اصلاحات نتیجہ یہ نکلا؟ کہ20پولنگ سٹیشنوں کا عملہ غائب ہوتا ہے تو چیف الیکشن کمشن رات تین بجے تک عملہ اور انتظامیہ دونوں سے فون رابطہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں مگر حکومتی انتظامی مشینری اپنے بہترین سلوڈائون کا مظاہرہ کرتی ہے ۔ حکومت اور بیورو کریسی کے درمیان سرد جنگ کی وجہ سے لوگوں میں تحریک انصاف سے وابستہ تبدیلی کی امید دم توڑتی جا رہی ہیں۔این اے 75کے ری پولنگ کے فیصلے کے خلاف حکومت کی اپیل اور الیکشن میں بد نظمی پر سلوڈائون کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی سے حکومتی گریزکے بعد عمران خان کے حامی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ ایک شعلہ مستعجل تھا جو اپنی آگ میں آپ ہی جل بجھا۔