چونیاں میں بچوں سے زیادتی اور قتل کے ملزم سہیل شہزاد کی گرفتاری پر وزیر اعظم عمران خان کی سردار محمد عثمان بزدار کو شاباش ان سیاسی ناقدین کے لئے مایوسی کا پیغام ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب کی رخصتی کی تاریخ دے چکے ہیں‘ تاریخیں تو خیر یار لوگ عمران خان کے کوچۂ اقتدار سے نکلنے کی بھی دیتے چلے آ رہے ہیں اور غالباً انہی طوطا فال نکالنے والوں نے چکمہ دے کر مولانا فضل الرحمن کو اکتوبر میں اسلام آباد کے لاک ڈائون کی راہ دکھائی‘ زود فہم اور دور اندیش مولانا خوش فہمی کے جال میں پھنستے نہیں مگر اقتدار کی راہداریوں سے پہلی بار دوری اور مہجوری کے سبب یقین کر لیا کہ نومبر تبدیلیوں کی نوید لا سکتا ہے‘ نومبر میں فوجی کمان تبدیل ہوتی ہے اور ہمارے جمہوریت پسند‘ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے علمبردار سیاستدان ان تبدیلیوں سے بہت سی حقیقی اور غیر حقیقی توقعات وابستہ کرتے ہیں‘ اپنی جگہ وہ سچے بھی ہیں کہ ماضی میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے انہی تبدیلیوں کے طفیل ملک کو باری کے بخار میں مبتلا رکھا اور جنرل اسلم بیگ سے جنرل اشفاق پرویز کیانی تک ہر آرمی چیف سے حسب توفیق و حسب منشا فیض پایا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو وزیر اعظم عمران خان نے اگلے تین سال کے لئے موجودہ منصب پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جس کے بارے میں مولانا کو اب تک کسی نے بتایا نہیں یا وہ پرانی اطلاع کو مصدقہ سمجھتے ہیں۔ عمران خان کی ٹیم کے بعض ارکان اپنی سرگرمیوں اور کار گزاری کے حوالے سے مسلسل ہدف تنقید ہیں اور انہی کے کرتوتوں کا خمیازہ عمران خان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ عثمان خان بزدار مگر حریفوں سے زیادہ حلیفوں اور بیگانوں کے بجائے اپنوں کا ہدف ہیں‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں بھی دھڑے بندی رہی اور ہے ‘چودھری نثار علی خاں اور خواجہ آصف میں بول چال بند تھی اور دوران اقتدار میاں شہباز شریف اور مریم نواز کے الگ الگ دھڑے باہم برسر پیکار۔ میاں شہبازشریف کے مدمقابل مگر کوئی وزارت اعلیٰ کا امیدوار تھا نہ میاں نواز شریف کے نعم البدل ہونے کا دعویدار۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے کھینچا تانی ہوئی مگر بھٹو صاحب نے مصطفی کھر سمیت امیدواران وزارت اعلیٰ کی گوشمالی کی‘ پھر کسی کو سازش کی جرأت نہ ہوئی‘ تحریک انصاف کا باوا آدم البتہ نرالا ہے پنجاب میں عثمان بزدار وزیر اعلیٰ ہیں اور ان کے کئی وزیر جانشینی کو بے تاب۔ بیورو کریسی یکسو ہو تو کیسے ؟اور میڈیا بزدار کوسنجیدگی سے لے تو کیونکر؟ قصور میں چار بچوں سے زیادتی اور قتل کا سانحہ رونما ہوا تو چہار سو موجودہ حکومت کی نااہلی کا ڈنکا بجا‘ چند ہی روز میں مگر مجرم نہ صرف گرفتارہوگیا بلکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کئے گئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ’’میرا بچہ الرٹ‘‘ کے نام سے خصوصی ایپلی کیشن بنانے کا حکم دیا‘ جبکہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے سیف سٹی پراجیکٹ کا دائرہ اس علاقے تک بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے قاتل کی بہ عجلت گرفتاری اگر کارنامہ نہیں تو تسلی بخش اقدام ضرور ہے۔ معصوم زینب کے قاتل کی گرفتاری ہنگامہ خیز اور پرتشدد مظاہروں کے بعد ہوئی ‘جبکہ زینب کے قتل سے پہلے درجنوں بچوں کے ساتھ زیادتی کے سنگین واقعات کو بھلا دیا گیا تھا۔ آج یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ حکومت پنجاب نے اگلے تین ماہ تک فصلوں کو جلانے اور اینٹوں کے بھٹے چلانے پر پابندی لگا دی ہے تاکہ پنجاب بالخصوص لاہور جان لیوا سموگ سے محفوظ رہے۔ سموگ پچھلے آٹھ دس سال سے پنجاب اور لاہور کے باسیوں کے لئے آفت بن گئی تھی ۔دو اڑھائی ماہ تک معمولات زندگی متاثر ہوتے‘ پروازیں تاخیر و تنسیخ کا شکار‘ شام ڈھلے اسلام آباد سے ملتان تک بذریعہ سڑک سفر معطل اور شادی بیاہ کی تقریبات بدمزگی سے دوچار‘ پچھلے سال مگر ایک دن کے لئے بھی معمولات زندگی متاثر نہ ہوئے‘ جو ریکارڈ ہے۔ بیورو کریسی اس کا کریڈٹ اس لئے نہیں لے سکتی کہ وہ میاں شہباز شریف کے دور میں یہ کارنامہ انجام نہ دے سکی۔ عثمان خان بزدار کے دور میں یہ انہونی ہوئی اور اس بار ہونے کی توقع ہے۔ ہرضلع میں اعلیٰ معیار کی یونیورسٹی کے قیام اور ٹیچنگ ہسپتالوں میں میڈیکل مافیا کی روک تھام کا فیصلہ موجودہ صوبائی حکومت کا وہ کارخیر ہے جو اگر پایہ تکمیل کو پہنچا تو اگلی نسلیں دعائیں دیں گی‘ صحت مند قوم زیور تعلیم سے آراستہ ہو تو اسے عروج اور پائیدار خوشحالی کی منزل تک پہنچنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ ہمارے ہاں جتنے وسائل انفراسٹرکچر پر خرچ ہوئے اس کا چوتھائی اگر علم نافع کی ترویج کے لئے وقف ہوتا تو آج امن و امان کی صورتحال ندامت انگیز حد تک خراب ہوتی نہ چونیاں‘ قصور اور دوسرے شہر و دیہات میںمعصوم بچوں اور بچیوں ‘ خواتین کی عزت و ناموس غیر محفوظ اور نہ بے روزگاری کا عفریت ہمارا سکھ چین غارت کرنے کو بے تاب ۔غریب خاندانوں کے لئے صحت کارڈ‘ مفلس و بے آسرا لوگوں کے لئے پناہ گاہوں ‘ کم آمدنی والوں کے لئے گھروں کی تعمیر اور جنوبی پنجاب کی پسماندگی دور کرنے کے لئے درجنوں ترقیاتی منصوبے ایسے اقدامات ہیں جو دو دو تین تین باریاں لینے والے حکمران اعلانات کے باوجود نہ کر سکے‘ جنہیں بیورو کریسی اور کاروباری برادری کی خوش دلانہ تائید و حمایت حاصل تھی‘ ایوانوں میں دو تہائی بلکہ تباہ کن اکثریت اور میڈیا میں بھر پور پذیرائی ‘ غریبوں کے محلے اجاڑ کر اپنے محلات تعمیر کرنے والے ان حکمرانوں نے قوم کے خون پسینے کی آمدنی اور غیر ملکی قرضوں کو نظر آنے اور ووٹ بٹورنے والے منصوبوں پر لٹایا‘اپنی اور اپنے حواریوں کی جیبیں بھریں اور اپنی کئی نسلوں کو سنوارا مگر وعدہ ایک بھی پورا نہیں کیا۔ ’’ایک باری اور دے دیں‘‘ کی تکرار جاری رکھی بلکہ اب تک جاری ہے۔ ایک سال کی قلیل مدت میں نامساعد حالات ‘ بیورو کریسی اور کاروباری برادری کے عدم تعاون اور مخالفانہ پروپیگنڈہ مہم کے باوجود بزدار حکومت نے جو کیا‘ اس پر داد نہ سہی اعتراف کا حوصلہ ہونا چاہیے مگر بے رحمانہ تنقید؟ بزدار حکومت کو میڈیا مینجمنٹ بہتر کرنے کی ضرورت تھی اور ہے؟ علیم خان اور سبطین خان تو نیب کو پیارے ہو گئے‘ ڈاکٹر یاسمین راشد‘ میاں اسلم اقبال‘ فیاض الحسن چوہان‘ راجہ بشارت‘ سید صمصام بخاری‘ میاں محمود الرشید ‘ حسنین بہادر دریشک ‘ ہاشم جواں بخت کے سوا دیگر وزیروں کے نام تک عوام کو معلوم ہیں نہ زیادہ تر صحافیوں کو ‘کام کی باری تو بعد میں آئے گی۔ عمران خان کے بعض ساتھیوں کو کسی نے پٹی پڑھا دی ہے کہ میڈیا کو لفٹ کرانے کی ضرورت نہیں‘ ہمارا کام بولے گا مگر جب میڈیا ناواقفیت اور رابطوں کے فقدان کی بنا پر حکمرانوں کی کلاس لیتا ہے تو پھر یہ گلہ کرتے ہیں کہ یکطرفہ ٹریفک چل رہی ہے۔ کیوں چل رہی ہے؟ سوچنے کو کوئی تیار نہ سمجھنے پر آمادہ۔میں نے ایک ملاقات میں سردار عثمان بزدار سے کہا تھا کہ ایک ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی سڑک کی داد آپ کو اس وقت ملے گی جب دو چار کروڑ روپے کی اشتہاری مہم کے ذریعے میڈیا پر اس کا چرچا ہو ورنہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا‘ میڈیا کو رشوت نہیں‘ اس کا حق دیں‘ ریاست کے چوتھے ستون کو نظر انداز کر کے تحریک انصاف اپنے پائوں پر کلہاڑی ماررہی ہے۔ اس پالیسی کے طفیل سردار عثمان بزدار کی نیکیاں برباد‘ گناہ لازم‘ ورنہ پنجاب حکومت کی کارگزاری اتنی بھی بُری نہیں کہ اسے ہر دو چار ماہ بعد گھر بھجوانے کی مہم چلے اور ملک کا سب سے بڑا صوبہ عدم استحکام کا شکار رہے۔ عمران خان کی شاباش کے بعد بزدار کا حوصلہ تو بلند ہو گا مگر مخالفین اور ناقدین بھی مزید متحرک ہوں گے‘بُز کشی کی مہم بے قابو‘اپنی سیاسی اور انتظامی ٹیم پر نظرثانی بزدار کو بھی کرنی چاہیے کہ کشتی کا بوجھ جتنا جلد ہلکا ہو‘ اتنا بہتر۔