حکمران اپنی معاون ٹیم میں گھرا رہتا ہے۔ بہت احتیاط سے سننا۔ پھر پوری دماغی قوت کو بیدار رکھنا اور اعتماد کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ فیصلہ مفید ہونا چاہیے۔ مخلوق سکھ محسوس کرے اور وہ پریشان نہ ہو۔ حق حکمرانی مل تو جاتا ہے‘ البتہ اس کا حق پہچاننا عمل ہی سے ثابت ہوتا ہے۔ نادان تلوار سے کھیلیں یا بچہ تخت پر بیٹھے۔ مخلوق کو راحت کہاں نصیب ہو گی۔ ایک مرتبہ کیا ہزاروں مرتبہ تاریخ میں اہل اور نااہل لوگ مل جل کر عوام کو ہانکتے رہے۔ نہ چین کا اچھا وقت آیا اور نہ ہی شر کا فیصلہ کن مرحلہ کسی نے دیکھا۔ کہیں بوالھوس ہوتے ہیں‘ حسن ہوتا نہیں‘ بھائی لوگ چنڈول کو فاختہ کہنے پر مصر رہتے ہیں۔ آج کا رائج الوقت سکہ بھی یہی ہے۔ ایک دو میں کسی مارکسیت مارے نے ایک نیا گھونسلا تلاش کیا۔ گھونسلا کسی کا تھا۔ پرائے گھر میں گھسا اور گھر والوں کو آسیب بن کر چمٹا۔ گھر کا بڑا ذرا سیانا تھا۔ سب سمجھتا تھا مگر اس کی سدھ بدھ فیصلے کے وقت سو جاتی تھی۔ مارکسیت مارا بہت ہوشیار تھا۔ گھر والا نرگسیت کا مارا تھا۔ اہل اور نااہل سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ یہ نووارد سوچتا ہے اور بولتا ہے۔ لیکن بھول یہ ہوتی کہ اس کی سوچ اور بول کا وزن نہ کر سکے۔ اور یہ بُلار چہکار یہ گیت گاتا تھا کہ میں بولتا بھی خوب ہوں اور ڈولتا بھی خوب ہوں۔ پھر ملاّ تو ہر دور میں ہوتے ہیں‘ برائے تبلیغ‘ برائے تلقین‘ برائے اشاعت دین اور کچھ ملاّ نما کو پہچان اور شناخت ان کی کوئی فرشتہ کرے تو کرے عام شریف آدمی بھی ان کے لچھن نہیں سمجھ سکتا۔ اسی دور میں یہ ملا نما لوگ تخت کی چولیں ہلانے کی باتیں کرتے تھے۔ معاہدے میں ان کا مقام آتا نہیں تھا۔وزیر بے تدبیر نے کہا کہ میں مدبر ان کا گھیرا تنگ کرتا ہوں۔ ملا نما کو تو کیا گھیرنا تھا۔ بدمستی میں دین کو کوسنے دیتے تھے۔ اذان پر تنقید۔ نماز کی پابندی پر ناک بھوں چڑھا۔ دینی تعلیم کو جہالت کی آبیاری قرار دیتا اس بخت گم وزیر کا وظیفہ ملازمت تھا۔ اب گم ہو گیا کہ اس کا بخت ہی شروع سے گم تھا ع ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے اب پھر ویہ گم بختی کا نیا چلن ‘ خطرناک ہے لیکن بڑی کرسی پر بیٹھا بھی تو ذرا متحمل اور حلم سے دور ہٹ کر بیٹھا ہے۔ بے وزن اور بے حقیقت باتیں اس کی چوپال میں ہوا کرتی ہیں۔ وہ انہیں بھی کسی نئی دانش کا نام دے کر خوش ہو جاتا ہے۔اسمبلی میں ایک عزت دار خاتون جن کی تقریر پر اٹھنے والا خرچ عوام کے ٹیکسوں سے ادا ہوتا ہے۔ بے علم بے تجربہ اور بے سمت ہو کر گویا ہوتی کہ ہمیں اسرائیل سے اچھے تعلقات قائم کرنا چاہئیں۔ سمجھ تھک گئی ہے ہم لوگوں کی کہ یہودیوں سے آخر اتنی ہمدردی کیوں؟ ابھی کل تازہ ایک وزیر طرح دار اسلام پر اپنے قول کو مستند بتا رہے تھے کہ یہودی بھی تو امت رسول ہیں۔ وزیر ہیں‘ پولیس کے ڈنڈے پر ان کا ہاتھ ہے لیکن اسلام غریب الدیار اسلام۔آہ! ؎ جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے ان وزراء کی نوک زبان پریوں ہے جیسے اغیار کے نیزے کی انی پر کسی مومن شریف کا سر ہو۔ چاروں طرف سے گھر گئے جناب وزیر اعظم۔ مشیر خود مشیر در مشیر کے محتاج ہیں، چالاک اشرافیہ نے حصار کر لیا ہے۔روزانہ کا بیانیہ کہ چورو ڈاکو بخشے نہیں جائیں گے۔ این آر او کسی خاص شکل کے حیوان کا نام نہیں۔ حیوانیت کا نام ہے۔ مشرف کے دور میں اس حیوان کا لبادہ اور تھا اور اب یہ حیوانیت نئے روپ میں اسمبلی میں بیٹھی محتسب کا احتساب کر رہی ہے۔ نیب کے تفتیشی افسروں کے سامنے بے بس لوگ اب اسمبلی میں چیئرمین نیب کو بلا کر اپنی دھونس دکھانے کا عندیہ دے رہے ہیں آج ایک نوعمر وزیر کا بیان آیا ہے کہ ہمارے مخالفین پارلیمنٹ اور پی اے سی کا سہارا لے کر نیب کو دانت دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کون تھا؟ اور کیوں اس نے ایسا کیا کہ ریمانڈ زدہ کو خزانے کی چوکیداری کی بندوق تھما دی۔ اب اسے پکڑ‘ اسے روک‘ نئی لڑائی شروع۔ اسمبلی میں کیا ہو گا۔ بس اشرافیہ ناک پر انگلی رکھ کر بیٹھیں گے۔ پچھلے بنچوں پر ننھے قوال تالیاں پیٹیں گے اور پرانے مچھندر اپنی روٹی کارن ناپیں گے۔ یہ بے چارے نووارد جگنو میاں تالیاں پھر زور دار تالیاں۔ یہ اسمبلی کے ارکان ہیں۔پھر تھک جائیں گے تو ذرا نیم سمجھدار آ کر صلح کروا دیں گے آئو آئو مل کر بیٹھو مچھند گھوریں گے کہ ہم نے جو اودھم مچایا‘ وہ کس کھاتے میں‘ بس اتفاق ہو جائے گا کہ اراکین اسمبلی کی مراعات بڑھا دیں۔ تنخواہیں بڑھا دیں۔ سب خوش ‘ سندھ سے لے کر پشاور تک سب قوم کے درد میں بلکنے والے‘ غریبوں کی غربت کے ماتم دار‘ باپ بیٹا‘ تمن دار ‘ قوم کے غربا کے خون سے نچوڑے ہوئے ٹیکس سے اپنی گاڑی کا پٹرول ڈلواتے ہیں۔ اسمبلی میں حاضر نہیں ہوتے اور غیر حاضری کو شمار کرواتے ہیں۔ این آر او کی ایک یہ بھی چھوٹی سی تصویر ہے۔ وہی وزیر‘ وہی مشیر‘ فوج در فوج‘ پنجاب میں نیا تماشا‘ اپنے دورمیں سرکاری اراضی کو اپنی خواہشات کی رسی میں پرو کر گلے کا ہار بنا لیا تھا اب پھر خاندانی پھیلائو کا مہلک مرض چمٹ گیا ہے کہ ہمیں دیکھو، ہمیں دیکھو نہیں دیکھتے تو تخت بلا دیں گے۔ پرانی عمارت ہے کہ خیرات سے یا دھونس سے وزارت بٹورلو۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بہت سادہ ہیں۔ لیکن پروقار بھی بہت ہیں۔ پروٹوکول ابھی تک یادداشت کا حصہ نہیں بن پایا۔ آئی جی سے مصافحہ کرنا بھول گئے تو فرمایا کہ آہستہ آہستہ سیکھ جائوں گا۔ ان کی تربیت کے لئے کوئی پرانا سابق وزیر اعلیٰ متعین کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ سادہ دل بڑی گاڑیوں کے بڑے قافلے کے ساتھ سفرکرتے ہیں شاید انہیں خیال ہے کہ سعودی عرب ادھار تیل دینے کے بعد اپنا ادھار بھول جائے گا۔ اس لئے بے حساب ہی رہنا بہتر ہو گا۔ وزیر اعظم صاحب نے فرمایا ہے کہ قوم پر سخت ترین وقت ہے۔ انہیں احساس ہے بس ان کو ہی احساس ہے تو عثمان بزدار کو احساس کی ضرورت ہی نہیں۔ سندھ کے شہزادے کو کوئی پرانا دل جلا مار کسی تقریر لکھ کر دیتا ہے تو ان میں اشتراکیت کی روح حلول کرتی ہے۔ بابا کا نام نہیں لیتے۔ ننھیال کا حوالہ دے کر عوام کو نوحہ گری سکھاتے ہیں۔ پنجاب کے بادشاہ کو کوئی پرانا شاطر بیان باز بیان سکھاتا ہے۔ بہت مدھم لہجے میں دھرا دیتے ہیں۔ شاید لوگ یہ سمجھیں کہ وقت کا بڑا دانش ور تول تول کر بول رہا ہے۔ تازہ بیان ہے کہ میرا لیڈر میرا معترف ہے۔ بس یہی کافی ہے۔اقتدار ہاتھ آئے یا کوئی تھما دے تو شکرانہ بجا لانا چاہتے ۔ ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ اپنی اوقات پر نظر رہنی چاہیے۔ امانت ملک‘ امانت عوام اور سب سے بڑھ کر امانتِ خداوندی کا خیال رہنا چاہیے۔یاد رکھئے کہ یہ ملک امانت خداوندی ہے۔ اسے بازیچہ اطفال بنانے والے سر کے بل گرتے ہیں اور پھر اٹھتے نہیں۔ پاکستان اور قوم پاکستان سے مذاق کرنے والے آخر میں اپنے مقدر کو پیٹتے ہیں۔ ملا نمائوں کی حرکتیں قابل ستائش نہیں ہیں لیکن اس آڑ میں دین اور پاکستان کے وقار سے کھیلنے والے جلد ہی زمین چاٹیں گے اور حشرات الارض کا رزق بنیں گے۔ ہر چھوٹا بڑا دین اور وطن پر خود کو درجہ سند پر فائز نہ کرے ورنہ عذاب کا طوفان انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر رہے گا۔