کچھ دن پہلے وزیر اعظم شہباز شریف ترکی میں طیب اردگان سے ملاقات کر رہے تھے ،ترکی کے دورے میں شہباز شریف نے کیا ڈسکس کیا ،کن منصوبوں پر بات کی ،کیا مشورے ہوئے اس بارے میں دستیاب معلومات زیادہ نہیں ،ترکی کی کرنسی کافی عرصے سے دباؤ میں ہے ۔ مہنگائی نے ترکوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے لیکن وہ اس بحران کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کر سکتے ہیں کہ وہ ’’قوم ‘‘ ہیں ۔ میرا دو بار ترکی جانے کا اتفاق ہوا اور ہر بار میںپہلے سے زیادہ حیران ہو کر واپس آیا ، ترک معاشرہ بھی سیاسی،مسلکی ،نظریاتی ،مذہبی ،ثقافتی اور لسانی اختلافات لئے ہوئے ہے لیکن ان اختلافات کو ترکوں نے بدنما نہیں ہونے دیا ۔جس طرح مختلف رنگوں کے پھولوں کا گلدستہ رنگین اختلاف کے باوجود بلکہ اسی اختلاف کے سبب حسین لگتا ہے، ترکی کی خوبصورتی بھی ایسی ہی ہے ، ترک معاشرت کے مختلف رنگوں میں وطن سے محبت کا رنگ سب سے نمایاں ہے اوروہ وطن سے محبت کے اظہار میںکافی فراخ ہیں ۔ میںجب پہلی بار استنبول ائیر پورٹ سے باہر نکلا تو چوک چوراہوں سڑک کنارے سرخ پرچموں کی قطاریں دیکھ کر اپنے میزبان سے پوچھے بنا نہ رہ سکا کہ کیا آج ترکی کا کوئی قومی دن ہے ؟ جواب نفی میں تھا ۔ڈاکٹر ندیم، جو 80ء کی دہائی سے ترکی میں ہیں، نے بتایا کہ ترک اپنے وطن سے ایسی ہی والہانہ محبت اوراس کا اظہار کرتے ہیں۔ترکوں کے آپس میں کیسے ہی اختلافات ہوں سرخ پرچم پر ان کا اتفاق کبھی ختم نہیں ہوا ۔ میں یہ بات کبھی نہیں بھول پاؤں گا جب ترک شہر شانلی عرفا سے واپسی پر وین ڈرائیور ہمیں مچھلی کھلانے غازی انطب شہر لے جانے لگا۔کسی بھی ملک کے سرحدی شہر ویسے ہی حساس ہوتے ہیں اور پھر ان دنوں تو ترکی کے پڑوسی ملک شام میں خانہ جنگی کے سبب ان سرحدی شہروں میں حفاظتی انتظام غیر معمولی سخت تھے اور آج بھی ہیں، شہر میں داخل ہوتے ہی سکیورٹی اہلکاروں نے ہماری وین روک لی اور تھوڑی دیر بعدایک ترک سپاہی وین میں داخل ہوا وہ سلام کے بعد ترک زبان میں کچھ پوچھنے لگا۔ ترکی میں زیر تعلیم ایک طالب علم مترجم کے طور پر ہمارے ساتھ تھا۔ وہ سپاہی سے بات چیت کرنے لگا ہم اندازہ ہی لگا سکتے تھے کہ وہ ہمارے بارے میں ہی بتارہا ہے۔ ہمارے اس گروپ میں بڑی تعداد علماء کرام اور مذہبی فکرکے دراز ریش دوستوںکی تھی۔ یہ سب جان کر وہ سپاہی مودب ہوگیا۔ اس نے وائرلیس پر کسی کوساری معلومات فراہم کیں اور معذرت چاہنے لگا کہ آپ کو تھوڑا انتظار کرناہوگا میں نے اپنے افسران کو آگاہ کردیا ہے ۔اتنا کہنے کے بعد وہ اس طالب علم سے جانے کیا بات کرنے لگا۔ اس کی نظریں سامنے وین میں بیٹھے علماء کرام پر پڑتیں تو نظریں جھکا لیتا۔ پھر اس نے ایک عجیب بات کہی۔ اس نے کہا کہ کیا میں ان علماء کرام سے ایک درخواست کرسکتا ہوں ؟ اس طالب علم نے یہی بات علماء کرام تک پہنچادی سب نے بخوشی کہا کہ ہاں ہاں کیوں نہیں۔سپاہی نے کچھ کہا جس کا ترجمہ کرتے ہوئے طالب علم نے کہا کہ یہ آپ سے دعا کی درخواست کررہا ہے ،میں سمجھا کہ یقینی طور پر اسے ترقی چاہئے ہوگی یا ہوسکتا ہے پسند کی شادی میں حائل رکاوٹ کا خاتمہ چاہتا ہو۔ شائد لاٹری نکلنے کے لئے دعا کا کہے لیکن اس نے میرے سارے اندازوں کے برعکس کہا کہ آپ ہمارے ترکی کے لئے دعا کریں کہ یہ پھلے پھولے ترقی کرے اور مضبوط ہو ۔یہ سن کر ہم سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ وطن سے ایسی شفاف محبت ! آج ہی ایک جرنیل صاحب کی تحریر نظروں سے گزری وہ ترکی میں چار برس گزار چکے ہیں۔ کہتے ہیں جب 1991 میں وہاں سٹاف کورس کرنے گیاتو یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ سٹاف کالج میں دن کے وقت کسی کوبلب جلانے کی اجازت نہیں ۔کلاس روم میں بھی اگر بلب جلانے کی ضرورت پڑتی تو انسٹرکٹر سے اجازت لی جاتی اور وہ بھی اس وقت اجازت دیتے تھے جب کبھی بادلوں کی وجہ سے روشنی ناکافی ہوتی اور کتاب پڑھنے مشکل پیش آتی ۔یہ وہ وقت تھا جبکہ ترکی بلغاریہ کو بجلی ایکسپورٹ کر رہا تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ ترکی میں ہر کمرے کی ایک دیوار مکمل شیشے کی کھڑکی ہوتی تھی تاکہ قدرتی روشنی کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے۔ سٹاف کالج کے کسی افسر کے پاس براہ راست کال کرنے والا فون نہیں تھا سب ہی کالج کی ٹیلی فون ایکسچینج کے ذریعے کال ملا کر بات کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ایک ترک افسر کو کہا کہ تمہیں بہت کالز کرنی ہوتی ہیں ۔تمہارے پاس تو ڈائریکٹ فون ہونا چاہئے۔ اس نے جواب دیا کہ وہ فون لگوا سکتا ہے مگر اس کا بل کون ادا کرے گا؟میں نے کہا کہ تم سرکاری کام کر رہے ہو حکومت ہی بل ادا کرے گی۔ تو اس کا جواب سن کر حیرانی اور شرمندگی ہوئی۔ اس نے جواب دیایہ کیسے ممکن ہے کہ فون میں استعمال کروں اور بل حکومت دے! ٓ یہ تحریر لکھنے سے پہلے میری نظر سے مسلم لیگی رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا ایک نیوز چینل کے رپورٹر کے ساتھ کی گئی گپ شپ کا وڈیو کلپ گزرا،میں سچ میں حیران رہ گیا کہ اس وقت جب ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور مرے پر سو درے کے مترادف عوام پر سارا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ عباسی صاحب کس سفاکی میں لتھڑی بے نیازی سے کہہ رہے ہیں کہ مراعات اراکین اسمبلی کا حق ہے انہیں بالکل استعمال کرنا چاہئے اور یہ تو پہلے ہی بہت کم ہیں۔ایک رکن قومی اسمبلی کو پورے حلقے سے رابطے میں رہنا ہوتا ہے،رپورٹر سے گفتگو میں عباسی صاحب مان کر ہی نہیں دیئے وہ توخیر ہوئی کہ رپورٹر نے بات سمیٹ لی ورنہ عباسی صاحب ’’مستحق‘‘ اراکین اسمبلی کے لئے زکوۃ،فطرانہ اور صدقات کے ساتھ ساتھ چرم قربانی کی بھی اپیل کر ڈالتے ،عباسی صاحب سے بس یہ کہوں گا کہ شکرانے کے نوافل ادا کریں کہ وہ ترکی میں نہیں نجانے ان کا کیا حال ہوتا!