پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور مایہ مازناز کرکٹر شاہد آفریدی کے کشمیر کے مسئلے پر ایک گفتگو کے حوالے سے اپنے اپنے فہم کے مطابق بعض دوستوں اوربعض دشمنوں کی طرف سے انہیں معتوب بنانے کی کوشش کی گئی۔14نومبربدھ کوبرطانوی پارلیمنٹ ہائوس دارالعوام کے کمیٹی روم میں شاہد آفریدی فائونڈیشن کے زیر اہتمام چیرٹی ایونٹ میں شرکا ء کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے طلبا ء سے گفتگو کے دوران شاہد آفریدی کاکہناتھا کہ کشمیر پاکستان کو نہیں چاہیے اور نہ ہی انڈیا کو دیں، بلکہ کشمیر کو علیحدہ ملک بنا دیں، کم از کم انسانیت تو زندہ رہے، نہیں چاہیے پاکستان کو، پاکستان سے چار صوبے نہیں سنبھل رہے۔لوگ وہاں مر رہے ہیں، سخت وقت سے گزر رہے ہیں۔ جہاں بھی انسان مارے جاتے ہیں، چاہے کسی بھی مذہب کے ہوں، اس سے تکلیف ہوتی ہے۔شاہدآفریدی کے اس گفتگوکی ویڈیو فورا ہی سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے لگی۔ پاکستان کے ہمارے بعض دوستوں نے شاہدآفریدی کی اس گفتگوپرتنقیدکرتے ہوئے کہاکہ آفریدی کوکیاضرورت پڑی تھی کہ انہوں نے تاریخی حقائق اورکشمیریوں کی امنگوں کے برعکس کشمیرپرگفتگوکی۔شاہد آفریدی کو اپنی حدمیں رہنا اور کرکٹ کے بارے میں بات کرنی چاہئے کیو نکہ وہ کرکٹ کے ایکسپرٹ ہیں۔ جب انہیں سیاست یا کشمیریوں کی جدوجہد کا علم ہی نہیں ،جب انہیں معلوم ہی نہیں کہ یہ لوگ کیوں کٹ مررہے ہیں تو اس پر بات کرنا اپنے ساتھ،قوم ،کشمیری عوام اور شہدا ئے کشمیرکے ساتھ بھی زیادتی ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں تو مسلسل جو نعرہ بلند ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان سے رشتہ کیا،لاالہ الا اللہ ۔تو اسکا مطلب یہ ہے انکی ساری جدوجہد پاکستان سے رشتہ قائم کرنے کیلئے ہے ۔وہ شہید ہورہے ہیں،پیلٹ گنز کی گولیاں کھارہے ہیں اورپرچم پاکستان وصیتاََ ان کاکفن بن رہاہے۔اسکے بعد یہ کہنا کہ ہمیں کشمیر کی ضرورت نہیں،یہ کشمیریوں کی امنگوں کے صریحاََخلاف ہے ۔ جبکہ انڈین میڈیا نے آفریدی کی اس گفتگو کو اس طرح پیش کیا کہ شاہد آفریدی یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ پاکستان کو کشمیر پر حق جتانا چھوڑ دینا چاہیے۔ جس پرلندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بوم بوم آفریدی کاکہناتھا کہ بھارتی میڈیا ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کررہا ہے ۔شاہدخان آفریدی کاکہناتھاکہ کشمیری عوام پاکستان سے محبت کرتے ہیں، ان کو انکاحق ملنا چاہئے اوریہ کہ میں کشمیریوں کی عظیم جدوجہد کی قدر کرتا ہوں۔بوم بوم کاکہناتھاکہ کشمیری پاکستان کرکٹ ٹیم کی جیت پر خوش ہوتے ہیں۔میں اپنے وطن سے بہت محبت کرتا ہوں اور اپنے ملک کیلئے جذباتی ہوں۔ یہ پہلاموقع نہیں کہ جب آفریدی نے کشمیراورکشمیریوں کی صورتحال پربے کلی کااظہارکرتے ہوئے گفتگوکی ہو اس سے قبل 4اپریل 2018ء کوکشمیر کا تنازع اس وقت دونوں ملکوں پاکستان اور انڈیا کے سوشل میڈیاپرزیر بحث آیاکہ جب شاہد آفریدی اور گوتم گمبھیر کے درمیان کشمیر کے معاملے پر تلخ کلامی ہوئی۔ یہ تلخ کلامی اورپھرسوشل میڈیاپرکشمیرتنازعے پرہوئی بحث اس وقت سامنے آئی تھی کہ بوم بوم آفریدی نے ایک ٹویٹ کی تھی جس میں انھوں نے مقبوضہ جموںوکشمیر کی صورتحال کو ہولناک اور پریشان کن قرار دیکر شاہدخان آفریدی نے بھارتی حکومت کو غاصب قرار دیا اور اقوامِ متحدہ سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں مداخلت کرے جہاں بھارت کی طرف کشمیریوں پر بدترین تشدد ہورہاہے۔شاہدآفریدی نے اپنے ٹویٹ میںلکھا کہ مقبوضہ کشمیر میں انتہائی خراب اور پریشان کن صورتحال ہے۔ حق خود ارادیت اور خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے معصوم لوگوں کو غاصب حکومت کی جانب سے مارا جا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے کہاں ہیں؟ وہ اس خون ریزی کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟اس کے جواب میں گوتم گمبھیرنے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ آفریدی الفاظ کے چنا میں ذہنی طور پر پسماندہ ہیں۔ گوتم گمبھیر کے ٹویٹ کے بعد آفریدی نے ایک اور ٹویٹ میں انڈین کرکٹ شائقین کے ساتھ اپنی ایک تصویر بھی پوسٹ کی جس میں انھوں نے لکھا ہم سب کی عزت کرتے ہیں۔ اور یہ ایک کھلاڑی کی مثال ہے۔ لیکن جب بات انسانی حقوق کی آتی ہے تو ہم ایسا سلوک اپنے معصوم کشمیریوں کے ساتھ چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ مظلوم کشمیری مسلمانوں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم کسی میچ میں بھارت کی کرکٹ ٹیم کولتاڑتی ہے تووادی کشمیرمیں جشن کاسماں ہوتاہے ۔پاکستان کے حق میں نعرے بلندکرتے ہیں، گھروں میںچراغاں ہوتاہے ،ہرطرف پٹاخے سرکائے جاتے ہیںاورآتش بازی ہوتی ہے۔اس عالم کودیکھ کر بھارت کی قابض قاتل فوج اپنے کیمپوں میں حیرت زدہ ہو کر رہ جاتی ہے اورکف افسوس ملنے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔اس کے برعکس جب بھارتی ٹیم جیت جاتی ہے اورپاکستانی ٹیم پرسبقت لے جاتی ہے توکشمیریوں کے دلوں کوجلانے کے لئے کشمیرمیں قابض بھارتی فوجی جشن مناتے ہیں وہ کیمپوں کے اندراندھادھنداورجی بھرکرہوائی فائرنگ کرتے ہیںاوربھارتی ٹیم کے حق میں نعرے بلندکرتے ہیں۔’’ یہ دل دوقومی نظریہ کے تحت پاکستان کی محبت میںجس سوزوسازکے ساتھ دھڑکتے ہیں،یہ جہاں بھی ہوں تواسی ترنم کے ساتھ دھڑکتے رہیں گے‘‘ اورتب تک بھارتیوں کے دل جلائے جاتے رہیں گے جب تک کشمیریوں کواپناپیدائشی حق نہیں مل جاتا۔ 1947ء میںبرصغیرکے وہ مسلمان کہ جنہوں نے قائداعظم کی قیادت میں قیام پاکستان کی جدوجہدکی اللہ رب العالمین نے انہیں عظیم ترین نعمت سے سرفرازکیااوروہ ہندوپلیدکی غلامی سے آزادہوئے ۔ لیکن 1947ء سے آج تک اسلامیان کشمیر اس نعمت عظمیٰ سے محروم بنادیئے گئے اور اسلام اور پاکستان دشمن قوت بھارت کشمیری مسلمانوں کے حق کو غصب کر چکا ہے ۔تاہم ملت اسلامیہ کشمیرکے ساتھ روارکھے جانے والے اس غاصبانہ ،جارحانہ اورجابرانہ طرز عمل کے باوجود اپنی جدوجہدآزادی جس کامحوردوقومی نظریہ ہے کی کامیابی کے لئے یکسوہیں۔ہندوکی غلامی سے انکار،بھارتی مراعاتی پیکیجزکومستردکرتے ہوئے آج کشمیرکے نوجوان ارض جموں وکشمیرپر پرچم پاکستان لہراتے ہوئے شہیدہوجاتے ہیں اورپھریہی پرچم ان کاکفن بن جاتاہے۔ تقسیم برصغیرکاجوایجنڈاطے تھااس ایجنڈے کے مطابق مسلم اکثریتی علاقہ ریاست جموںوکشمیر مسلمانوں کی مملکت پاکستان کاجزو لاینفک تھا مگرانگریزاورگانگریسی ہندونے کشمیرکی مسلمان اکثریت کی پیٹھ میں خنجرگھونپ دیاجسکی وجہ سے وہ آج تک اپنی آزادی کی تلاش میں مرگزارآبادکررہے ہیں۔ ریاست جموں وکشمیرکی مسلم اکثریت اسی طرح ایک ہی نظریے، ایک ہی جذبے، ایک ہی نعرے اور ایک ہی مقصد ومشن’’ پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الااللہ‘‘ پر متحدہوکرہندو سامراج کے خلاف بنیان مرصوص بنی ہوئی ہے کہ جس طرح تقسیم برصغیرکے وقت خطے کے مسلمان یکسواوریک رخ تھے وہی تصویرآج ملت اسلامیہ کشمیرپیش کررہی ہے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ جس طرح یکسواوریک رخ ہوئے مسلمانان برصغیرنے ایک مسلم مملکت پاکستان کاقیام عمل میں لایاعین اسی طرح انگریزاور ہندوبنیاکی سازشوں کاشکارکشمیراورکشمیریوں کی آزادی کاسپید سحر ایمان اوریکسوئی اوریک رخی سے ہی طلوع ہوگا۔