ایک ہفتہ پہلے ہی کی بات ہے جب دنیائے کرکٹ کے ہیرو شاہد آفریدی نے تنازع کشمیر پر ایک متنازعہ بیان دے کرسب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی، ہماری سمجھ سے بالا تھا ان کا یہ بیان، پہلے ایک ویب سائٹ پر پڑھا پھر نیوز چینلز کی اسکرینوں پر ان کی اپنی زبان سے بھی سن لیا، شاہد آفریدی کوئی ایسی شخصیت نہیں ہیں جسے کسی بھی قسم کی شہرت کی ضرورت ہو،چاہے جتنے میچ بھی ایک اسکور بنائے بغیر آؤٹ ہوتے رہیں ان کی ڈیمانڈ میں کبھی کمی نہیں دیکھی گئی، یہ بیان انہوں نے پہلی بار اس وقت ہی کیوں دیا جب دنیا میں کرکٹ کی پہچان عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے ہیں اور ابھی ان کے پہلے سو دن بھی پورے نہیں ہوئے، شاہد آفریدی کا یہ سیاسی بیان عمران خان کی نئی نئی حکومت کیلئے کسی قسم کی پریشانی پیدا کرنے کیلئے تھا یا اس کے کچھ اور عوامل تھے؟ کیا اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جن جرائم میں پھانسی دی گئی ان میں سے ایک جرم عالمی فورمز پر کشمیر اور کشمیر کے عوام کیلئے آواز اٹھانا بھی تھا، ضیاء الحق کی آمریت میں بھی ہم کشمیر کی آزادی کا سچا جھوٹا حکومتی عزم دیکھتے رہے، بینظیر بھٹو شہید نے یہ علم مضبوطی سے تھامے رکھا، البتہ نواز شریف کے ادوار اقتدار میں پاکستان اور کشمیر کے عوام تھوڑے سے مشکوک نظر آئے،پھر اقتدار پر قابض ہوا ایک اور آمر نام ہے جس کا پرویز مشرف اور یہ حضرت اپنی گرفتاری کے خوف سے دبئی کے ہوٹلوں، کلبوں اور کیسینوز میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہے ہیں، تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ موصوف رعشہ اور دیگر موذی بیماریوں میں مبتلا ہیں، کشمیر کی سیاسیات پر عبور رکھنے والے کئی دانشوروں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف نے اقتدار پر قابض ہوتے ہی تنازع کشمیر سے دستبرداری اختیار کر لی تھی، اس موقف کو اس وقت تقویت ملی جب دنیا نے انہیں بھارت کے پہلے دورے کے دوران ایسی حرکات کرتے ہوئے دیکھا جو صرف ان کا اوچھا پن تھا۔ وہ کتنے خوش و خرم نظر آ رہے تھے؟ وہ سب مناظر اکثر میری آنکھوں میں گھوم جاتے ہیں اور کئی سوال اٹھتے رہتے ہیں،پاکستان کی جانب سے بھارت سے ہمسایوں والے اچھے تعلقات کی خواہش کا ہمیشہ اظہار کیا جاتا رہاہے، اور اس بات میں شبہ بھی کوئی نہیں۔ اس ناممکن دوستی کا فائدہ دونوں ملکوں کے کروڑوں غریب عوام کو مل سکتا ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ مستقبل قریب میں یا مستقبل بعید میں دونوں ملکوں کے غریبوں کا خواب پورا ہو سکے گا، مشرف صاحب انیس سال پہلے وارد ہوئے تھے اور ان انیس سالوں میں سیاستدانوں اور حکمرانوں کی جانب سے یہ ایشو سرد خانے میں پہنچا ہوا دکھائی دیتا ہے، پرویز مشرف نے انہی دنوں مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کیلئے ایک فارمولہ بھی پیش کیا تھا،رمضان المبارک کے دنوں میں انہوں نے افطار ڈنر کے نام پر پاکستان کے چیدہ چیدہ صحافیوں کو ایوان صدر میں بلوایا اور اپنا مذکورہ فارمولہ ان کے سامنے رکھا، اس کے بعد ان کا فرمانا تھا کہ اس فارمولے پر عمل درآمد کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین سب کچھ ہمیشہ کیلئے ٹھیک ہوجائیگا،فارمولہ یہ تھا۔پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کو جغرافیائی، لسانی،اور مذہبی بنیاد پر سات حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، پھر دونوں ملک ایک ساتھ بیٹھ جائیں اورطے کریں کہ کون کون سا حصہ ان کے پاس رہے گا اور کس کس حصے کو خود مختاری دی جا سکتی ہے، پرویز مشرف نے کشمیر کے ان ساتوں حصوں کی تفصیل بھی بیان کی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ کارگل میں اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔کشمیر کے حوالے سے ہم نے یہ تفصیل اس وقت دہرائی ہے جب پاکستان کے نئے وزیر اعظم نے سالوں سے موجود اس سوال کا دفاعی انداز میں بیان دیا ہے کہ یو ٹرن لینا بہت ضروری ہوتا ہے، یو ٹرن نہ لینے والے کبھی کامیاب لیڈر نہیں بن سکتے،جو یو ٹرن نہ لیں وہ بے وقوف ہوتے ہیں، نپولین اور ہٹلر نے اسی لئے بڑا نقصان کر لیا کہ وہ یو ٹرن نہ لے سکے تھے عمران خان کی تائید میں صدر عارف علوی نے بھی یوٹرن کے فوائد گنوا دیے حالانکہ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ شاپنگ کیلئے لاہور میں تشریف لائے ہوئے تھے میں ایک سادہ سا سوال وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت میں شامل ارباب اختیار کے سامنے رکھنے کی جسارت کر رہا ہوں،گر کوئی برا نہ مانے؟ کیا کسی دن کشمیر کے ایشو پر تو یو ٹرن نہیں لے لیا جائیگا؟ پاک فوج کے ترجمان ہر دوسرے دن یا ہفتے میں پانچ دن بریفنگ دے رہے ہیں کہ بھارت لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے، ننھے ننھے بچے، خواتین اور بزرگ و جوان شہید کئے جا رہے ہیں، گولیاں برسا برسا کر زخمی کئے جا رہے ہیں، پاک فوج جوابی کارروائی کر کے دشمن کی چوکیاں اور مورچے تباہ کررہی ہے، بھارتی فوج کا سربراہ پاکستان کو نگلنے کی دھمکیاں دے رہا ہے، بھارت میں آباد مسلمانوں کا جینا محال کر دیا گیا ہے، بھارت کی دونوں بڑی پارٹیوں کے لیڈر پاکستان اور مسلمانوں کو نیست و نابود کردینے کے ڈائیلاگ بول رہے ہیں، اس ماحول میں حکومت، اپوزیشن،فوج اور ملکی سلامتی کے تمام اداروں کی تسلسل کے ساتھ میٹنگز اور مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے اور قوم کو بار بار اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، اگر ہم نے سارا وقت فواد چوہدری جیسے ایشوز کو نمٹانے میں گزار دیا تو اس وقت تک پانی سروں سے گزر چکا ہوگا،آج مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے سامنے سینہ سپر کشمیریوں کے ہاتھ میں بندوقیں نہیں ہیں، جب بھی کوئی کشمیری کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے زمین پر گرتا ہے تو اس کی بند مٹھی میں ایک چھوٹا سا کنکر یا پتھر ہوتا ہے اور سارے کشمیریوں کے ہاتھوں میں یہی چھوٹے چھوٹے کنکر ہیں۔ تین دن پہلے ایوان بالا میں جو کچھ ہوا،اس کا نقصان صرف حکومت کو ہوا،وزیر اطلاعات کا چیرمین سینیٹ کے سامنے سینہ پھلا کر کھڑے ہوجانا جمہوریت کی نفی تھا،اچھا تو یہ تھا کہ فواد چوہدری صاحب اپنے خلاف چیئرمین کے فیصلے کے سامنے سر جھکاتے اور اپوزیشن کے مطالبہ پر معذرت کرلیتے، لیکن انہوں نے اپنی انا کی اس لڑئی میں وزیر اعظم عمران خان کو ہی نہیں پوری کابینہ کو بھی ملوث کر ڈالا،اور چیئرمین سینیٹ کو بدلہ لینے کی دھمکی بھی دیدی۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے اپنی ضمانت پر رہائی کے بعد نیب پر اس کے عقوبت خانوں میں ہونے والے مظالم کے حوالے سے جو انکشافات کئے ہیں، میں انہیں بڑھاپے میں بھی اتنی بہادری پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں، اگر عمران خان کی حکومت میں بھی اس گسٹاپو ادارے کاڈھانچہ نہ بدلا گیا تو انہی عقوبت خانوں کی سیر انہیں بھی کرنا پڑ سکتی ہے،میں خود شاہی قلعہ اور لال قلعہ کے عقوبت خانوں کی وحشتیں، دہشتیں، اذیتیں اور جسمانی تشدد برداشت کر چکا ہوں اور اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں کہ نیب کے عقوبت خانوں میں کیا کیا نہیں ہوتا ہوگا۔