تاشقند کا ازبکستان ہوٹل اور اسکے مقابل کانفرنس ہال اور شہر میں لال بہادر شاستری کا مجسمہ ، 1965ء کی جنگ کی یاد دلاتا ہے۔ تاشقند معاہدہ پر دستخط ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا انتقال ہوگیا ۔ یہی پر صدر پاکستان ایوب خان اور انکے وزیر خارجہ ذولفقارعلی بھٹوکے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ واپسی پر بھٹو نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی، اور چند برسوں میں ہی وزیر اعظم کے عہدے پرفائز ہوگئے۔ بھار ت میں بھی شاستری کی موت کے بعد زمام اقتدار 48سالہ اندرا گاندھی کے سپرد کر دیا گیا۔جو دو سالوں کے وقفہ کو چھوڑ کر 1984ء تک اس عہدے پر فائر رہی۔ اسی طرح جنوبی ایشا کو ازبکستان نے نہ صرف مغل سلطنت ،بلکہ گاندھی اور بھٹو سیاسی خانوادے بھی عطیہ کے طور پر دئے۔ جہاں تاشقند میں سویت زمانے اور کمیونزم کے آثار ابھی بھی نظر آتے ہیں، وہیں سمر قند نے انکو اکھاڑ پھینک دیا ہے۔ مسجدوں اور میناروں کا ایک لامنتاہی ساسلسلہ شہر کی تاریخ اور انفرادیت بیان کرتا ہے۔ حکومت نے بھی ہر عمارت اور مقام کو محفوظ بنانے ‘ اس کی روایتی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہایاہے۔ شہر میںجہاں بھی جائیں قدیم اور جدید تہذیب کا امتزاج دیکھنے کو ملتاہے۔ پرانی آبادیوں کو اس طرح سنوارا گیا ہے کہ وہ شہر کی رونق بن گئی ہیں۔صفائی ستھرائی کا معیار یورپ سے کم نہیں۔ پارکوں اور سیر گاؤں کاکوئی شمار نہیں۔شہر کی سیر کرتے ہوئے، ایک پہاڑی پر ایک قلعہ کے کھنڈرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہماری گائیڈ انارہ کے کہا کہ یہ وہ سمر قند ہے جس کو چنگیز خان نے تباہ کردیا تھا۔ 2750سالہ قدیم اس شہر کا اصل نام افراسیاب تھا۔ مسلم دنیا کے گہر یا موتی کہلانے والے اس شہر نے متعدد حملہ آورں کو دیکھا ہے۔ ابن بطوط نے اس شہر کے نواح میں باغات اور انکے میووں کی شیرینی کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔ شہر کے وسط میں امیر تیمور کا مزار ایرانی و ترک فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ امیر تیمور کے ساتھ اسکے استاد اور دیگر شہزادوں کی بھی قبریں ہیں۔تاج محل کی طرح اصل قبریں مقبرہ کے تہہ خانہ میں ہیں۔ مگر یہاں اس کا دروازہ سیل کیا گیا ہے اور باہر سخت پہرا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس تہہ خانہ کا دروازہ کھولنے کی سختی سے ممانعت ہے،کیونکہ اسکے کھولنے سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہے۔ گائیڈ بتا رہی تھی، کہ 1941میں کیمونسٹ حکومت کی ایما پر محکمہ آثار قدیمہ کے دو روسی افسران نے اس مقبرہ کی کھدائی کرکے امیر تیمور اور شہزادو ں کی باقیات کو ماسکو منتقل کیا۔ مقامی افراد نے ان کی منتیں کی، مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ باقیات کی ماسکو روانگی کے دو دن بعد ہی نازی جرمنی نے سویت یونین کے خلاف اعلان جنگ کیا اور روسی فوجوں کو روندتے ہوئے ماسکو کے نواح میں پہنچ گئے۔ تین سال کے بعد اسٹالن نے کسی کے کہنے پر باقیات کو ماسکو سے بذریعہ طیارہ سمرقند واپس لا کر سرکاری اعزار کے ساتھ مقبرہ میں دفن کرکے تہہ خانہ کو سیل کردیا۔ اتفاق کہ اسکے ایک ماہ بعدہی سویت فوجوں نے اسٹالن گراڈ کی فیصلہ کن جنگ میں جرمنوں کو ہراکر ان کی کمر توڑ دی۔ اس کے بعد جرمن فوج مسلسل پیچھے ہٹتی رہی تاآنکہ روسی فوج برلن میں داخل ہوگئی۔ سمر قند مشہور سائنسدان ابن سینا اور الجبرا کے موجد محمد الخوارزمی کی علمی مشغولیت کی سرزمین بھی ہے۔ طالبعلم خوارزمی سے برہم ہونگے، مگر اس کے علم نے حساب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ اسکندر اعظم کی بیوی رخسانہ بھی سمرقند کی تھی، جس کو اس نے دنیا کی حسین ترین خاتون قرار دیا تھا۔ اسی شہر نے امریکی شاعر ایڈگرالن پاو کو تیمورلین نظم لکھنے پر اکسایا۔ مزار تیمور سے کچھ دوری پر ہی ریگستان چوراہا ہے۔ یہی قدیم شاہراہ ریشم کا مرکز تھا۔ قافلے یہاں رک کر مصنوعات کی نمائش لگاتے تھے ۔ یہ ایک طرح کا عالمی تجارتی مرکز تھا۔ یہاں نہ صرف اشیا ء کا بلکہ افکار و خیالات کا بھی تبادلہ ہوتا تھا۔ اسی لئے اس چوراہے کے دونوں اطراف دو عظیم الشان مدرسے اور سامنے ایک وسیع وعریض مسجد ہے۔ سمر قند میں پیغمبر دانیال، امیر تیمور کے روحانی پیشواشیخ برہان الدین اور حضرت محمد ﷺکے چچا زاد قاسم بن عباس یا شاہ زندہ کی آرام گاہیں بھی ہیں۔ شاہ زندہ کے مقبرہ تک جانے کیلئے تقریباً 40سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ ہماری گائیڈ بتا رہی تھی، کہ سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت ان کو گنتے ہوئے اگر کسی خواہش کا اظہار کیا جائے، تو وہ پوری ہو جاتی ہے۔ شرط ہے کہ اترتے اور چڑھتے وقت سیڑھیوں کے پایوں کے عدد یکساں آنے چاہیں۔ لگتا ہے کہ کسی نے یہ ایک طرح کی مائنڈ گیم ایجاد کی ہے۔ ایک طرف سیڑھیاں گننا او رہر سیڑھی چڑھتے ہوئے خواہش کا اظہار بھی کرنا ، دماغی ورزش ہے۔ سمر قند کے نواح میں تقریباً 25کلومیٹر کے فاصلے پر محدث امام بخاریؒ کاعالیشان مزارہے، جو فن تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس سے ملحق مسجد، میوزیم ، لائبریری اور یونیورسٹی ہے۔ باقی مقبروں کے برعکس امام بخاری کی آرام گاہ کھلے احاطہ میں ہے۔ امام بخاری یا محمد ابن اسماعیل ابن ابراہیم نے احادیث جمع کرکے اور انکو کتابی شکل دینے کا ایک بڑا کارنامہ انجام دیا۔ سویت دور میں یہ مزار بند کر دیا گیا تھا۔ 1954ئمیں جب انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو ماسکو کے دورہ پر آئے، تو انہوں نے امام بخاری کے روضہ پر جانے کو خواہش ظاہر کی، فی الفور ایک ٹیم روانہ کی گئی، جس نے صاف صفائی کی۔ اس سے متصل مسجد ایک کھنڈر بن چکی تھی۔ اس کے بعد جب صومالیہ کے صدر نے بھی اپنے دورہ کے دوران ، مزار پر جانے کی خواہش ظاہر کی، تو سویت حکام نے اسکی دیکھ ریکھ کیلئے ایک کمیٹی مقر رکی۔ 1998میں اسلام کریموف نے مزار کی تعمیر شروع کی ۔سرینگر کی جامع مسجد کی طرز پر صحن خاصاسرسبز ہے اور ایک حصہ میں ایک تالاب ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسکا پانی شفا بخش ہے۔ عام شہریوں میں روس کے خلاف کوئی نفرت یا انتقام کا جذبہ نہیں پایاجاتا۔ہوٹل سے تاشقند ایئرپورٹ واپس جاتے ہوئے میں نے معمر ڈرائیور رفیق کریموف سے پوچھا کہ سویت دور کی زندگی کیسی تھی؟ تو اس نے کہا، ۔’’کہ ایک آہنی خول تھا، ہم دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ جس کسی بھی چیز پر کیمونسٹ پارٹی کی رضامندی نہیں ہوتی تھی وہ قابل تعزیر تھی چاہے تحریر ، تقریر یا کانا پھوسی ہی کیوں نہ ہو۔ قطاریں معمول تھیں۔ راشن لینا ہو یا اگر آ پ کے پاس پیسہ ہے ، گاڑی خریدنے کیلئے بھی لائن لگانی پڑتی تھی۔ ہر چیز کیلئے حکومت پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ ہاں، بھونکنے کی پابندی تو تھی، مگر کھانے کیلئے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا۔ بھوکے پیٹ سونے کاسوال ہی نہیں تھا، نہ ہی کوئی بھیک مانگتا تھا۔ صرف 100روبل میں ہی ماسکو کا ہوائی ٹکٹ مل جاتا تھا۔ مگر اس وقت سو روبل بچانا آسان کام نہیں تھا۔ اب ہمارے پاس کئی ملین روبل ہیں، مگر آج بھی ماسکو کے ایئرٹکٹ خریدنے کا متحمل نہیں ہیں۔مگر تو کیا ہوا، آزاد تو ہیں۔ میں آپ سے دل کھول کر بات کرپاتا ہوں، رات کو بھوکے پیٹ سوجائوں تو کیا ہوا۔ بس یہی فرق ہے۔‘‘ ایئر پورٹ سامنے آچکا تھا۔ ڈرائیور کی باتیں سن کر مجھے پاکستان میںپہلی بار مارشل لاء لاگو ہونے کے و قت قدرت اللہ شہاب اور قرت العین حیدر کامکالمہ یاد آرہا تھا۔ عینی آپا نے کہا تھا ’’کون روز روز بھونکنا چاہتا ہے، مگر آپ بھونک سکتے ہو، اس کا احساس ہی فرحت بخش ہے۔‘‘ ۔میں نے ٹیکسی سے اتر کر بیگ اٹھا کر گیٹ کی طرف دوڑ لگائی۔ معمر ازبک ڈرائیور کے آخری الفاظ میرے کانوں کی گھنٹیاں بجا رہی تھیں۔وہ کہہ رہا تھا ’آزادی ایک نعمت ہے، جو پیٹ بھر کھانے سے کئی گنا زیادہ آسودگی عطا کرتی ہے۔(ختم شد)