صاحب نے وانا میں دوران تقریر بلاول بھٹو کو صاحبہ کہہ کر ایسا کیا نیا کر دیا کہ ہر طرف طوفان ملامت آ گیا۔ وہ تو شروع ہی سے ایسی ہی شائستہ کلامی کے عادی ہیں اور لوگ بھی انہیں اسی طرح سننے کے عادی ہو گئے ہیں۔ بہرحال‘ سوال اگر بنتا ہے تو صرف اتنا کہ آخر بے جوڑ سے خطاب میں بلاول کو یاد فرمانے کی وجہ کیا تھی۔ اصحاب الرائے کی رائے اس بارے میں منقسم ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ جناب نے تہران میں علم و حکمت کے جو موتی برسائے‘ ان پر اتنی زیادہ اور اتنی غیر متوقع داد ملی کہ فضا دھواں دار ہو گئی۔ صاحب کا سانس لینا مشکل ہو گیا۔ بلاول پر اسی کا غصہ نکالا۔ کچھ دوسروں کی رائے الگ ہے۔اس رائے میں وزن نظر نہیں آتا۔ یہ خطابات انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے دیے تھے‘ اس بار بلاول نے اردو میں طبع آزمائی کی‘ چوٹ کاری پڑی’’دل سے تیرا ’’خطاب‘‘ جگر تک اتر گیا۔‘‘ ٭٭٭٭٭ لوگ جو بھی کہتے رہیں‘ ساری حیرت اور غم و غصہ بے جا ہے۔ خاں صاحب کی شائستہ بیانی کوئی نیا حادثہ تو نہیں ہے۔ بائیس برسوں سے وہ ایسے ہی اعلیٰ خیالات ظاہر کرتے آ رہے ہیں۔ خاص طور سے 2014ء کے دھرنوں کے بعد سے اور حکومت میں آنے کے بعد یہ انداز گفتگو ریاستی بیانیہ بن گئی ہے۔ ایک واقعاتی لطیفہ یاد آیا۔ اداکارہ ترانہ ایوان صدر گئی اور یحییٰ خاں سے ملی۔ واپسی پر یحییٰ خاں اسے چھوڑنے گیٹ پر آئے۔ گیٹ سے باہر آنے پر سکیورٹی گارڈ نے ترانہ کو سیلوٹ کیا۔ ترانہ نے پوچھا‘ جب آئی تھی تب تو سیلوٹ نہیں کیا تھا اب کیا ہوا۔ گارڈ بولا‘ تب آپ ترانہ تھیں‘ اب قومی ترانہ ہیں۔ ریاستی بیانیہ بننے کے بعد خاں صاحب کے لب و لہجے اور شائستہ بیانی کا احترام ہونا چاہیے تھا لیکن معاملہ الٹ چل نکلا ہے۔ کیا الٹا زمانہ آ گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ بلاول کو صاحبہ کہہ کر بظاہر صاحب نے ارشادات تہران سے اٹھنے والے طوفان کا رخ موڑ دیا ہے۔ بے شک رخ مڑا ہے لیکن طوفان نہیں مڑا۔ ملفوظات تہران ایک عرصہ تک صاحب اوران کے اصحاب کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ ہاں اس دوران لطیفہ اور جملہ بازی سے فضا کو ہلکا پھلکا بنانے کی کوشش بھی جاری رہے گی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک ملاقاتی تشریف فرما تھے۔ اتنے میں ایک پڑوسی بھی آ گئے۔ پڑوسی نے کہا کہ صاحب پر شیخ رشید کی صحبت کا اثر ہو گیا ہے۔ پہلے سے موجود ملاقاتی نے کہا لیکن شیخ صاحب تو خاں صاحب کو اپنا امام مانتے ہیں۔ اس پر دونوں ایک دوسرے کے امام ہیں‘ ایک سیر ہے تو دوسرا سوا سیر‘ بس سوا ہی کا فرق ہے ورنہ برابر ہے۔ یوں یہ بحث برنگ برادرانہ انجام کو پہنچی۔ ٭٭٭٭٭ ہو سکتا ہے وانا میں ہجوم کا خوش منظر نہ ہونا بھی جذبات مجروح کرنے کا باعث بنا ہو۔ ایک دن پہلے خبر آئی تھی کہ وزیرستان جرگے نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ مولوی مدن سے مراد بخدا منظور پشتین نہیں ہے۔ چنانچہ اس صورتحال نے بھی مزاج پر برہمی کا تڑکا لگایا۔ کہا آپ پر بہت پیسہ خرچ کرنا چاہتا ہوں لیکن ابھی نہیں۔ اس لئے کہ ابھی میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ سارے پیسے نواز شریف چوری کر کے لے گیا ہے۔ ایک تیر‘ دو شکار۔ وانا والوں کی قسمت میں کچھ ملنا ملانا تھا ہی نہیں۔ بس صاحب نے اس بہانے نواز شریف پر غصہ بھی نکال لیا۔ ٭٭٭٭٭ سیاست میں گالم گلوچ پہلے نہیں تھی۔ بھٹو صاحب کے زمانہ عروج میں تلخی ضرور تھی اور نامناسب القاب بھی۔ بھٹو صاحب نے دولتانہ کو چوہا کہا اور اصغر خاں کو آلو۔ نچلی سطح پر کارکنوں اور حامیوں کی جنگ البتہ زیادہ شدید تھی۔ ایک دوسرے کے حامی اخبار رسالے بھی خوب غبار نکالتے لیکن ’’شہاب‘‘ بازی لے گیا۔ اس کے ایڈیٹرکوثر نیازی نئے نئے پیپلز پارٹی میں آئے تھے۔ بھٹو صاحب کی خوشنودی کے لئے مخالفوں کو ایسی ایسی گالیاں شہاب میں چھاپیں کہ خدا کی پناہ۔ اس زمانے میں کسی نے لکھا کہ شہاب سے گالیاں نکال دی جائیں تو پیچھے اخبار کی پیشانی اور پرنٹ لائن ہی چھپے گی۔ مخالف کے سر عریاں اداکارائوں کے جسم کے ساتھ فٹ کرنے کی روایت انہوں نے ہی رکھی۔ بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو سب سے پہلے جو صاحب دھوتی ٹوپی چھوڑ کر بھاگے‘ یہی تھے۔ سیاست میں پرتشدد رجحانات کے بانی اصغر خاں تھے۔1976ء کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلی جس کا واحد مطالبہ نئے انتخابات تھا۔ اصغر خاں نے اسے نیا رنگ دے دیا۔ کہا‘ اپنے ہاتھوں سے بھٹو کو پھانسی دوں گا۔ کوہالہ کے پل پر‘ لاہور میں جلسہ کیا اور کہا‘ لاہور والو‘ مجھے معاف کر دینا۔ میں بھٹو کو لاہور میں پھانسی نہیں دے سکتا کیونکہ یہ وعدہ کوہالہ والوں سے کر چکا ہوں۔ اصغر خاں کے ایرانی اور امریکی سفارت خانوں سے رابطے تھے۔(ایران پر شاہ کی حکومت تھی) اور یہ خبر عام تھی کہ امریکہ نے اصغر خاں کو لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چنانچہ ایک سینئر صحافی نے مجھے بتایا‘ اصغر خاں بھٹو کو پھانسی دینے کا سیاسی نعرہ نہیں لگا رہا‘ یہ خبر دے رہا ہے۔ امریکہ بھٹو کو نہیں چھوڑے گا۔ پھانسی دے کر رہے گا۔ اس کے بعد سے سیاسی مخالف دشمنی میں بدل گئی جو بہت عرصے بعد میثاق جمہوریت نے فضا بدلی لیکن پھر دھرنے والے آ گئے اور یہ تو سب پر بازی لے گئے اور اب ماحول یہ ہو گیا ہے کہ کوئی چوک میں کھڑے ہو کر ’’شائستہ بیانی‘‘ کا مظاہرہ کر رہا ہو تو لوگ دور ہی سے چوکنے ہو جاتے ہیں۔ بہرحال ‘ آفتاب نصف النہار کی منزل طے کر چکا۔فضا پرشفق کے آثار ہیں۔ آگے دیکھیے۔