نیوزی لینڈ میں مائوں کے جگر گوشے خون میں نہا گئے۔ باپ مارے گئے۔ بیویاں شہید ہوئیں۔ بیٹیوں کے لہو سے مسجدوں کے خون حنارنگ ہوئے۔ اپنے اپنے وطن سے ہزاروں میل دور، پردیس میں، قیامت گزر گئی۔ کچھ وہیں آسودۂ خاک ہو رہے ہیں، کچھ کے جسد واپس لائے جا رہے ہیں۔ چشم فلک نے ایسے سانحے کم ہی دیکھے ہوں گے۔ ستارے اس خون آشام منظر پر بجھنے کو ہیں۔ ہوائیں بین کر رہی ہیں۔ زمین تھرا رہی ہے۔ خاندان کے خاندان منقسم ہیں۔ ماں پاکستان میں ہے تو بیٹا امریکہ میں ہے۔ بیٹا پاکستان میں ہے تو ماں کینیڈا میں ہے۔ باپ وطن میں ہے تو بیٹی سویڈن بیٹھی ہے۔ دادا عصائے پیری ٹیک ٹیک کر اپنے گائوں میں چل رہا ہے تو پوتا ہانگ کانگ کی دیو آسا ٹرینوں میں صبح و شام سفر کر رہا ہے۔ مسلمان بالعموم۔پاکستانی بالخصوص اقصائے عالم میں بکھرے پڑے ہیں۔ جاپان، کوریا، چین، آسٹریلیا، سنگا پور، ناروے، ڈنمارک، سویڈن، فن لینڈ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ، ہسپانیہ، کینیڈا، یو ایس اے! عالم یہ ہے کہ ؎ بنے گا کوئی تو تیغِ ستم کی یادگاروں میں مرے لاشے کے ٹکڑے دفن کرنا سو مزاروں میں پہلی اور دوسری لام چھڑی تو لوک گیتوں میں ٹرینوں کا ذکر کر کے لوگ روئے کہ ریل چھک چھک کرتی آتی ہے اور مائوں کے بچڑے لے کر چل دیتی ہے۔ پھر انتظار کے گیت فضائوں میں پھولوں کی طرح خوشبو دینے لگے۔ ع متاں اسی گڈی تے آ جاویں! اب جہاز آتے ہیں۔ عفریت نما ہوائی جہاز! ایئر پورٹ آنسوئوں سے بھر جاتے ہیں۔ رخصت کرنے والے بوجھل دلوں کے ساتھ، حلق میں کڑوا ذائقہ لیے، گھروں کو واپس جاتے ہیں ؎ جہازاں تے چڑھ گئے او مار کے باریاں انّہے ہنیرے کر گئے او اس کالم کے بقیہ حصے کو شاعری کی نذر کیا جا رہا ہے! درد اور جدائی کی شاعری،امید اور مایوسی سے بُنے ہوئے لفظوں کی شالیں۔ شالیں جو سفید سروں پر پڑی ہیں۔ شالیں جو بوڑھے جھکے ہوئے کاندھوں پر رکھی ہیں۔ ہر دوسرے گھر کے کلیجے، جگر کے ٹکڑے سمندر پار ہیں، ان پردیسیوں کی خیر ہو!! ؎ کاندھے پہ ہیں سفر کی دعائیں رکھی ہوئیں/تھیلے میں ہیں جدائی کے قصے پڑے ہوئے/ہر یاد اپنا حصہ الگ مانگنے لگی/دل میں ہیں جائیداد کے جھگڑے پڑے ہوئے/اولاد میری سات سمندر کے اُس طرف/اجداء میرے خاک کے نیچے پڑے ہوئے/ساون میں آنسوئوں کا ہے ٹپکا لگا ہوا/باغوں میں حسرتوں کے ہیں جھولے پڑے ہوئے/اے رنجِ روزگار! کڑکتی تری دوپہر/دالان سارے عشق کے سُونے پڑے ہوئے/گُڈری میں ہیں لگے ہوئے پیوند خاک کے/کشکول میں ہیں صبر کے سکے پڑے ہوئے/تقویم، کھانستی ہوئی، لیٹی ہے کھاٹ پر/کونے میں سال اور مہینے پڑے ہوئے/قالین خشک گھاس کا مٹی کے فرش پر/باہر وضو کی ناند پہ کُوزے پڑے ہوئے ٭٭٭٭٭ مالک زمینِ غم کا تونگر بہت ہوا/اس سال دل کی فصل میں پتھر بہت ہوا/ٹھپ ہو گئی دکان ترے انتظار کی/نقصان کاروبار میں مرکر بہت ہوا/بیٹے اسی زمین پہ رہتے رہے مگر/حائل ہمارے بیچ سمندر بہت ہوا/سب زائچے درست ہیں سب ساعتیں سعید/بس اک ذرا خراب مقدر بہت ہوا/ندرت خیال کی ہے نہ بندش ہی چست ہے/پھر بھی یہ شعر غم کا مکرّر بہت ہوا ٭٭٭٭٭ مٹتی ہوئی، بنتی ہوئی تصویر عجب ہے/یہ عمر کہ ہے خود ہی گُلو گیر عجب ہے/چاہیں بھی تو آواز وہاں سُن نہیں سکتے/اے شورِ جہاں! دیکھ یہ تدبیر عجب ہے/ڈھلتی ہے کسی شکل میں، کھاتی ہے اسے پھر/مٹی میں یہ تاثیر مرے وِیر! عجب ہے/مرتا بھی نہیں سانس بھی میں لے نہیں سکتا/اٹکا ہوا شہ رگ میں کوئی تیر عجب ہے/ملنا تو ہے اس سے مجھے ہر حال میں اظہارؔ/لیکن یہ ملاقات میں تاخیر عجب ہے ٭٭٭٭٭ راہوں پہ چھڑک روشنی مٹی کا سفر ہے/اے روح! ترے جسم کی مٹی کا سفر ہے/کچھ دن جو رہا تیرا امیں، زیرِ زمیں ہے/کیا ساتھ تھا کچھ سوچتی مٹی کا سفر ہے/یہ وقت بھڑکنے کا نہیں ہے مری آنکھو!/آہستہ جلو اور بھی، مٹی کا سفر ہے/مٹی کا سفر ہے کوئی دستک نہ تعاقب/کیا دوستی کیا دشمنی مٹی کا سفر ہے/ہٹ جائو کہ اب دخل نہیں کچھ بھی تمہارا/اے روشنی! اے تیرگی! مٹی کا سفر ہے/پھر دیکھ نہ پائو گے یہ شہ زور مسافر/دیکھو یہ جھلک آخری مٹی کا سفر ہے/رفتار ہے اب کوئی جہت ہے نہ پڑائو/بس کوچ ہی تھا، کوچ ہی مٹی کا سفر ہے/اٹھارہے اب دستِ دعا یوں ہی ابد تک/ماں! خیر ترے لعل کی مٹی کا سفر ہے ٭٭٭٭٭ یہ نخل جس پہ آج ہیں لمحے لگے ہوئے/اس پر تھے سال اور مہینے لگے ہوئے /یوں تھا کہ میں بھی چاند تھا، دادا مرا بھی تھا/اک پیڑ تھا اور اُس پہ الوچے لگے ہوئے/کیا کیا تھے دن کو اسپ سواری کے ذائقے/قاف اور پری کے رات کو قصے لگے ہوئے/مستور سرخ رنگ ردائوں میں بیبیاں/اونٹوں پہ زرد رنگ کجاوے لگے ہوئے/اک چار پائی بان کی کیکر کی چھائوں میں/دیوار پر وہ سامنے اُپلے لگے ہوئے/سر ہو سکی نہ ان کی مدد سے کوئی مہم/دیوارِ دل پہ عشق کے نقشے لگے ہوئے/مر مر سے جیسے ترشا ہوا تھا تمام باغ/پیڑوں کے ساتھ جیسے پرندے لگے ہوئے/دیکھا کریں گے اہلِ زمیں کو پس از وفات/ہیں آسماں پہ ہجر دریچے لگے ہوئے/پھرتوں نواسیوں کے چمن زار واہ واہ/اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے/اس ریگزارِ درد میں احباب کا وجود /اس دھوپ میں ہیں چھائوں کے پکڑے لگے ہوئے/آگے حسابِ حشر مرے انتظار میں/پیچھے لحد کے گھور اندھیرے لگے ہوئے/یہ بحرو بر تھا کھیل فراق اور وصال کا/تھے پانیوں کے ساتھ جزیرے لگے ہوئے ٭٭٭٭٭ روتا، پلٹ کے ہاتھ ہلاتا، رُکا ہوا/آدھا چلے ہے سانس تو آدھا رکا ہوا/بیمار مر چکے ہیں لہو تھوکتے ہوئے/کچھ روز سے ہے کارِ مسیحا رکا ہوا/دیکھا تھا میں نے کان کی لَو سے چلا تھا یہ/رخسار کے مقام پہ شعلہ رکا ہوا/سب صدق دل سے کھائی کی جانب رواں دواں/اس دوڑ میں بس ایک میں اندھا رکا ہوا/چھٹنے کا اِذن ہے نہ برسنے کا حکم ہے/آنکھوں میں اک ابر کا ٹکڑا رکا ہوا/جنت میں کیا عجب مجھے اک باغ دیں جہاں/چلتے ہوئے درخت ہوں، دریا رُکا ہوا/حاکم یہاں سے گزرے گا اظہارؔ کس گھڑی/بدبخت کے لیے ہے جنازہ رُکا ہوا ٭٭٭٭٭ اینٹیں نہیں، مکاں میں ہے سونا لگا ہوادروازہ دیکھیے تو ہے ٹیڑھا لگا ہوا کالک ہمارے منہ پہ، ترے رُخ پہ روشنی ہر اک کے ساتھ اس کا نصیبہ لگا ہوا دونوں طرف پہاڑ تھے اور بیچ میں نشیب اُس بیچ کے نشیب میں دریا لگا ہوا پٹ کھولتے ہی زلف اڑی، دل پہ آ لگی کھڑکی کے ساتھ جیسے نشانہ لگا ہوا یہ ہے نشان میرے قبیلے کا دیکھ لو خیمے پہ انتقام کا جھنڈا لگا ہوا کس کی مجال ہے کہ مری سمت بڑھ سکے مجھ پر ہے میری موت کا پہرہ لگا ہوا