ان کے ملٹری کمانڈرز ان مذاکرات کا حصہ نہیں تھے۔ مذاکرات ہمیشہ طاقتور فرد کے ساتھ ہی کرنے چاہئیں۔ ورنہ ہر معمولی فیصلہ کیلئے بھی بار بار ا نکو روک دینا پڑتا ہے کیونکہ مذاکرات میں شامل افراد کو اپنے لیڈروں سے صلاح و مشورہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا کہ کیا اب ایک نئے روس کا ظہور ہو رہا ہے ،کیونکہ ماضی میں روس عالمی معاملات اور مصالحت کاری میں شامل نہیں رہا ہے، تو ماریہ نے کہا ’’کہ و ہ اس سے اتفاق نہیں رکھتی ہے۔ اسے سے قبل یوکرین، فلسطین میں بھی روس کی سفارت کاری شامل رہی ہے۔ افغانستان میں بھی روس کی مذاکرات کاری کو فوقیت حاصل ہے۔‘‘ افغانستان کا ذکر آگیا ، تو میں نے پوچھا کہ آخر شام اور افغانستان میں کیا مماثلت ہے؟ تو روسی مصالحت کار نے کہا ’’کہ شام کے حالات و واقعات ایک سبق ہے کہ علاقائی طاقتوں اور پڑوسی ممالک کو شامل کئے بغیر بحالی امن نا ممکن ہے۔ پڑوسی ممالک کے سٹریٹجک مفادات کو نظر انداز کئے بغیر حالات بہتری کی طرف گامزن نہیں ہوسکتے ہیں۔‘‘ ماریہ فی الوقت روسی وزارت خارجہ کے اسٹریجک پلاننگ محکمہ میں سینئر صلاح کار کے طور پر کام کر رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ترکی کے ساتھ کام کرتے ہوئے دونوں ممالک نے ابھی تک شام میں پانچ ڈی ایسکلیشن یا جنگ بندی زون قائم کئے ہیں۔ ان میں ادلیب اور اسکے نواح میں لاتیکا صوبہ کے چند علاقے، حلب اور شمالی حمص ، دمشق اور اسکے بغل میں مشرقی غوطہ، جنوبی ڈیرا اور اردن کی سرحد سے ملحق القنطیرہ کا صوبہ شامل ہے۔ ’’اس وقت اصل مقصد صورت حال کو منجمد کرنا ہے۔ ابھی فی الحال شام میں جنگ بند ہوچکی ہے، فریقین کے علاقے بٹے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ہمیں بشارالاسد حکومت کو قائل کروانے میں دانتوں پسینہ آگیا تھا۔ ترکی کیلئے بھی اپوزیشن گروپوں کو قائل کروانا کچھ آسان نہیں رہا ہوگا۔ روس نے اس کے ساتھ ایک متوازی عمل کے بطور دیگر اپوزیشن گروپوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے کیونکہ کئی گروپوں کے تار سعودی عرب، مصر، قطر اور متحدہ امارات سے ملے ہوئے ہیں۔ ‘‘ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ماریہ نے بتایا کہ جب وہ دمشق میں تھی، تو شہر کے نواح میں جوبریہ کے علاقہ سے روز روسی سفارت خانہ پر شلنگ ہوگی تھی۔’’ ہم نے خاطر خواہ انتظام تو کیا تھا، مگر خدشہ تھا کہ کسی بھی وقت کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔ ہم نے گروپ سے رابطہ کرکے ان کو سفارت خانہ کو نشانہ بنانے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ مگر بے سود۔ آخر ہم نے اس گروپ کے سوشل میڈیا اکاونٹ کی چھان بین شروع کرکے ان کے افکار، نظریات و خیالات کو کھنگال کر یہ اندازہ لگایا کہ اس گروپ کی پشت پر کون سا ملک ہے یا آخر کس ملک کے تئیں وہ نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس چھان بین کے بعد ہم نے ایک اندازہ لگایا، جو درست نکلا۔ ہم نے اس ملک سے رابط کرکے ان کو بتایا کہ روسی سفارت خانہ پر شیلنگ بند ہونی چاہئے۔ آپ یقین کریں ، نہ صرف شیلنگ بند ہوگئی ، بلکہ اس گروپ نے وہ علاقہ ہی چھوڑدیا۔ اگلے ہی روز ہم نے اس علاقہ کو زیر تصرف لیکر اسکو بارودی سرنگوں سے صاف کراکر اسکو دوبارہ رہائش کے قابل بنایا۔‘‘ کافی وقت گذر چکا تھا۔ مجھے بھی اب ایرپورٹ جانے کی جلدی تھی۔ استنبول سے واپس انقر ہ جانے کیلئے فلائٹ کا وقت ہو رہا تھا۔میں نے اس حسین سفارت کار سے پوچھا کہ چونکہ آپ پچھلے کئی سالوں سے مذاکرات کار کا کام انجام دے رہی ہیں، ایک اچھے اور کامیاب مصالحت کار کیلئے کیا لازم ہے؟، تو ماریہ نے کہا ’’کہ مصالت کار چاہئے کتنے ہی طاقتور ملک کی نمائیند گی کیون نہ کرتا ہو، کوئی حل مسلط نہیں کرنا چاہئے۔‘‘ اس کا کہنا تھا کہ مسلط شدہ حل دیرپا نہیں ہوتا ہے۔’’ حل بس تجویز کرو، اس پر اتفاق رائے بنانے کی کوشش کرو۔ دنیا کاسٹریٹجک نظا م ایک رولر کوسٹر کی طرح ہوتا ہے۔ اگر فریقین پر حل مسلط کیا گیا، تو جونہی پہیہ گھومے گا ، تو و ہ اسکو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے۔‘‘ میں اپنے دماغ میںافغانستان میں امن کیلئے ہوئے معاہدے گن رہا تھا،ایک معاہدہ تو مکہ المکرمہ میں بھی تحریر ہوا تھا۔ میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ کہیں وہ بس اسی وجہ سے ہی ناکام تو نہیں ہوئے کہ ان کو مسلط کیا گیا تھا۔ کشمیر پر بھی ابھی ایک حل بھارت نے مسلط کیا ہے۔ میں اپنا بیگ اٹھا کر ٹیکسی کی طرف دوڑ لگا کر سوچ رہا تھا کہ کب تاریخ اس مسلط شدہ حل کو کوڑے دان میں پھینک دے گی اور کب کشمیر کی سیاہ رات کا خاتمہ ہوگا۔ وہ صبح ضرور آئیگی، اس صبح کا انتظار کر ۔پر فاصلہ کتنا طویل ہے۔ تاریخ کیلئے صدیاں تو بس ایک لمحہ ہوتی ہیں۔ تاریخ کا پہیہ ضرور گھومے گا۔بس انتظار کر۔