افشاں لطیف کے سچ نے مصلحت کوشی کی جھیل میں بلا کا ارتعاش برپا کر دیا ہے۔اس نے اس سماج کے طاقتوروں کے خلاف ایک خطرناک سچ بول کر خود کو اس طرح عدم تحفظ سے دوچار کر دیا ہے جیسے چراغ کو تیز آندھیوں کے سامنے رکھ دیا جائے۔مجھے اس کی اس غیر معمولی بہادری پر حیرت ہوتی ہے۔ بہت حیرت۔!! کوئی مصلحت کوش ہوتا تو اسے سمجھاتا۔ چراغ لے کر کہاں سامنے ہوا کے چلے۔ کس سماج میں سچ بولنے جا رہی ہو،افشاں جہاں سچ بولنے پر لوگ معتوب کر دیے جاتے ہیں لیکن افشاں لطیف کا المیہ ہی یہ ہے کہ اس کے اندر سچ بولنے والی بہادر روح ہے۔ وہ ظلم کو بے نقاب کرنے والی اور مصلحت کوشی کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھنے والی ایک چٹان جیسی عورت ہے۔ اس کا دکھ یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں جیسی نہیں ہے۔ اسے وہ مصلحت کوشی نہ آ سکی جو اس سے پہلے کاشانہ اور دارالامان کے لوگوں کا شعار رہا ہے کہ جو ہو رہا ہے اسے ہونے دو ۔یہ سماج طاقت وروں کے لئے بنا ہے جہاں کمزور چیونٹیوں کی طرح روند دیے جاتے ہیں۔ جہاں اقراء کائنات جیسے جنم لیتے ہیں۔ افشاں لطیف کے جس سچ نے مصلحت کوش سماج میں ایک ارتعاش برپا کیا‘ اس سچائی کی گواہ اقراء کائنات کو انتہائی پراسرار انداز میں مار دیا گیا اور اسے پہلے افشاں لطیف میڈیا پر یہ دہائی دیتی رہی کہ اقراء کائنات کو مار دیا جائے گا تاکہ سچائی کے ثبوت مٹائے جا سکیں اور پھر وہی ہوا۔ 9فروری کی اخبار میں ممتاز صحافی خاور نعیم ہاشمی نے اقراء کائنات کے قتل کے حوالے سے ’’بے بس کائنات ختم کر دی گئی‘‘ کالم لکھا ان کا بے حد شکریہ! انہوں نے اپنا قلم اس معاشرے کی بے بس اور بے اختیار طبقے کے لئے اٹھایا۔اقراء کائنات کو مار دیا گیا۔ افشاں لطیف کی زندگی مسلسل عدم تحفظ کا شکار ہے۔ میری کل اس سے فون پر بات ہوئی۔ وہ قطعاً ڈری ہوئی نہیں ہے ۔ ظلم کے سامنے چٹان بن کر ڈٹی ہوئی ہے اس سے بات کر کے اندازہ ہوتا ہے کہ سچ اس سے سرزد نہیں ہوا بلکہ وہ سچ بولنے کے تمام ترنتائج سے واقف ہے۔ پھر بھی وہ اس سچ پر ڈٹی ہوئی ہے۔ میں رہ رہ کر افشاں کے بارے میں سوچتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ ایسے بہادر لوگ ہی اس معاشرے کے اصل ہیرو ہیں۔ اس کی بہادری کو جس قدر خراج پیش کریں کم ہے۔ اس کی عزت اور زندگی دائو پر لگی ہوئی ہے اور وہ ہے کہ یتیم بچیوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے۔ایک نہتی عورت کے سامنے ظالموں کو تحفظ دینے والا تعفن زدہ سسٹم کھڑا ہے وہ ان طاقتوروں کے خلاف بولتی ہے جو اس وقت اقتدار میں ہیں۔ افشاں کے ہوشربا انکشافات ہیں۔ کہنے کو بہت کچھ ہے۔ بڑے بڑے ناموں کو بے نقاب کرتے ہوئے حقائق ہیں۔ کاشانہ اور دارالامان۔ جو یتیم اور لاوارث لڑکیوں کو تحفظ اور امن دینے والی جگہیں تھیں وہاں کس طرح ان کی عزتوں کا سودا کیا جاتا ہے۔ گاہکوں کے لئے بیڈ روم سجائے جاتے ہیں اور اس شرمناک کھیل کو شادی کا نام دیا جاتا تھا۔ کاشانہ کی بہادر زیر عتاب سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف انکشاف کر چکی ہیں کہ یتیم لڑکیوں کے ان گاہکوں میں سیاستدان ،بیورو کریٹس اور دیگر سرکاری افسران شامل تھے۔ کاشانہ میں مقیم کمسن لاوارث لڑکیوں کو ہنر سکھانے جیسی بامقصد سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کی بجائے انہیں قابل اعتراض فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ جنسی اصطلاحات میں ان سے بات چیت کی جاتی۔ انہیں غسل خانوں میں بند کر کے باقاعدہ مارا پیٹا جاتا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ البتہ بعض خوبرو لڑکیوں کو میک اپ کرنے اور اپنے آپ کو سنوارنے کے سیلف گرومنگ کورسز کروائے جاتے تھے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ یہ لاوارث لڑکیاں گاہکوں کے دیے ہوئے تحفے یا پھر برانڈڈ کپڑے اور جوتے پہنتیں۔ میک اپ اور فیشن‘ سٹائل اس انداز میں کرتیں کہ کوئی انجان پہچان نہ پاتا کہ یہ یتیم خانے کی لاوارث لڑکی ہے جسے بالآخر تماشبین ‘ استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیں گے۔اقراء کائنات اس طرح کی تمام سرگرمیوں کی نہ صرف گواہ تھی بلکہ اس کے ساتھ یہ سب کچھ ان سرکاری یتیم خانوں میں بیت چکا تھا۔ اقراء مگر ایک علامتی کردار ہے۔ اس وقت کتنی اقراء ہیں جو ان سرکاری یتیم خانوں میں طاقتوروں کے ہاتھوں میں استعمال ہو رہی ہیں۔لاہور میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو‘ لاوارث بچوں کا ادارہ ہے۔ اس کے بعد یہاں جوان ہونے جانے والی بچیوں کو پھر کاشانہ میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد لاوارث خواتین کا ادارہ ہے دارالامان، تو یہ تین سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں۔ سرکاری یتیم خانوں کی چاردیواری میں بچوں کی زندگیاں سوشل ویلفیئر کے چند افسران کے رحم و کرم پر نہیں ہونی چاہئیں۔ افشاں لطیف نے جو الزامات لگائے ہیں ان کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئے۔ افشاں کی زندگی خطرے سے دوچار ہے، اس کو مکمل تحفظ ملنا چاہیے۔ اہل اختیار کو یتیموں‘ لاوارثوں اور بے بسوں کے معاملے تو کچھ خوف خدا کرنا چاہیے۔ جس روز اقراء کائنات کی موت کی خبر آئی۔ میں ذاتی طور پر بہت مایوس ہوئی۔ ایک لمحے کو تو ایسا لگا کہ یہ معاشرہ صرف ظالموں کو پناہ دینے کے لئے بنا ہے۔ اہل اختیار اور اہل اقتدار کی سماعتیں بند ہیں تو آواز اٹھانا ایک لاحاصل سرگرمی ہے۔ پھر میری بات افشاں لطیف ہوئی تو اس جری عورت کے جذبے نے مجھے حیران کر دیا۔ میں نے سوچا کہ ہاں حد سے بڑھتا ہوا ظلم ہے یہاں، مگر پھر اس سماج میں کوئی افشاں لطیف بھی جنم لیتی ہے جس کے سچ کی آواز مصلحت سے بھری ہوئی خاموشی میں بلا کا ارتعاش پیدا کر دیتی ہے۔ افشاں لطیف اس شعر کی مجسم تصویر بن چکی ہے: عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں اک سچ کے تحفظ کے لئے سب سے لڑی ہوں زیر عتاب سابق سپرنٹنڈنٹ کاشانہ افشاں لطیف ایک ماں بھی ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کی انتظامیہ ایک ماں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ بحیثیت پاکستانی یہ ان کا بنیادی حق ہے۔