معزز قارئین!۔ پانچ،چھ اکتوبر کو الیکٹرانک میڈیا اور اگلے روز پرنٹ میڈیا پر کئی ایسی خبریں پیش کی گئیں ، جو مختلف طبقات کے لئے دلچسپی کا باعث تھیں۔ اہم خبر یہ کہ ’’ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر، سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف جب 5 اکتوبر کو ’’ پینے کے صاف پانی کرپشن کیس‘‘ میں لاہور میںنیب میں پوچھ گچھ کے لئے طلب کئے گئے تو، نیب حکام نے انہیں آشیانہ ہائوسنگ سکیم سکینڈل میں گرفتار کرلِیا‘‘۔

نیبؔ حکام کے مطابق’’ سابق وزیراعلیٰ کی حیثیت سے میاں شہباز شریف نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فوادؔ سے مل کر ، ایک کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کر کے اپنی من پسند کمپنی کو دلوا دِیا‘‘۔ 6 اکتوبر ہی کو شہباز شریف صاحب کو نیب عدالت کے جج صاحب نجم اُلحسن کی عدالت میں پیش کر کے ، اُن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلِیا گیا تھا‘‘ ۔ خبروں کے مطابق ’’ گرفتاری کے بعد میاں شہباز شریف کا میڈیکل چیک اپ کِیا گیا تھا تو، وہ "FIT" تھے۔نیب عدالت نے ملزمؔ شہباز شریف سے ملاقات کے لئے اُن کے بڑے بھائی ۔میاں نواز شریف کی درخواست مسترد کردِی ہے ۔ نیب عدالت میں اپنے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دَوران ملزم شہباز شریف نے یہ مؤقف اختیار کِیا تھا کہ ’’ مَیں نے کبھی ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی!‘‘۔

معزز قارئین!۔ قیام پاکستان سے پہلے متحدہ ہندوستان میں کم درجے کے سکے ’’ دھیلا اور پائی‘‘ رائج تھے ۔ دھیلاؔ۔ آدھے پیسے کو کہتے تھے اور پائیؔ ، ایک آنے کے بارہویں حصّے کو ۔ 3 جون 2018ء کو سپریم (لاہور رجسٹری) میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز اُلحسن پر مشتمل دو رُکنی بنچ میں ’’ پینے کے صاف پانی کی 56 کمپنیوں کی بے ضابطگیوں کے کیس‘‘ کی سماعت کے دَوران جب ، چیف جسٹس صاحب نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے کہا کہ ’’ مَیں نے آپ کو ایک مخصوص سوال کے جواب کے لئے طلب کِیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’ پینے کے صاف پانی کی کمپنیوں پر کروڑوں روپے خرچ ہوگئے ہیں لیکن عوام کو پینے کے صاف پانی کی ایک بوند بھی میسر نہیں؟‘‘۔

اِس پر میاں شہباز شریف جذباتی ہوگئے ، اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ مجھے کسی کُتیّ نے نہیں کاٹا تھا کہ مَیں ترقیاتی منصوبوں پر بچت کرتا رہا، مَیں نے تو قومی خزانے کو نقصان سے بچایا!‘‘ جواب میں چیف جسٹس صاحب نے کہا تھا کہ ’’ مجھے نہیں پتا کہ آپ کو کِس نے کاٹا!‘‘۔ اِس پر وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے اپنے الفاظ واپس لے کر چیف جسٹس صاحب سے معذرت کرلی تھی۔ 5 جون کو میرے کالم کا عنوان تھا ‘‘۔ خادمِ ؔ اعلیٰ کو کُتّے / ڈینگی نے کاٹا‘‘ ۔ مَیں نے لِکھا تھا کہ ’’ مجھے خادم اعلیٰ سے ہمدردی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ انہیں کسی کُتیّ نے نہیں بلکہ مُوذی مچھر ڈینگیؔ نے کاٹا ہوگا ، جس کی وجہ سے اُن کے ’’ ذہنِ رسا‘‘ میں پنجاب میں پینے کے صاف پانی کے منصوبے نے جنم لِیا؟‘‘۔

معزز قارئین!۔ صدر جنرل ضیاء اُلحق نے سندھ کے جناب محمد خان جونیجو کی قیادت میں جو پاکستان مسلم لیگ بنوائی تھی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) اُس کی باقیات کہلاتی ہے ۔ ہُما شُما کا خیال ہے کہ ’’ کسی بھی پاکستان ؔمسلم لیگ کا صدر، قائداعظمؒ کی کُرسی پر بیٹھا ہوتا ہے ۔ (اِس لحاظ سے ) نااہل اور سزا یافتہ ہونے سے پہلے میاں نواز شریف، قائداعظمؒ کی کُرسی پر بیٹھے ہوں گے ؟۔ اُن کے بعد میاں شہباز شریف بیٹھتے ہیں لیکن ، جب تک وہ ، 10 دِن کے جسمانی ریمانڈ پر نیب کے ’’ قبضۂ قدرت‘‘ میں ہیں ، نہیں بیٹھ سکتے‘‘۔

6 اکتوبر کو ’’ ایک معاصر اخبار کے صفحہ اوّل پر خبر شائع ہُوئی تھی کہ ’’ صدر پاکستان مسلم لیگ(ن) میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد ، اُن کی غیر موجودگی میں اُن کے بیٹے میاں حمزہ شہباز شریف پارٹی (مسلم لیگ ن) کے معاملات دیکھیں گے ، اِس صورتِ حال میں مسلم لیگ (ن) کے راہنما۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف میاں حمزہ شہباز شریف قانونی ماہرین سے ملاقاتیں کر رہے ہیں ، خُود میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کی رہائی کے باوجود میاں شہباز شریف کی غیر موجودگی میں میاں حمزہ شہباز شریف ہی مسلم لیگ (ن) کے معاملات دیکھیں گے! ‘‘۔اللہ نہ کرے ! کہ میاں شہباز شریف کو سزا ہو جائے تو، راجا ظفر اُلحق سمیت مسلم لیگ (ن) کے دوسرے سینئر قائدین کی  ’’خاندانِ شریفاں‘‘ سے وفاداری کا تقاضا تو یہی ہوگا کہ وہ ، یہ نعرہ بھی لگایا کریں گے کہ ’’ قدم بڑھائو ۔حمزہ شہباز ۔ہم تمہارے ساتھ ہیں! ‘‘۔ 

’’ڈالر گرل ‘‘ ایان علی!

معزز قارئین!۔ 6 اکتوبر راولپنڈی کی "Custom Court"نے 5 لاکھ ڈالر کرنسی سمگلنگ کیس میں ماڈل اور گلوکارہ ’’ المعروف ‘‘ (Dollar Girl) ایان علی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے اور حکم دِیا کہ ملزمہ کو گرفتار کر کے 22 اکتوبر کو عدالت میں پیش کِیا جائے۔ کسٹم کورٹ کے جج ارشد حسین بھٹہ نے ایان علی کے پیش نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کِیا ۔ ملزمہ کے وکیل سابق گورنر پنجاب اور ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی ‘‘ کے ممتاز راہنما سردار لطیف خان کھوسہ موجود نہیں تھے ۔ عدالت میں موجود اُن کے جونیئر وکیل نے کہا کہ ’’ ایان علی بیمار ہے ‘‘۔ اِس پر عدالت نے وکیل سے پوچھا کہ ’’ کیا ملزمہ کا کوئی نیا میڈیکل سر  ٹیفکیٹ آپ کے پاس موجود ہے ؟ ہر پیشی پر پرانے میڈیکل سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر حاضری سے استثنا ء نہیں دِیا جاسکتا!‘‘۔ پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ’’ یہ لوگ ملزمہ کو عدالت میں نہ پیش کرنے کے لئے ہر پیشی پرکوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتے ہیں!‘‘۔ 

یاد رہے کہ ’’14 مارچ 2015ء کو ائیر پورٹ سکیورٹی فورسز نے "U.A.E" کی فلائٹ میں سوار ایان علی کو غیر قانونی طور پر 506,800 ڈالر لے جانے کی کوشش میں گرفتار کر کے اُسے کسٹمز جج کی عدالت میں پیش کِیا ، پھر وہ جیل میں رہیں لیکن، پھر اُس کے وُکلاء کی طرف سے ’’میڈیکل سر  ٹیفکیٹ ‘‘ پیش کرنے کے بعد ، اُسے 16 جولائی 2015ء کو جیل سے ضمانت پر رہا کردِیا گیا۔ تفتیش کے مطابق ’’ ایان علی کے کئی سیاستدان کے ساتھ تعلقات ہیں  ‘‘۔ دیکھنا یہ ہے کہ 22 اکتوبر کو جب، ایان علی اور اُن کے وُکلاء کسٹم کورٹ میں پیش ہوں گے تو، کیا ہوگا؟۔ 

عمران علی قصوریؔ !

6 اکتوبر کو الیکٹرانک میڈیا پر خبرآئی کہ ’’ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے دریافت کِیا ہے کہ ’’ ابھی تک قصور کی 7 سالہ بچی زینب ؔاور تین دوسری معصوم لڑکیوں سے زیادتی کے سزا یافتہ مجرم عمران علی کو سزائے موت کیوں نہیں دِی گئی؟ ‘‘ تو، خبر میں بتایا گیا کہ ’’ وزارتِ داخلہ نے مجرم عمران علی کی رحم کی اپیل صدرِ پاکستان کو بھجوائی تھی۔ پھر پتہ نہیں چلا کہ کیا ہُوا۔ معزز قارئین!۔ قصور میں مجرم عمران علی کی درندگی کا مظاہرہ 4 جنوری 2018ء کو ہُوا۔ جِس پرپورے ملک میں کُہرام مچ گیا۔ 13جنوری کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ حکمران۔ صِرف اپنی ، بہو ، بیٹیوں کے محافظ ؟‘‘ ۔ ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے مجرم کو موت کی سزا دِی تھی۔ اُن دِنوں میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے اور شاہد خاقان عباسی وزیراعظم ؟۔ 

ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے مجرم عمران علی کو، سزائے موت دینے کا حکم دِیا تھا۔ سزائے موت کے حکم کے خلاف مجرم نے (اُن دِنوں ) صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین سے رحم کی اپیل کی جو، اُنہوں نے 12 جون کو مسترد کردِی۔ اِس سے قبل مظلومہ زینب کے والد امین انصاری نے بھی صدرِ پاکستان سے اپیل کی تھی کہ ’’ وہ اُس کی بیٹی کے قاتل کی ’’سزائے موت‘‘ کو مسترد کردیں‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ کیا وزارتِ داخلہ کی وساطت سے درندہ صفت عمران علی کی طرف سے 9 ستمبر 2018ء کو منتخب ہونے والے صدرِ پاکستان جناب عارف اُلرحمن علوی کو بھی کوئی رحم کی اپیل بھجوائی گئی ہے؟اور اگر نہیں کی گئی تو ؟۔