آج کل مجھے سابق خادمِ اعلیٰ جناب شہباز شریف کی یاد بُری طرح ستا رہی ہے۔ آپ حیران نہ ہوں، میرا اُن کا تعلق تب سے ہے جب وُہ گورنمنٹ کالج لاہور میں بی۔اے کے طالب علم تھے اور میں وہاں ینگ لیکچرار تھا۔ میرے علاوہ ان کے اکنامکس کے اُستاد بھی بخاری تھے۔ سجاد بخاری مرحوم۔ ان سے دوسرا تعلق تو بہت ہی مضبوط ہے یعنی ہم 1972 ء سے ہمسائے ہیں۔ اُن دنوں میاں صاحب کی رہائش اتفاق فیملی کی کوٹھی نمبر ایک میں تھی، جہاں اب نواز لیگ کا دفتر ہے۔ چند سال پہلے انھوں نے ایچ بلاک (ماڈل ٹائون) ہی میں سر چھپانے کے دو ٹھکانے بنائے تھے۔ ایک ٹھکانے میں وُہ خود اور دوسرے میں اُن کے فرزندانِ ارجمند رہتے ہیں۔ آجکل اتفاق سے اتفاق فیملی کے ستارے ہی گردش میں نہیں بلکہ پوری فیملی ہی گردش میں ہے۔ میاں صاحب، بیگم صاحبہ اور سلیمان شہباز (جسے میڈیا میں غلطی سے سلمان لکھا جاتا ہے) ۔ مجھے اِس بات کا یوں پتہ ہے کہ برخوردار سلیمان کو بی ۔اے کروانے کا سہرا بھی مجھ فقیر کے سر ہے۔ سلیمان سے میری آخری ملاقات تب ہوئی تھی جب بی۔اے کے پیپرمیں دوچار دن باقی تھے۔ سلیمان بڑا ہی ، مودّب اور محبت کرنے والا شاگرد ہے۔ پچھلے بارہ چودہ سال میں، قریبی ہمسایہ ہونے کے باوجود میری مصروفیت کے پیش نظر مجھ سے ملاقات کے لئے نہیں آیا۔ اِس عرصے میںاُس نے یقینا مجھے کئی بار فون کیا ہوگا لیکن میری بُری عادت ہے کہ میں فون کی سمیں بدلتا رہتا ہوں۔ ایک بار میں K بلاک میں اُس سے ملنے گیا، جہاں اُس کا دفتر ہے۔ پتہ چلا کہ وُہ ہندوستان گیا ہُوا ہے۔ جہاں اتفاق فیملی نے چند پیسے INVEST کئے ہوئے ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ وُہ اکثر ہندوستان جاتا رہتا ہے۔ میں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ ا ُس کے سیکرٹری کو دیا اور کہا کہ سلیمان کو دے دینا۔ اِس کے بعد میں منتظر رہا کہ وُہ مجھے فون کرے گا لیکن اُس کا فون نہ آیا ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اُستاد ملاقات کے لئے آئے، کارڈ چھوڑ جائے، اور شاگرد فون نہ کرے۔ غالباً ہُوا یہ کہ اُس نالائق سیکرٹری نے برخوردار کو میرا کارڈ دیا ہی نہیں اور مجھے پروفیسر سمجھ کر میرا کارڈ ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اتفاق فیملی بڑی احسان فراموش ہے۔ اُس سے پہلے آپ اُس کے عظیم تایا میاں نواز شریف اوراُس کے باپ کو بھی پڑھا چکے ہیں ۔۔ لیکن کیا کبھی کسی نے آپ کو پوچھا؟ میں کہتا ہوں نہیں ایسی بات نہیں۔ وُہ بڑے بی بے لوگ ہیں۔ انھیں وقت نہیں مل سکا۔ جونہی انھیں وقت ملے گا وُہ اُستاد سے ضرور رابطہ کریں گے۔ جب کہ اُستاد کا غریب خانہ اُن کے امیر خانے سے محض چند قدموں پر ہے۔ وُہ انشاء اللہ انہی پتھروں پر چل کر آئیں گے جو ہمارے گھر وں کو ملانے والے فٹ پاتھ پر لگے ہیں۔ معاف کیجیے گا۔ بیچ میں برخوردار سلیمان طو ل عمرہٗ کا ذکر آگیا۔ خدا کرے اُس کا کاروبار دن دونا رات چوگنا پھلے پُھولے۔ میں دراصل میاں شہباز شریف کے بارے میں کچھ عرض کرناچاہتا تھا۔ جیسا کہ میں نے کہا وُہ 1972 ء سے میرے ہمسائے ہیں ۔ جب ان کے والد محترم میاں محمد شریف ایچ بلاک میں رہتے تھے، ان سے اکثر میری ملاقات رہتی تھی۔ وُہ ایک وضعدار بزرگ تھے۔ اہلِ علم کی قدر کرتے تھے۔ وُہ اپنی سادگی کی وجہ سے میرا شمار بھی اہلِ علم میں کرتے تھے( اُن دنوں میں سچ مُچ خود کو اہلِ علم کے قبیلے کا فرد سمجھنے لگ گیا تھا۔)جب میاں شریف ماڈل ٹائون سے جاتی عمرہ (لاہوروالا۔ امرتسر والا نہیں) تشریف لے گئے تو ان سے رابطہ تقریباً ٹوٹ گیا۔ تاہم میاں شہباز شریف نے ایچ بلاک میں رہنے کو ترجیح دی۔ ان سے آتے جاتے " سلاما لیکی" ہو جاتی تھی۔ جب وُہ وزیرِاعلیٰ کے ساتھ ساتھ خادمِ اعلیٰ بن گئے میں نے ایک اخباری کالم کی وساطت سے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ خادم ، اعلیٰ نہیں ہوا کرتے بلکہ ادنیٰ ہوتے ہیں۔ میں نے انھیں اپنے مرحوم ماموں کا حوالہ بھی دیا جو خطوں کے آخر میں لکھا کرتے تھے، " آپ کا ادنیٰ خادم۔ محمد اشرف۔" لیکن یہ کالم ان کی نظر سے نہ گزر سکا اور وُہ بدستور خادمِ اعلیٰ ہی رہے اور اب بھی خادمِ اعلیٰ ہیں، سابق ہی سہی۔ ان کے کسی حواری نے یقیناًیہ کالم پڑھا ہوگا لیکن خادمِ اعلیٰ کی دہشت کے باعث ان تک میرا پیغام نہیں پہنچا یا ہوگا۔ میاں شہباز شریف اپنی تقریروں میں آصف زرداری اور اُس کے وفادار ساتھیوں کو علی بابا، چالیس چور کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ان دنوں میاں صاحب کرپشن اور کرپٹ لوگوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ وہ آصف زرداری کو تو گویا صفحہٗ ہستی سے مٹادینا چاہتے تھے۔ غضب خُدا کا ، اُس شخص نے اس ملک کو لوٹ کر کنگال کر دیا۔ میاں صاحب چاہتے تھے کہ زرداری اِس غریب اور بدقسمت قوم کی ٹوٹی ہوئی دولت واپس کر ے۔ بعد میں جب اُنھیں پتہ چلا کہ آصف زرداری کی کرپشن کے قصّے محض کہانیاں ہیں، تو انھوں نے زرداری سے دو زانُو ہو کر معافی مانگی اور زرداری نے بھی فراخدلی سے اُنھیں معاف کر دیا۔ اب دونوں میں مثالی دوستی ہے۔ مجھے نہ ان کی دشمنی سے غرض ہے نہ دوستی سے۔ مجھے تو اِس بات پر اعتراض تھا کہ وُہ آصف زرداری کو علی بابا کیوں کہتے ہیں۔ علی بابا تو نہایت شریف اور ایماندار آدمی تھا جب کہ میاں صاحب ، زرداری کو ایک ہی سانس میں علی بابا اور کرپٹ کہتے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے پھر ایک کالم میں میاں صاحب کی مخاطب کر کے کہا اگر آپ نے بچپن میں کہانیاں وغیرہ پڑھی ہوتیں تو زرداری کو کبھی علی بابا نہ کہتے۔ یہ علی بابا اور زرداری ، دونوں کی توہین ہے۔ اِس سنگین مسئلے کا حل میرے ایک عزیز سید شوکت علی شاہ ( سابق بیوروکریٹ) نے نکالا ، انھوں نے کسی طرح شہباز شریف تک یہ بات پہنچا دی کہ وُہ" علی بابا ، چالیس چور" کی بجائے "زربابا چالیس چور" کہا کریں۔ چنانچہ زرداری مخالف تقریروں میں اب وہُ " زر بابا، چالیس چور " کہنے لگ گئے۔ لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ ـ" زر بابـا" کہنے سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید گنفیوزن کا شکار ہوگیا۔ وُہ تو خیریت ہوئی کہ زرداری کے بارے میں میاں صاحب راہِ راست پر آگئے اور علی بابا مزید توہین سے بچ گیا۔ البتّہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اُن چالیس چوروں کے بارے میں ( جو آجکل زیادہ تر سندھ میں پائے جاتے ہیں) میاں صاحب کے نظریات میں انقلابی تبدیلی آئی ہے یا وُہ ان چالیس شریف زادوں کو اب بھی چور ہی سمجھتے ہیں۔ میاں شہباز شریف ایک نہایت اعلیٰ منتظم ، قومی سطح کے رہنما، انتہائی ایماندار بے باک اور فصیح البیان مقرّر ہیں۔ ان کی تقریر سُن کر عطاء اللہ شاہ بخاری یاد آجاتے ہیں۔ ( پھر بخاری) میں نے بخاری صاحب کو کبھی سُنا تو نہیں البتّہ یہ بات ضرور سُنی ہے کہ وُہ فنِّ تقریر میں میاں شہباز شریف کے مقلّد تھے۔ اب رہی میاں صاحب کی کرپشن کی بات، میاں صاحب کا فرمانا سو فیصد درست ہے کہ اُنھوں نے کبھی ایک دھیلے کی کرپشن بھی نہیں کی۔ (دھیلہ ہوتا تو کرتے۔ میں نے آخری بار دھیلہ 1946 ء میں دیکھا تھا) میاں صاحب تو اُس وقت عالمِ بالا بالا میں تھے۔ میری اُردو پر آپ حیران نہ ہوں۔ کیا آپ نے کبھی بھی سُنا کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے بالا بالا ہی آپس کے معاملات سیدھے کر لئے ہیں؟ آجکل میاں صاحب پر مشکل دور چل رہا ہے۔ انھوں نے ایچ بلاک میں سر چھپانے کے جو دو ٹھکانے بنائے تھے، اُن پر NAB کی للچائی ہوئی نظریں پڑ رہی ہیں۔ NAB والے نا صرف ان کے سر کی چھت چھیننے کے درپے ہیںبلکہ انھوں نے ان کے کاروبای اداروں کو ہتھیانے کے منصوبے بھی بنا رکھے ہیںجن میں حرام کا ایک پیسہ بھی نہیں لگا۔ میں یہ سب دیکھ کر بہت دُکھّی ہوگیا ہوں۔ ایچ بلاک میں انھوں نے جو محل نما غریب خانہ بنایا تھا، اُس کا نقشہ وُہ سعودی عرب سے لائے تھے۔ اِس غریب خانے میں داخل ہوں تو یوں لگتا ہے کہ شاہ محمد بن سلمان کے محل میں داخل ہوگئے ہیں۔ ہائے کتنے ارمانوں سے یہ گھر تعمیر کیا گیا تھا! میاں صاحب خود اِس گھر کی تعمیر کی نگرانی کرتے تھے۔ہائے ہائے ! کیا اب وُہ کبھی اِس گھر میں نہ رہ سکیں گے !!