کانوں میں ایک آواز گونجتی آ رہی ہے ’’شہباز کرے پرواز تے جانے راز دلاں دے ‘‘۔ یہ تو شہباز قلندر کی بات ہے ، میاں شہباز شریف بھی سیاسی قلندر ہیں ۔ پاکستانی سیاست اور (ن) لیگ کے اندر اُن کی پروازیں بہت دیکھی ہیں مگر اب کہ وہ باہر کی پرواز کے لیے تیار بیٹھے نظر آتے ہیں ، خبریں شائع ہوئیں کہ شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔پہلے کوئی تردید سامنے نہ آئی ، بعد میں ایک نجی ٹی وی پر میاں شہباز شریف نے استعفیٰ نہ دینے کی جو بات کی ہے وہ تردید بھی تصدیق نما ہے اور اُس میں ’’پرواز‘‘ کی تمام باتیں موجود ہیں۔میاں شہباز شریف نے کہاکہ ماضیوں کی غلطیوں کا اعتراف ہونا چاہیے اُن کا کہنا ہے کہ مشاورت سے حکمت عملی بناتے تو نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم ہوتے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ چوتھی بار وزیراعظم نہ ہونے کا ذمہ دار وہ اپنی جماعت اور اس کے سربراہ کو ٹھہرا رہے ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیںکہ غلطی کا اعتراف ہونا چاہیے۔ میاں شہباز شریف نے کہاکہ میں ادارے کو قصور وار نہیں سمجھتا میری رائے ڈھکی چھپی نہیں، جس طرح میاں شہباز شریف کی بات ڈھکی چھپی نہیں اسی طرح ادارے والی بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ، اُن کا اشارہ سیدھا سیدھا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے نہ صرف یہ کہ میاں شہباز شریف دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں ادارے کو قصور وار نہیں سمجھتا بلکہ انہوں نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہاکہ میں مانتا ہوں کہ سیاست دان ’’استعمال ہوتے رہے ہیں ‘‘۔اُن کا یہ کہنا کہ ملک کے لیے ذاتی انا ختم کرنا ہو گی ، دراصل وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے بھائی میاں نواز شریف نے اداروں سے لڑائی کو ذاتی انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے ۔ ایک حوالے سے وہ یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس اختلاف میں اصول اور نظریات کو کوئی دخل نہیں ہے ۔ شہبازشریف نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہاکہ مجھے دو بار وزیر اعظم بننے کی پیشکش ہوئی،مشرف نے بھی وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی ،میاں شہبازشریف کو اگلی وضاحت بھی کردینا چاہیے تھی کہ انہوں نے یہ پیشکش کس بنیاد پر مسترد کی؟میاں شہبازشریف کا یہ کہنا کہ عمران خان کی بدقسمتی ہے کہ سپورٹ کے باوجود حالات بدترہیں۔ اس مقام پر میاں شہباز شریف عمران خان کو دوش دینے کے ساتھ اس بات کا بھی اعتراف کررہے ہیں کہ ادارے کی سپورٹ کے بغیر پاکستان میں کچھ نہیں ہوتا ۔ یہ تمام حالات و واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کے بیانیے میں فرق ہے اور راستے جدا ہوتے نظر آتے ہیں۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ضیاء الحق اور آج کے حالات و واقعات میں فرق ہے ۔جس طرح میاں نواز شریف ضیاء الحق کی پسند تھے اب اُن کی جگہ شہباز شریف نے لے لی ہے ۔ بقول اشرف شریف صاحب ہو سکتا ہے آنے والے وقت میں ن لیگ (م )میں تبدیل ہو جائے اور شہبازشریف ق لیگ سے ملتا جلتا کوئی نام حاصل کرلیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ شہباز شریف کی پرواز میں جو چیز آڑے آتی رہی ہے وہ نواز شریف کا پنجاب میں ووٹ بینک ہے اور جی ٹی روڈ کے ووٹ کو کوئی نہیں توڑ سکتا۔ نواز شریف پنجاب کا ایسا حقیقی نمائندہ ہے کہ اس نے ایک مرتبہ جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا دوسری مرتبہ اسے کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔اب پنجابی جہاں بھی بیٹھا ہے اس کی سپورٹ اور اس کا ووٹ نواز شریف کے لیے ہے البتہ سرائیکی وسیب کے الیکٹ ایبل چڑھتے سورج کے پجاری ہیں اور بدقسمتی سے یہ ضمیر فروشوں کی ایسی جنس ہے جو ہر حاکم وقت کے دروازے پر خود جا کر کہتی ہے کہ مجھے استعمال کرو۔جہاں تک نواز شریف کے ووٹ بینک کی بات ہے اس بات کا ادراک شہباز شریف کو بھی ہے کہ ووٹ بڑی چیز ہے مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سب کچھ ووٹ نہیں ہے ۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف اور اُن کے ساتھی کہتے ہیں کہ اصول اور نظریات اہم ہیں۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے جبکہ شہبازشریف اس مقولے پر عمل پیرا ہیں کہ اصول اور نظریات کچھ نہیں اصل طاقت اقتدار ہے ۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی پہلی پسندشریف خاندان ہے ۔نواز شریف کے بعد وہ شہبازشریف کو آزمانا چاہتے ہیں ، ق لیگ کو بھی جزوی مراعات دے کر مقتدر حلقے میں رکھنا چاہتے ہیں ۔ملک کا اقتدار زرداری کے حوالے کرنے کو تیار نہیں ۔شہبازشریف نے مقتدر حلقوں کو یہ بھی فائدہ دیا ہے کہ عمران خان جب کبھی ضد اور ہٹ دھرمی پر آتا ہے تو اُسے شہبازشریف کی شکل دکھا دی جاتی ہے اوروہ خاموش ہو جاتا ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت تاریخ کا سب سے بڑا اقتدار عمران خان کے پاس ہے ، نواز شریف کو جب بھی بڑا اقتدار ملا اسے مرکز اور پنجاب ملا ،ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کو جب بھی بڑااقتدار ملا اُسے مرکز اور سندھ ملا ، تحریک انصاف خوش قسمت ہے کہ اسے مرکز اور پنجاب کے ساتھ خیبر پختونخواہ بھی ملا ہوا ہے اور اب اسے آزاد کشمیر کا اقتدار بھی حاصل ہو گیا ہے ۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف نے عوام کو کیا دیا ؟وسیب کے لوگ تو اتنا جانتے ہیں کہ اُن کو عمران خان نے سودن میں صوبہ بنانے کی تحریر لکھ کر دی مگر تین سال گزر گئے ہیں ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ کشمیر کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سیاسی حلقوں میں شہباز شریف کے کردار کو بھی ڈسکس کیا جا رہا ہے اور مریم نواز کے قریبی حلقے سمجھتے ہیں کہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے جان بوجھ کر پہلو تہی اختیار کی ۔سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ میاں شہباز شریف دلچسپی لیتے تو نتائج مختلف ہو سکتے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ وسیب کی طرح کشمیر کی سیاست کے فیصلے بھی پنجاب میں ہوتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں سب سے اہم کردار پنجاب کا ہے کہ 62فیصد آبادی کا ایک صوبہ اور 38فیصد آبادی کے تین صوبے ۔