آج مجھے ایک ایسے ہی تروتازہ سفر نامے کا حال لکھنا ہے جس میں جھیلیں‘دریا‘ سبزہ اور یادگار جگہوں کا تذکرہ بہت ہی شاعرانہ انداز میں کیا ہوا ہے۔ یہ سفر نامہ یورپ ہماری صاحب اسلوب ادیبہ اور شاعرہ شبہ طراز کے قلم نے صفحہ قرطاس پر رنگ و خوشبو کے احساس میں گوندھ کر اتارا ہے۔یہ محاورہ تو عام ہے کہ ایک کریلا اور اوپر سے نیم چڑھا مگر یہ محاورہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ انگور اور انناس چڑھا بہرحال شبہ طراز نے کیکر پر انگور نہیں چڑھایا اور نہ کوئی گوشہ زخمایا ہے۔عدیم یاد آ گیا: دور سے جان لیا میں نے کہ گھر تیرا ہے بیلیں لپٹی ہوئی دیکھیں جہاں دیوار کے ساتھ محترمہ نے یورپ میں 19یوم گزارے مگر ان کی ہوا خوری اور سیر سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کئی ماہ گزار آئی ہیں۔قدم قدم پر ان کا مشاہدہ اور احساس زندگی کو سرشار کرتا محسوس ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ ان کی پیاری بیٹیاں دعا اور جزا تھیں۔ جس کے ساتھ دعا بھی اور جزا بھی تو پھر اور کیا چاہیے۔ وگرنہ تو بعض اوقات ساتھ سزا بن جاتا ہے۔ شبہ طراز کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ نثر نگار کے ساتھ ساتھ شاعرہ بھی ہیں اور ایک ادبی مجلہ کی ایڈیٹر ہونے کے ناتے اس کے پاس ایک آنکھ جانچ کرنے کی بھی ہے۔ ویسے بھی صنف نازک ہونے کے باعث ایک سلیقہ اور ایک قرینہ بھی شامل حال رہتا ہے۔ چلتے چلتے آپ کو اس کی تحریر کا ذائقہ چکھائے دیتا ہوں۔ شام کے سائے لمبے ہو رہے تھے اور ہم بروقت آ جانے والی ٹرین پر سوار واپس فرائی برگ کی طرف رواں تھے۔ریلوے لائن کے اطراف دور تک سبز گھاس ڈھلوان پر پھیلی تھی۔ میرا کیمرہ میری گود میں دھرا تھا اور نیم دو آنکھیں ٹرین کی کھڑی پر۔گھاس کے میدان میں دوڑتا ایک شاندار گھوڑا نظر آیا یہ مشہور النسل Horse of black forestتھا اس کے لمبے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ وہ دوڑتے ہوئے سعید اختر کی پینٹنگ لگ رہا تھا جیسے کہ سعید صاحب کا برش کینوس پر دوڑتا ہے۔ گھوڑا ریل کی رفتار کے ساتھ دوڑتے ہوئے غائب ہو گیا ۔کینوس خالی ہو گیا۔ میں سوچ رہی تھی کہ زندگی ایک خالی کینوس کی مانند ہے کائنات اس میں واقعات کے رنگ بھرتی ہے‘ شوخ‘ہلکے‘ ہنستے اور مسکراتے روتے بسورتے‘پھیلتے سمٹتے رنگ اور انہیں رنگوں سے ہماری سانس کی ڈوری بندھی ہے۔ یہی ردھم ہے یہی لے ہے۔اور ٹرین فرائی برگ کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔ ایسے خوبصورت پیرا گراف شبہ طراز کے سفر نامہ ’یورپ میں 19دن‘میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ اس کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے قاری کو اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتی ہے اس کو صرف متحرک تصاویر ہی نہیں دکھاتی‘ساتھ ساتھ تبصرہ بھی کرتی جاتی ہے جس میں معلومات بھی ہوتی ہیں اور جمالیاتی احساس بھی۔ مزے کی بات یہ کہ یورپ کے منظر نامے میں وہ اپنا وطن نہیں بھولتی۔ بعض جگہ آپ کو موازنہ بھی نظر آئے گا۔ وہ اپنی یادداشت کا حصہ بنے ہوئے پینٹرز اور تخلیق کاروں کو بھی نہیں بھولتی بلکہ فراخدلی سے ان کا تذکرہ ہی نہیں کرتی بلکہ بعض جگہ ان کے سخن پارے بھی درج کر دیتی ہے۔ مثلاً وہ وحید احمد کی نظم کے مصرعے جھیل کے منظر کے ساتھ رکھ کر دیکھتی ہے: وہ نیلا رنگ پہنے دور سے آئی اوندھے برتن کی کوئی کرچی زمین پر چل رہی تھی کہ جیسے جھیل کی دھبی سفر میں ہو کہ جیسے نیلے بجرے کراں کا ایک کنارہ دائمی آوارگی میں ہو آپ کو اس سفرنامے میں دوسرے سفر ناموں سے ہٹ کر ایک بے ساختہ پن ملے گا۔میں نے یہ بات بطور خاص دیکھی کہ اس میں ناول کا سا انداز ہے کہ جزیات موتیوں کی طرح بکھری پڑی ہیں اور سطر در سطر زندگی دھڑکتی ہے۔ چلتے چلتے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی مزہ دیتی ہیں۔مثلاً ایک جگہ وہ دیکھتی ہیں کہ ٹرین سے ایک نوجوان نے ایک مڑی تڑی شے نکالی اور سیدھا کیا تو وہ بائیسکل تھی۔ گویا فولڈ ہونے والی بائیسکل‘تاریخی جگہوں کا تذکرہ تو اصل میں اس کا مدعا ہے اسے کم مگر اس کی بیٹیوں کو ثقافت اور آرٹ سے بہت دلچسپی ہے۔ایک بیٹی تو رہتی ہی جرمنی میں ہے کہ جس کے پاس وہ گئی تھیں۔ نئی تعلیم نے اس کی بیٹیوں کو اعتماد بھی دیا ہے اور تعلیم بھی۔شبہ کے اندر کی پاکستانیت ہر جگہ موجود رہتی ہے وہ مغرب کے اصول و ضوابط اور ترقی دیکھ کر اور پھر اپنے ملک کے حکمرانوں کی بے حسی پر کڑھتی ہیں اور تبصرہ بھی کرتی جاتی ہیں۔ وہاں اسے ووڈر یعنی جنگلہانٹ کرتے تھے۔ ویسے یہ تو شاید ہم میں قدر مشترک تھی۔ میں بھی جب یورپ گیا یعنی ناروے تو اوسلو میں مشاعرے پڑھنے کے بعد میزبانوں سے وہاں کے ووڈر یعنی جنگل دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔کمال ہے ان میں ٹریکس بھی ہیں کہ آپ سائیکلنگ کریں۔خیر شبہ نے وہاں کی جھیلوں کا تذکرہ بھی خوب کیا ہے۔اصل میں اس کے پاس وقت کم تھا اور تمام مقامات سیرو تفریح کچھ زیادہ تھے۔اس چیز نے اس کے اندر بے چینی بھر دی تھی کہ کون سی شے چھوڑے۔وہ چاہتی تھی کہ سب کچھ آنکھوں میں اٹھا لے جائے۔ اس کی بے تابی پر مجھے منیر نیازی یاد آئے: بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا اک آگ سی جذبوں کو دہکائے ہوئے رہنا میرے معزز و مہربان قارئین!میں نے اس سفر نامے سے نوٹس بھی لئے تھے مگر لکھنے بیٹھا تو سب کچھ گمشد۔آپ اس سفرنامے کو پڑھیں کہ مستنصر حسین تارڑ نے بھی اس کی توصیف کی ہے اور انہوں نے قمر جمیل کا خوبصورت شعر بھی برمحل لکھا ہے: خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کو دکھانا مشکل ہے آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے وہ کہتے ہیں شبہ کی تحریر میں شاعری کا مدھم بہائو بھی ہے اور نثر کے مدھر کرشمے بھی۔وہ تارڑ صاحب کو اس لئے بھی عزیز ہے کہ اس نے ان کے پیار کے پہلے شہر پیرس میں بھی بسیرا کیا۔انہوں نے اس سفرنامے کو ایک غیر معمولی سفر نامہ قرار دیا ہے۔یہ بات معمولی نہیں‘شبہ اس پر ناز نہ کرے تو کیا کرے۔آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ میرے جیسے شاعر کے لئے نثر پڑھنا کتنا مشکل کام ہے۔ مگر اس سفر نامے کو پکڑا تو اس نے مجھے پکڑ لیا۔ پتہ نہیں شبہ باتیں کرتی جاتی ہے پتہ نہیں باتوں سے کیسے باتیں نکالتی ہے۔یہ ٹیکنیک اصل میں سٹریم آف کانشئس نیس ہے۔stream of conciousnessمیں تنقید سے تحریر بوجھل نہیں کرنا چاہتا بہرحال وہ مشاہدے کے ساتھ تجربے ‘علم اور معلومات کو شامل کرتی جاتی ہے۔اس کو اس معرکہ آرا سفر نامے پر مباکباد۔ایک شعر کے ساتھ اجازت: احسان مند ہم رہے باد شمال کے لائی جو اس کی یاد کو خوشبو میں ڈھال کے