ٹیلیفون اور فیکس کی عدم دستیابی کے سبب سوپور سے سرینگر کی طرف روانہ ہونے والی آخری بس کا ڈرائیور پیغام بر ہوتا تھا۔ سبھی نامہ نگاراپنی رپورٹ اسی کے حوالے کرتے تھے۔ آفس کا اسٹاف سرینگر بس اڈہ سے پیکٹ وصول کرتا تھا۔کالج مکمل کرنے کے بعد میں دہلی آیا اور شجاعت کے ساتھ رابطہ ٹوٹ گیا۔ معلوم ہوا کہ اس نے اکائونٹنٹ جنرل کے دفتر میں سرکاری نوکری جوائن کی تھی۔ عسکریت کا آغاز ہوچکا تھا۔ اسی دوران منظورالحق بیگ ن ’’تکبیر نو‘‘کو دوبارہ اجرا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ مسعود حسین کی ادارت میں اس ہفت روزہ میگزین کیلئے شجاعت اور دیگر دوستوں نے نامساعد حالات میں زمینی رپورٹنگ کا کام کیا۔ شجاعت گھر سے تو اکائونٹنٹ جنرل کے دفتر جانے کیلئے نکلتے تھے، مگر سیدھے تکبیر کے آفس پہنچ جاتے تھے، جہاں مسعود حسین ان کو رپورٹنگ کا کام تفویض کرتے تھے۔ آفس سے غیر حاضری کی شکایت جب گھر پہنچی تو برادر اکبر بشارت بخاری نے ان کو بلاکر ملازمت سے استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا۔ بشارت نے گھر پر والدین کوبھی تیار کیا کہ شجاعت فائلیں کھنگالنے کیلئے نہیں بنا ہے۔ تکبیر اور دیگر اڈونچروں کے بعد مسعود حسین نے پوری ٹیم کے ساتھ کشمیر ٹائمز جوائن کیا، جو اس وقت ریاست کا انگریز ی کا سب سے بڑ ا اخبار تھا۔ شجاعت کی حاضر دماغی کا یہ عالم تھا کہ 1995میں ایک سرکار نواز بندوق بردار گروپ نے جنوبی کشمیر میں 29صحافیوں کو اغوا کیا ۔ ان میں نو صحافیوں کو چن کر الگ نکال کر موت کی سزا سنائی گئی، جن میں شجاعت بھی شامل تھا۔جس کمرے میں ان کو قید کیا گیا، وہاں اتفاق سے ایک ٹیلیفون موجود تھا۔ شجاعت نے پہلے کشمیر ٹائمز بعد میں نیویارک کے کمیٹی فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس(سی پی جے) کے دفتر نمبرڈائل کرکے روداد سنائی ۔ سی پی جے فوراً حرکت میں آگئی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کے میڈیا میں ہا ہا کار مچ گئی۔ رات گئے آرمی نے آپریشن کرکے ان کو واگزار کرایا 2004 میں سرینگر کے قلب میں احدوز ہوٹل میں ایک پروگرام میں شرکت کے بعد وہ باہر نکل رہے تھے کہ کسی نے انکو پسٹل کی نوک پر ایک آٹو میں بیٹھنے کیلئے کہا۔ اغوا کار نے ایک ہاتھ میں پستول تان رکھی تھی، دوسرے ہاتھ سے فون پر کسی سے ڈائریکشن لے رہا تھا۔اسی کا فائدہ اٹھا کر شجاعت نے ایک دوست کو ایس ایم ایس کرکے اغوا کی خبر دی۔ جس نے فوراً پولیس اور میڈیا کو الرٹ کیا۔ فون پر اغوا کار کو متواتر ہدایات موصول ہو رہی تھیں۔ آٹو پہلے بٹہ مالو ، پھر عید گاہ اور اب آنچار جھیل کی طرف رواںتھا کہ ایک پل کے پاس پولیس کا ناکہ دیکھ کر اغوا کار نے آٹو روک کر شجاعت کو پہلے دھکا دیا اور پھر فائر کرنے کی کوشش کی۔ مگر پسٹل لاک ہو گیا۔ دوبار کوشش کرنے کے بعد وہ فرار ہوگیا۔ صحافت کے ساتھ ساتھ وہ سماجی سرگرمیوں میں خاصے مصروف رہتے تھے۔ 2014ء میں سرینگر میں آئے سیلاب کے دوران ہاتھ پر ہاتھ دھرنے اور سرکاری امدار کا انتظار کئے بغیر حیدر آباد کے ممبر پارلیمان اسدالدین اویسی اور دیگر دوستوں کے تعاون سے انہوں نے بھاری کشتیاں ہوائی جہاز سے سری نگر پہنچا کر اپنے دفتر کے اسٹاف کے ذریعے سیلاب میں پھنسے افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کا کام کیا۔ تجزیہ کاروں کے بقول پچھلے سال دبئی میں منعقد ایک ٹریک ٹو کانفرنس کے حوالے سے شجاعت کے خلاف کئی افراد سرگرم ہوگئے تھے۔ اعتراض تھا کہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان یا آزادی پسند تنظیموں کا موقف مشترکہ اعلامیہ کا حصہ نہیں تھا۔ دانشور اور صحافی حضرات ، جو اس کانفرنس میں مدعو نہیں تھے ، کو تنقید کرنے اور شرکاء کا احتساب کرنے کا پورا حق اور آزادی حاصل تھی۔ مگر انصاف اور صحافت کے بنیادی اصولو ںکا کا تقاضا تھا کہ کسی کو تختہ دار پر لٹکانے سے قبل اسکے جرم کی تحقیق کی جاتی۔پگواش اور دیگر درجن بھر غیر سرکاری تنظیمیں شاشوبھابھاروے، رادھا کمار، شیری رحمان جرمنی اور یورپی یونین کے تعاون سے پچھلی کئی دہائیوں سے کشمیر پر دنیا بھر میں کانفرنسیں کرواتے رہتے ہیں جن پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا ہے۔ اس کانفر نس میں غالباً پہلی بار جمو ں و کشمیر کے لائن آف کنٹرول کے اطراف دونوں خطوں کی سبھی سیاسی پارٹیوں نیز حریت کی نمائندگی مو جو د تھی ۔اس کے علاوہ آئی ایس آئی کے دو سابق سربراہان اور بھارتی فضائیہ کے سابق نائب سربراہ موجود تھے۔ میں ، خرم پرویز اور گریٹر کشمیر کے ظہیرالدین بطور مبصرمدعو تھے۔ کا نفر نس میں تما م شرکاء نے اپنا موقف اور حا لا ت کا تجز یہ پیش کیا۔مگر کانفرنس کا کوئی اعلامیہ یا رسمی ڈیکلیئریشن جاری نہیں کیا گیا۔ بس کارروائی کا خلاصہ جاری کیا گیا۔ ایک خیالی ڈاکومنٹ پر کئی احباب نے واویلا مچا دیا۔ کئی احباب کے تخیل کی اڑان اس قدر اونچی تھی، کہ انہوں نے امریکہ کی طرف سے کشمیر کی معروف عسکری تنظیم حزب المجاہدین کو دہشت گرد قرار دینے اور بعد میں دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کے یوم آزادی کی تقریر میں کشمیر یوں کو گلے لگانے جیسے بیان کو بھی اسی کانفرنس سے جوڑا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ دو ماہ قبل حزب کمانڈر محمد یوسف شاہ المعروف صلاح الدین کو جب امریکہ نے دہشت گرد ڈیکلیئر کیا ،تو کم از کم مغربی ممالک میں کشمیر کے نام پر سفارتی روٹیاں سینکنے والی تنظیموں کا احتساب کیا جاتا، کہ وہ آخر ان حکومتوں کو کشمیر کی صورت حال باور کروانے میں ناکام کیوں ہوئیں۔تعجب کی بات ہے کہ حزب المجاہدین کے سربراہ صلاح الدین نے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں دوبئی کانفرنس کے شرکاء کو ’’پے رول ‘‘پر بتایا۔ جس کی تائید جہاد کونسل اور بعد میں لشکر طیبہ نے کی۔ سرینگر میں حریت (گیلانی) کے لیڈر غلام نبی سمجھی نے ایک اخبار کو بتایا کہ وہ دبئی کانفرنس اور اس کے شرکا ء کے رول کی تفتیش کریں گے۔ جب ہم نے ان سے رابط کرکے تفتیش کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا، تو وہ ایسے کسی بیان سے مکر گئے اور اخبار پر الزام لگایا کہ اس نے ان کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ گیلانی صاحب کی موجودگی میں ان کو بتایا گیا کہ وہ اخبار کو فون کرکے بیان غلط طریقے سے شائع کرنے پر احتجاج درج کروائیں۔ انہوں نے حامی تو بھر لی، مگر آنا کانی کرکے، کبھی فون بند کرکے اور کبھی ہمارا فون اٹینڈ نہ کرکے خاموشی اختیار کی۔ صلاح الدین صاحب نے ایک قریبی عزیز کو بتایاکہ ان کو مس گائیڈ کیا گیا۔ ان کو شرکا ء کے بارے میں اور کانفرنس کے بارے میں علم نہیں تھا۔ پچھلے سال ہی میرا موقف تھا کہ صلا ح الدین یا عسکری گروپ میں کوئی شاید ہمیں ٹارگٹ کرے یا نہ کرے ، مگر عداوت سے بھر پور اس باضابط منظم مہم کا فائدہ دشمن اٹھا کر اسکو عسکری گروپوں کے کھاتے میں جوڑے گا ۔ اور تحریک کشمیر کو بدنام کرنے کیلئے اسکو ایک اور ہتھیار ملے گا۔ پچھلے سال اکتوبر میں یہ مہم بند ہوگئی تھی۔ مگر اس سال اپریل سے دوبارہ جعلی ناموں اور نقلی انٹرنیٹ ایڈریسوں سے شروع ہوئی اور اسکا ٹارگٹ سرینگر تھا۔ 24 مئی کو جب شجاعت اسد درانی اور امر جیت سنگھ دلت کی کتاب کی رونمائی کے سلسلے میں دہلی میں تھے، وہ خاصے فکرمند تھے۔ تقریب ختم ہونے کے بعد آفس جاتے ہوئے میں نے انکو انڈیا انٹرنیشنل سینٹر ڈراپ کیا ۔ وہ خطرے کی بو سونگھ چکے تھے۔ راستے میں وہ خاصے جذباتی ہوکر اپنے بچوں کے بار ے میں بتانے لگے کہ وہ کیسے ان کے بغیر زندگی گزاریں گے۔ وہ بار بار وہی جملہ دہرا رہے تھے کہ اس مہم کی آڑ میں انکو ایجنسیوں کے گماشتے راستے سے ہٹائیں گے۔ ہلاکت سے صرف کچھ منٹ قبل وہ فون پر مجھ سے ہم کلام تھے۔ ایک روز قبل آبزرو ریسرچ فائونڈیشن کے ایک پروگرام میں آنند رنگاناتھن نے ان کے خلاف خوب زہر افشانی کی تھی وہ اسکی تفصیلات جاننا چاہ رہے تھے۔ اور ایک بار پھر اس مہم کا تذکرہ کیا۔ پھر مجھے متنبہ کیا کہ عید پر کشمیر نہ آئوں اور اپنا خیا ل رکھوں۔ آواز ٹھیک طرح نہیں آرہی تھی اور افطار کا وقت بھی قریب آرہا تھا۔ دہلی میں افطار سری نگر سے بیس منٹ پہلے ہوتا ہے۔ اس نے خود ہی کہا کہ گھر پہنچ کر دوبارہ فون کریگا۔ میں نے کہا رات دس بجے کے بعد فون کرنا تاکہ تفصیل سے گفتگو ہو۔ مگر چند منٹوں کے اندر ہی کشمیری صحافت کا یہ آفتاب ہلال عید کے طلوع ہونے سے پہلے ہی غروب ہوگیا۔ شجاعت تو اب نہ رہا، مگر جن افراد نے ان کے قتل کا ماحول بنایا ، جعلی اکاونٹس سے مہم چلائی۔ ان کے خلاف بھر پور تحقیق ہونی چاہئے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عمل شروع کیا جائے۔ان میں سے چند افراد اعلیٰ پوسٹوں پر براجمان ہیں۔ چاہے براہ راست قتل میں ان کا ہاتھ ہو یا نہ ہو، ان کے ہاتھ بھی شجاعت کے خون سے رنگے ہیں۔جے پور انٹرنیشنل لٹریری فیسٹول کے ایک سیشن میں مزاحمتی ادب پر گفتگو کرتے ہوئے چند سال قبل میں نے کہا تھا ، کسی بھی تحریک کیلئے فکری رہنمائی لازمی ہوتی ہے ، اسکی عدم موجودگی میں یہ انارکی کی شکل اختیار کرتی ہے اور ہدف حاصل کرنے سے پہلے ہی ناکام ہوجاتی ہے۔ شجاعت کے خلاف ان پوسٹس میں الزام تھا کہ ان کے سوتیلے چچا عاشق بخاری کشمیر پولیس کی بد نام اسپیشل آپریشن گروپ کے سربراہ تھے اور ان کے برادر بشارت محبوبہ مفتی حکومت میں وزیر تھے۔ جس سے ثابت کرنا مقصود تھا کہ شجاعت اور ان کا اخبار تحریک دشمن تھا۔ مگر شاید ان کو یہ نہیں معلوم کہ شجاعت کریری گائوں کے اس بخاری خانوادہ کے تیسرے شہید ہیں۔ شجاعت کے کزن سید اشتیاق بخاری جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک سرکردہ رکن تھے ، جن کو دسمبر 1993ئمیں شہید کردیا گیا تھا۔ اسطرح ایک اور کزن سید قیصر بخاری جو 11ویں جماعت کے طالب علم تھے اور حزب کے ساتھ وابستگی رکھتے تھے اسے اگست 1993ئمیں اغوا کیا گیا تھا۔ کافی عرصے سے وہ لاپتہ تھے۔ نومبر 1995ء کو پتہ چلا کہ ایک سیب کے باغ میں ان کو زندہ گاڑ کر دردناک موت سے ہمکنار کردیا گیا تھا۔ جب ان کی نعش نکالی گئی تو وہ عمودی دفن تھی۔ 2010ء میں حکومت دہلی نے ان کے اخبار کو اشتہارار ت کی ترسیل بند کردی ۔ اب ریاستی حکومت پر بھی دبائو تھا کہ وہ را ئزنگ کشمیر کے اشتہارات میں کٹوتی یااسکے ریٹ کم کرے۔ سری نگر میں جہاں کسی کارپوریٹ ادارہ یا بڑے بزنس کی عدم موجودگی کی وجہ سے سرکاری اشتہارات ہی اخبارات کیلئے آکسیجن کا کام کرتے ہیں ، ان کا ادارہ خاصی مالی دشواریوں کا سامنا کر رہا تھا۔ ان حالات کے باوجود 100افراد کی کفالت کرنا انکو وقت پر تنخواہ دینا ان کا خاصہ تھا۔ پہاڑی زبان کے صف اول کے مصنف مقبول ساحل کے انتقال کے بعد انہوں نے ان کی خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی۔ شجاعت کے جنازہ پر ساحل کا فرزند دہائی دے رہا تھا کہ وہ دوبارہ یتیم ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل نے حال ہی میں جو رپورٹ کشمیر پر جاری کی، وہ دو افراد کی ان تھک محنت کے سبب تیار ہوئی۔ شجاعت کے مخالفین اور ان کے خلاف مہم کے روح رواں افراد بھی اس رپورٹ کی حمایت اور اسکی افادیت جتانے کیلئے کالم کے کالم سیاہ کر رہے ہیں۔ ان افراد کیلئے عرض ہے کہ اس رپورٹ کا 80فیصد سہرہ کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز اور 20فیصد شجاعت بخاری کے سر ہے۔ اسکی ڈاکومینٹشن کا سارا کام خرم کی دین ہے اور پھر جینوا اور نیویارک میں لابنگ کا کام شجاعت نے کیا۔ جو کام لندن، امریکہ یا دیگر ممالک میں کشمیر کی آگ پر روٹیاں سینکنے والے تنخواہ دار ملازم پچھلی کئی دہائیوں سے نہیں کر پائے، وہ خرم نے کر کے دکھایا۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ قاتلوں اور بدنیتی پر مبنی کیمپین سے بچنے کیلئے انسانی حقوق کا یہ کارکن اس وقت کشمیر سے باہر پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل شجاعت کو بتایا گیا تھا کہ وہ ، افتخار اور خرم ہٹ لسٹ پر ہیں۔ شجاعت کے قتل تک ہم اس خطرہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے۔ مگر اب مجھے بھی قاتل کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔بس قاتل سے یہی گزارش ہے کہ جب سانس اکھاڑنی ہو تو سینے پر گولی چلانا، پیٹھ پر گولی کھانے کا شاید میں متحمل نہ ہوسکوں گا۔ شجاعت اور میں نے کئی بار ساتھ میں موت کو دھوکہ دیا ہے ، مگر آخر میں وہ اکیلا چلا گیا۔ اسکے جنازہ میں شرکت کے بعد میں دہلی واپس آرہا تھا تو یاد آرہا تھا کہ جب بھی میں کشمیر آتا تھا تو واپسی پر ائیر پورٹ کے پاس فرینڈز کالونی میں اسکی رہائش گاہ میرا آخری پڑائو ہوتی تھی۔ وہ خود ایئر پورٹ چھوڑنے آتا تھا۔ اس بار بھی غیر ارادی طور میں اسکی رہائش گاہ کے گیٹ پر رک گیا۔ شاید اس امید میں کہ شجاعت روایتی ظریفانہ انداز میں دروازہ کھول کر دہلی والے دوست کو الوداع کریگا ۔مگر مکان مقفل تھا۔گھریلو نوکر بشیر بھی غم سے بے حال آبائی گائوں چلا گیا تھا۔چند لمحے آنسو بہا کر 1994کا واقعہ اور شجاعت کے وہ الفاظ یاد آرہے تھے کہ ’’پھر سب بھول جائیں گے‘‘۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا