آج جب یہ کاکالم ہمارے قارئین کی نظروں سے گذررہاہے تو شاہین باغ میں خواتین کے اس احتجاج کو43روز ہورہے ہیں۔14دسمبر 2019ء کی دوپہر کو 10تا 15علاقائی خواتین نے دریائے جمنا کے کنارے واقع شاہین باغ جس کا محل وقوع کالندی کنج شاہین باغ نامی شاہراہ عام ہے جو دھرنے کے باعث 15دسمبر سے بند ہے ۔دھرنے میں خواتین جوق درجوق اس دھرنامیںشامل ہوتی چلی گئیں۔ اس طرح یہ 24/7احتجاج بن گیا ہے۔ دہلی میں ریکارڈ کی جانے والی سوسالوں میں پہلی بارپڑنے والی شدید سردی اوربارش بھی ان کا حوصلہ پست نہیں کرسکی ۔اب روزانہ کی بنیادپریہاں لاکھوں کا مجمع اکٹھاہو جاتا ہے۔ابتدا میں یہ مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولس کی بربریت اور بلا اجازت یونیورسٹی کیمپس میں گھس کر لڑکوں اور لڑکیوں کو زدوکوب کرنے، ان پر بے رحمی سے لاٹھیاں برسانے اور دار المطالعہ میں آنسو گیس چھوڑنے کے خلاف شروع ہوئے تھے مگر بہت جلد یہ ایک احتجاج کی شکل اختیار کر گئے۔ شہریت ترمیمی قانون اور قومی شہری رجسٹر کے خلاف جاری تحریک کایہ باضابہ حصہ بن گیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں جہاں بزرگ خواتین ہیں وہیں ایسی مائیں بھی ہیں جواپنے بچوں کو بھی دھرنے میں ساتھ لے کر آتی ہیں۔ بعض بچے تو ایک ماہ سے بھی کم عمر کے ہیں۔ برٹش سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھارت کا یہ سب سے زیادہ دنوں یک چلنے والا ایک منظم احتجاج ہے جسے دنیا بھر کا میڈیا اپنے ٹی وی چینل پردکھارہے ہیں۔سی این این کاکہناہے کہ بحر النسا نام کی خاتون نے یہ کہتے ہوئے احتجاج میں شرکت کرنے کے لئے اپنی نوکری چھوڑ دی کہ مودی سرکارنے ہمارے بچوں کی آواز دبانے کی کوشش کی لہذا ہم مائوں نے احتجاجی پرچم اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا ہے۔ دیکھاجائے تویہ کہنادرست ہوگاکہ دہلی کا شاہین باغ ان مظاہروں کا گڑھ بن چکا ہے جہاں ہزاروں خواتین پچھلے ایک ماہ سے دن رات دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔اس احتجاج میں ایک ہی خاندان کی تین نسلیں بھی شریک ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے احتجاج شروع کیا تو دہلی پولیس نے جواباً ان پر وحشیانہ تشدد کیا۔ پولیس کی اس بربریت کے خلاف شاہین باغ کی خواتین نے احتجاج کا آغاز کیا۔یہ دراصل ایک احتجاجی مارچ اور سول نافرمانی ہے ۔یہ احتجاج نویدسناتاہے کہ مودی ہٹلر بہت جلد اپنے انجام کو پہنچے گا،اب اقتدار پر بیٹھے اس بھیڑیے کے مزید ظلم وبربریت کو مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا۔احتجاج کو روکنے اور سڑک کھلوانے کے لیے دہلی عدالت میں دو پٹیشن داخل کی جا چکی ہیں لیکن دہلی ہائی کورٹ نے اپیل سننے سے انکار کر دیا۔ 14 جنوری 2020ء کو عدالت نے کہا کہ یہ پولیس کا معاملہ ہے۔ دہلی عدالت کی اس رولنگ کے بعددہلی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ مظاہرین کو سڑک کھلوانے پر راضی کرلے گی مگر کسی بھی طرح کی طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ یہ احتجاج دہلی پولیس کے تشدد اور کیجروال حکومت کی بے حسی کے خلاف بھی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ ٹریفک کے نظام کو بہتر کرنے میں مدد کریں گے مگر احتجاج ختم نہیں ہوگا تا آنکہ مودی حکومت اپنا فیصلہ واپس لے اور ان کے مطالبات کو تسلیم کرلے۔ مگرمودی حکومت اپنے موقف پر بضد ہے اور ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر راضی نہیں۔ وہیں مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ بھی ایک ملی میٹر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ شاہین باغ کا حتجاج بے انتہا مقبول ہوا اور اسی کے طرز پر اب بھارت بھر میں احتجاج کا سلسلہ ترتیب پارہاہے اور الہ آباد، گیا، ناگپور، کولکاتا،پارک سرکس، حیدراباداور لکھن۔شاہین باغ مکمل طور پر بینرز، پوسٹرز اور نقش و نگار سے مزین کیاگیاہے اور ایک کھلا مطالعہ گاہ بنایا گیا ہے جس میں ہزاروں لوگوں نے کتابیں اور دیگر اسٹیشنری کی اشیا بطور تحفہ دی ہیں۔اپنی مائوں کے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے والے بچے مائک پر ’’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘ گاتے رہتے ہیں۔شاہین باغ کی مسلم خواتین کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں سے لوگ آتے رہتے ہیں اور احتجاج میں شامل ہوتے ہیں۔ یہاں اردو شاعری گنگنائی جاتی ہے۔ تقاریرہوتی ہیں۔ حضرت علامہ سرمحمد اقبال، فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی نظمین پڑھی جاتی ہیں۔20جنوری 2020ء کو ایک صحافی سنجیو گویل کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں دکھایا گیا تھا احتجاجیوںمیں رقوم تقسیم کئے جا رہے ہیں۔کئی ڈاکٹرصاحبان نے مفت علاج کے لئے طبی کیمپ کھول دیا ہے۔جبکہ بھارتی پنجاب کے کسانوں نے وہاں مفت لنگر کا انتطام کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ مودی حکومت شاہین باغ میں خواتین کے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے متعدد حربے آزما چکی ہے۔ میڈیا کوٹاسک سونپا گیا ہے کہ وہ شاہین باغ احتجاج کے خلاف منفی پروپیگنڈاکی زوردارمہم چلائے۔اس مہم میں اس احتجاج کو پہلے اسے مسلمانوں کا احتجاجی مظاہرہ کہا گیا لیکن جب وہاں بڑی تعداد میں غیرمسلم خواتین شریک ہونے لگیں تویہ حربہ ناکام ہوگیا۔اب اس احتجاج میں شامل بچوں کوان کے مستقبل کی خرابی پرخوب ڈول پیٹاجارہاہے اور’’زی ٹی وی‘‘جومودی کاترجمان بناہواہے شاہین باغ کے بچوں کاحوصلہ توڑنے اورانہیں زچ کرنے کے لئے بھارت بھرسے ان بچوں کو دکھارہاہے جنہوں نے مختلف مواقع پرمختلف شعبوں میں اپنی کارکردگی اورذہنی صلاحیت کے باعث گولڈمیڈل جیتے ہوئے ہیں۔دوسری طرف دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل نے چندیوم قبل شاہین باغ کی نمائندہ خواتین سے اپنے دفتر میںملاقات کی اور ان سے احتجاج ختم کرنے کی اپیل کی لیکن ان خواتین کا کہنا ہے کہ وہ متنازع شہریت قانون واپس لیے جانے تک یہاں سے اٹھنے والی نہیں ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ کی خواتین کا مظاہرہ ہر گذرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتاجارہا ہے۔ واضح رہے کہ آج بھارت کا چپہ چپہ اورچھوٹا بڑا ہر شہر سراپا احتجاج ہے،دن بدن اس میں شدت آرہی ہے،اور ہردن پہلے سے قوت کے ساتھ آواز بلند ہورہی ہے،اس بے چینی کی وجہ عام زندگی کسی نہ کسی درجے میں مفلوج ہوکررہ گئی ہے،مظاہرین اوراحتجاجیوں کا جوش وجذبہ دیکھ کرایک احساس پیداہوتاہے کہ جن مقاصدکے حصول کے لئے یہ مظاہرے اوریہ احتجاج ہورہے ہیں وہ حاصل ہونے کے بہت قریب ہیںاور کیوں نہ ہو کہ اس میں بچے، بوڑھے،مرد عورت،تعلیم یافتہ جاہل سب یکساں شریک ہیں اور برطانیہ سے ہندوستان کی آزادی کے بعد یہ پہلاموقع ہے جب بھارت کی عوام اتنی بڑی تعداد میں بھی اپنے گھروں کے بجائے سڑکوں پرہیں۔آخرکیاوجہ ہے کہ اتنی سخت اور شدید سردی میں بھی لوگ اپنے گھروں کے بجائے سڑکوں اور چوک چوراہوں پرنعرہ زن کھڑے ہیں۔