عصر حاضر کی اسلامی تحریکیں آج انہی حالات سے دوچار ہیںجوسیدناامام حسینؓ کے کارروان حق کے ساتھ پیش آئے۔فلسطین کی حماس اورتحریک آزادی کشمیرسے لوگ ہمدردیاں توڑکرکو انہیں بے رحم دشمن کے چھوڑ رہے ہیںلیکن کے باجوددنیا بھرکی اسلامی تحریکوں سے وابستگان حق بے پرواہ ہوکر اپنا کام کئے جا رہے ہیں، ان کے موقف کی روشنی کی کرنوںکا راستہ نہ کوئی چٹان روک سکتی ہے اور نہ ہی کوئی آہنی فصیل۔وہ شہیدہوجاتے ہیں یا کامیاب غازی بن کرمیدان جہاد سے لوٹ آتے ہیں ۔ ظلم کے تازیانوں، جیل کی دیواروں،بموں کی سماعت شکن آوازوں اور گولیوں کی بوچھاڑوں کے ذریعے انہیں روکا جا سکا ہے نہ کوئی روک سکتا ہے۔ طاغوت اوراس کے پرستاروں کا مقدر کل بھی شکست تھی اور آج بھی شکست ہی اس کا مقدر ہے۔ ارض فلسطین کے کوچے، سرینگر کی گلیاں، اسرائیل کے ٹینک ،سری نگرکا،کارگوانٹرواگیشن سینٹر،بھارت کے عقوبت خانے ،سنگھ پریوار کے ترشول ،اسد رجیم کے موت کے چیمبر، مصراوربنگلہ دیش کے موت کی سزاسنانے والے خصوصی ٹربونل ،میانمارکے بودہسٹوں کے ٹوکے اورچھریاں، اس امر پر شاہد و عادل ہیں کہ سچ کے پرستاروں کو ہر دور میں ابتلا ء اور کرب و بلا کی آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے لیکن حق کے پرستار بدستورنعرہ زن رہے ۔بلاشبہ شہادت حسین ؓنے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔ آپ کی، آپ کے خاندان اور آپ کے اعوان و انصار کی قربانی نے لغت کو نئے الفاظ، نئے معانی، نئے مطالب اور نئے مفاہیم سے روشناس کروایا۔ لفظ حق دنیا کے ایوانوں میں ہزاروں سال سے گونج رہا ہے لیکن کربلا کے ریگزاروں میں جگر گوشہ بتول جو داستان رقم کی اس کے بعدحق اور حسین ؓلازم و ملزوم ہو گئے ۔کربلا کے میدان میں بہتا ہوا حسین کی بے مثال قربانی والی نسلوں، قافلوں، زمانوں اور صدیوں کو یہی پیغام دے رہی ہیں کہ بارگاہ حق میں سر کا نذرانہ پیش کرناگوارا ہے لیکن باطل کی بیعت ہم سے ممکن نہیں۔حسینی قافلے کی لازوال قربانیوں نے جریدہ عالم پر حق و صداقت کی وہ مہر دوام ثبت کی ہے کہ باطل پرست کوشش کے باوجود تاقیامت اس کے آثار ومظاہر مدہم نہ کر سکیں گے ۔یہ شہادت حسین کا اعجاز ہے کہ آج بھی مسلمان نوجوان استبداد، استحصال اور استعمارکے بتوں کو پاش پاش کرنے کیلئے نہ صرف بے چین و مضطرب ہے بلکہ ان بت کدوں کو گرانے اور ڈھانے کے لئے مصروف جہاد بھی ہے۔حسینیت کا اصل پیغام یہی ہے کہ جہاں کہیں بھی ظلم وجورکی بساط بچھانے کی سعی ہورہی ہو، وہ یزید یت ہے، جو اس کا دست و بازو بنتا ہے، وہ ابن زیاد اور شمر ہے اور وہ شہر جس کے باسی اس پر خاموش تماشائی کا کردارادا کرتے ہیں، کوفہ ہے۔ ہرسال10محرم الحرام ہمیں دعوت فکر دیتاہے کہ سیدنا حسین کی عظیم قربانی سے ہم اپنے فکر و عمل کا جائزہ لیں، کہ اس میں کتنا تضاد پایا جاتاہے، ہم حسینیت سے محبت کے دعوے تو کرتے ہیں، بی بی زینب ؓکے دوپٹے کا تو ذکر کرتے ہیں لیکن چاردانگ عالم ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی چادرحیا،ردائے عفت وعصمت نوچی جارہی ہے مگرہم سے یہ سب برداشت بھی ہو رہا ہے۔کیا ہمارے لہو میں وہ حرارت پیدا ہوتی ہے جو درس کربلا کا تقاضا اولین ہے۔کیا ہمارے اندر وہ روح انگڑائی لیتی ہے جو حق گوئی اور بے باکی کے جواہر اورعبقری شان پیدا کر رہی ہو۔ کیا ہمارے جذبہ واحساس میں قربانی اور جنون پیدا ہوتا ہے کہ جو مسلمان کی معراج ہے۔کیا ہماری سیرت و کردار کے تیور بدلے ہیں کیا ہماری زندگی معمولات کے چنگل سے نکل کر کسی ایسے انقلاب سے ہمکنار ہوتی ہے کہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارے لازوال محبت اور بے کراں عقیدت کا مظہر ہوبلا شبہ من حیث ملت ہم جن رفعتوں اور عظمتوں سے محروم ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ہمارا ظاہری پیکر اسلام ہے لیکن اس عظیم دین کی حقیقی اور لا فانی تعلیم و تربیت سے ہمارا سینہ خالی ہے۔جس کی وجہ سے ہماری کشت با طن ویران پڑی ہے۔ حسین ؓکے نعرہ تکبیر سے ہمارا ایمان تازہ ہونا چاہیے تھا لیکن کیا وجہ ہے کہ ایسا نہیں ہو پا رہا۔سیدنا حسینؓ نے اپنے اس عزم جو پہاڑ کی طرح مضبوط و سر بلند تھا مستحکم ، پائیدار اور آمادہ عمل تھا نے امت مسلمہ کیلئے خاک کربلا پر اپنے لہو سے ’’سطر عنوان نجات‘‘لکھ دی۔مختلف زمانوں، مواقع اور مراحل پر اسلام تاریخ کے نازک ترین موڑ پر پہنچا ۔ اس دوران ہمیشہ فرزندانِ اسلام نے جان کی بازی لگا کر اپنی جان و مال کی قربانیاں دے کر اور اپنا سب کچھ نچھاورکر کے اسلام کی روح ، اس کی عظمت اور اس کی صداقت کا تحفظ کیا۔چودہ صدیاں گزر چکیں لیکن آج بھی کربل کے ریگزار کا ایک ایک ذرہ اہل عالم کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ دنیا میں ہر چیز کا مقدر فنا ہے، مرگ ہے، زوال ہے، نیستی ہے، اجل ہے ، نابود ہو جانا، مرجانا، مٹ جانا اور بکھر جانا ہے۔سانسیں چلتی ہیں اور رک جاتی ہیں، نبضیں پھڑکتی ہیں اور ڈوب جاتی ہیں،دل دھڑکتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں، سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہو جاتاہے، چاندنمودار ہوتا ہے اورچھپ جاتا ہے، ستارے ٹلملاتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں،بہار آتی ہے اور چلی جاتی ہے ،سبزہ سر اٹھاتا ہے اور پامال ہو جاتا ہے،کلیاں کھلتی ہیں اور کملا جاتی ہیں، کونپلیں پھوٹتی ہیں اور ورق ورق ہو جاتی ہیں، شگوفے مسکراتے ہیں اور سنولا جاتے ہیں، غنچے چٹکتے ہیں اور مرجھا جاتے ہیں،پھول کھلتے ہیں اور زرد ہو جاتے ہیں، شعلے بھڑکتے ہیں اور سرد ہو جاتے ہیں،، آندھیاں دندناتی ہیں اور تھم جاتی ہیں،بجلیاں کڑکتی ہیں اور خاموش ہو جاتی ہیں، لہریں اچھلتی ہیں اور روپوش ہو جاتی ہیں، شہیدِ حق کی شہ رگ سے ٹپکنے والا خون کا سرخ سرخ قطرہ خون کا یہ عنابی قطرہ فنانا آشنا اور لہو کی یہ گلابی بوند اجل نا شناس ہے۔