اس وقت جب کالم لکھ رہا ہوں ڈالر انٹر بینک میں 268.5اور اوپن مارکیٹ میں 280تک پہنچ چکا ہے‘سونے کی قیمت دو لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور پیٹرول بھی اڑھائی سو روپے لیٹر فروخت ہورہا ہے، گیس تین سو روپے کلو ہو چکی اور گاڑیوں کی قیمت میںایک ہفتے میں دو دفعہ اضافہ ہوا یعنی فی گاڑی پانچ سے چھے لاکھ روپے تک مہنگی ہوچکی۔اشیائے خورد ونوش میں اضافہ بھی ہوش ربا اضافہ دیکھا جا رہا ہے‘دالیں ‘سبزیاں اور فروٹ کے ریٹس چکن اور بیف سے بھی زیادہ ہو گئے‘ادویات کی قیمتیں بھی آسمانوں کو چھونے لگیں‘لوگ پونسٹان اور ڈسپرین کی گولی تک نہیں خرید پا رہے‘پانی ‘گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی کہانی بھی ناقابلِ بیان ہے‘یہ سب اس وزیر خزانہ(عدالتی مفرور) کی ’برکت ‘سے ہوا جسے لندن سے پاکستان ایئر فورس کے جہاز میں پورے پروٹول کے ساتھ پاکستان ’درآمد‘ کیا گیا تھا تاکہ معیشت کا پہیہ جام ہونے سے بچایا جا سکے۔ایک ایسا مفرور مجرم جس نے ساڑھے تین سال قومی اسمبلی سے باہر گزارے‘اُسے این آر او ٹو کے تحت سرکاری پروٹوکول کے ساتھ وطن واپس لایا گیا‘راتوں رات حلف برداری ہوئی اور ساتھ ہی وزارت خزانہ کا قلم دان سونپ دیا گیا اور اِس سے بھی بڑا ظلم یہ ہوا کہ اِسی وزیر خزانہ نے آتے ہی قومی خزانے سے اپنے ساڑھے تین سال (جو مفرور رہا) کی تنخواہ 77کروڑ روپے ایشو کروائی‘ اپنے منجمد اثاثوں کو بحال کرایا‘اپنی پراپرٹی ریکور کروائی ‘اپنی اولاد اور بیوی کی جائیدادیں واپس لیں اور آج تین مہینے بعد یہی وزیر خزانہ کہتا ہے کہ ’’پاکستان کی معاشی ترقی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے‘‘یعنی دوسرے لفظوں میں اب یہ ملک حوالے رب دے ۔ میرا بطور محب وطن‘ رجیم چینج کے سہولت کاروں سے ایک عاجزانہ سوال ہے کہ ’’موجودہ تباہی اور بربادی کے بعد شکریہ کس کا ادا کرنا ہے،مجھے بس اتنا بتا دیجیے کہ شکریہ عدلیہ کا ادا کرنا ہے یا سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کا؟‘‘۔یہ انتہائی عاجزانہ سوال ہے اور اگر جان کی امان پائوں تو یہ بھی پوچھ سکتا ہوں کہ جنابِ عالی! اس قوم نے ایسے کون سے گناہ کیے تھے جس کی اتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی‘چالیس سال سے ملک پر مسلط مافیا سے آزادی کی خواہش بھی گناہِ عظیم تھا جس کی سزا رجیم چینج کی صورت میں دی گئی؟کسی بھی سیاسی پارٹی یا جاگیرداری نظام سے چھٹکارے کی سزا کم از کم اتنی بڑی نہیں ہو سکتی جو پاکستانی قوم کو دی گئی۔یہی وجہ ہے کہ مجھے اسحاق ڈار کی گزشتہ تقریر سن کر اپنے معتبر اداروں سے پوچھنا پڑ رہا ہے کہ اِس موقع پر ایک محب وطن کو شکریہ کس کا ادا کرنا چاہیے؟ ممکن ہے کہ میں عدلیہ کا شکریہ ادا کروں تو اسٹیبلشمنٹ ناراض ہو جائے اور یہ بھی ڈر ہے کہ اسٹبلشمنٹ کا شکریہ اداکروں تو عدلیہ یا سیاست دان ناراض ہو جائیں۔میں آج کالم لکھنے کے موڈ میں نہیں تھا مگر ڈار اور ڈالر کی صورت حال دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ بطور پاکستانی شکریہ تو بنتا ہے سو اس کالم کے توسط سے پوچھنا پڑا‘امید ہے کہ میری اس گستاخی کو نظر انداز کرتے ہوئے سوال کا جواب ضرور دیں گے۔فواد چودھری کی گرفتاری کا مقصد ڈالر اور ڈار سے توجہ ہٹانا تھا جو کسی حد تک کامیاب بھی ہوا مگر کیا ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے نفرت کو محبت میں بدلا جا سکتا ہے؟ 75 سال ہمیں ایک ہی سبق پڑھایا گیا کہ ’غداری کی سزا موت ہے‘مگر مجھے انتہائی دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری پچھہتر سالہ تاریخ میں غدار کو تو سزا ملی یا نہیں مگر عوام کو یہ سزا مسلسل مل رہی ہے‘ کبھی پارٹیوں سے وفاداری کی بنیاد پر توکبھی سہولت کاروں سے تعلق کی بنیاد پر،پھانسی پر عوام کو ہی لٹکایا جاتا رہا ‘دوسرے لفظوں میں ’غدار ہمیشہ عوام ہی نکلے‘۔ پاکستان کی موجودہ حالت جو بتائی نہیں جا رہی‘ناگفتہ بہ ہے‘ہمارے ریزرو ختم ہونے کے قریب‘ہمارے پاس گیس اور تیل تک خریدنے پیسے نہیں‘سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینا بھی محال ہوچکا‘مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی مگر حکومت مریم نواز کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہے‘وزیر داخلہ لندن میں اپنے’محب وطن‘قائد سے مشاورت میں مصروف ہیں‘پی ڈی ایم کی تیرہ پارٹیاں’ عمران فوبیا کا شکار ،تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے میں مصروف ہے‘الیکشن کمیشن آف پاکستان اس لیے برہم ہے کہ فواد چودھری نے ان کی بے عزتی کی حالانکہ چیئرمین الیکشن کمیشن نے گزشتہ تین ماہ میں جو کچھ کیا‘اس پر درجنوں کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ ایک طرف نونیوں اور جنونیوں کا اتحاد ٹوٹنے کے قریب اور دوسری طرف چودھری برادران بھی ڈبل گیم میں مصروف‘ ایسی گھمبیر صورت حال میں عوام کہاں جائیں اور کس سے سوال پوچھیں؟رجیم چینج کے بعد سوال پوچھنا بھی جان دینے کے مترادف ہو چکا کیوں کہ سوال پوچھنے والے غدار کہلائے جا رہے ہیں اور خاموشی سے ملک لوٹنے والے محب وطن،میرے ملک کا کیسادستور ہے کہ’اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یادکیا‘۔ ڈار اور ڈالر کی اڑان پر سوالیہ نشان بہرحال موجود ہے‘آپ فواد چودھری کو گرفتار کریں یا فرخ حبیب اور شہریار آفریدی پر ایف آئی آر کاٹیں،آپ عمران خان کو گرفتاری کی دھمکیاں دیں یا عمران کے مداحین پر زندگی تنگ کر دیں‘ سوال پوچھنے والے سوال پوچھتے رہیں گے‘تنقید کرنے والے تنقید کرتے رہیں گے‘آپ نے اس ملک کے ساتھ جو کیا‘اس کی سزا اس قوم کو مل رہی ہے‘آپ اور آپ کے سہولت کارتو اس ملک کو خدا کے حوالے کر رہے ہیںمگر یہ قوم آپ سے سوال کر رہی ہے کہ جناب عالی! ہمیں صرف اتنا بتا دیجیے کہ ہمیں اتنی کڑی سزاکس جرم کی پاداش میں دی گئی؟یہ ایسا تلخ سوال ہے جس کا جواب نہ میری معزز عدلیہ کے پاس ہے اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ اور سیاست دانوں کے پاس‘اکاڑہ کے دبنگ شاعر مسعود احمد نے کیا خوب کہا ہے: زندگی کی جنگ ہارے لوگ ہیں ڈار اور ڈالر کے مارے لوگ ہیں