’’آج کرسمس ہے۔ شہر میونخ میں آج کرسمس ہے: فاصلوں کی کمند سے آزاد میرا دل ہے کہ شہر میونخ ہے چار سو جس طرف کوئی دیکھے برف گرتی ہے ساز بجتے ہیں آج کرسمس ہے۔ شہر لاہور میں آج کرسمس ہے۔ اگرچہ برف نہیں گرتی لیکن یہ موسم برفیلے ہیں۔ ہوا میں ایک سرد سرگوشی ہے کہ میرے اندر اتنی ٹھنڈک ہے کہ میں نمی کی بوندوں کو برف کے گالوں میں بدل سکتی ہوں۔ لیکن شہر لاہور کو برف کی اور اوڑھنے کی عادت نہیں ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ شالیمار باغ کی روشوں‘تالابوں فواروں اور سرو کے شجروں پر برف گر رہی ہو تو یہ منظر گویا کشمیر ہو جائے کہ جھیل ڈل کے کناروں پر جو تختہ بہ تختہ شالیمار پانیوں تک آتا ہے اور جسے میں بچپن میں دیکھ چکا ہوں وہاں تو موسم سرما میں وہ شالیمار باغ برف میں برف ہو جاتا ہے۔ لاہور کی مال روڈ برفباری میں کیسی لگے اور لاہور کی نہر اگر برف سے ڈھک جائے تو یہ منظر کیسے ہوں گے۔ چلئے صرف مسجد وزیر خان کو برف رتوں میں تصور کر لیجیے۔ اس کے مدھر گنبدوں پر سے پھسلتی برف مینار، سفید ہوتے جاتے ہیں اور اس کی نقاشی اور خطاطی کے رنگ برف کی ٹھنڈک سے نکھرتے جاتے ہیں۔چلئے اگر کرسمس پر لاہور میں برف نہیں گرتی تو ہم وقت کی غار میں اُلٹا سفر کر کے اجنبی دیسوں کی بیت چکی برفباری کے موسموں سے لطف اندوز ہو لیتے ہیں۔ کم از کم یورپ میں تو کرسمس کا تصور برفباری کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ سانتا کلاز یا فادر کرسمس بھی سرخ رنگ کے بھاری اونی لبادے میں ملفوف ہوتا ہے اور اس کی جادوئی رتھ کھینچنے والے رینڈیئر بھی برفانی ہرن ہوتے ہیں۔ چلئے اپنی پہلی برفباری کی کتھا پھر سے بیان کرتے ہیں۔ شہر لاہور نہیں ‘ شہر نوٹنگھم ہے‘ رابن ہڈ کا شہر جہاں کسی زمانے میں شیروڈ فارسٹ ہوا کرتا تھا جس کے گھنے پن میں رابن ہڈ روپوش ہو جاتا تھا۔ نوٹنگھم ٹیکنیکل کالج میں کرسمس کی چھٹیاں ہو چکی تھیں۔ مقامی طالب علم تو اپنے گھروں کو سدھار چکے تھے اور ہم جو غیر ملکی تھے۔ انگلستان میں اجنبی تھے‘ ڈرائیڈن ہوسٹل کے لائونج میں سوگوار بیٹھے تھے کہ ہم کہاں جائیں اور یہ کرسمس کی شام تھی یعنی 24دسمبر کی شام۔ سردی کی شدت زوروں پر تھی اور ہم قدرے ٹھٹھر رہے تھے۔ نہ صرف مجھے بلکہ افریقی ‘ ہندوستانی اور ویسٹ انڈیز کے طالب علموں کو ابھی انگلستان کے ظالم موسموں کی عادت نہ ہوئی تھی۔ اس دوران ہم میں سے ایک لڑکا شاید وہ پٹیل تھا‘ اٹھا اور کہنے لگا میں ذرا تازہ ہوا میں سانس لینے کے لئے ہوسٹل سے باہر جا رہا ہوں۔ چند لمحوں کے بعد وہ ایک حواس باختہ شخص کی مانند شور مچاتا واپس آیا۔ باہر برف گر رہی ہے۔ ہر جانب برف گر رہی ہے تو ہم سب بھی کچھ دیوانے سے ہو گئے اور لپک لپک کر ہوسٹل سے باہر نکل گئے۔ چار سو جس طرف ہم دیکھتے تھے برف گرتی تھی۔ ایک مٹیالی شام میں سے برف کے گالے بہت ہولے ہولے گرتے تھے جیسے روئی کے گالے ہوں اور چار سو سفیدی ہی سفیدی تھی۔ ہمارے سانس بھی سفید دھواں ہوتے تھے۔ ہم منہ اٹھا کر اوپر دیکھتے تو برف کے گالے ہماری آنکھوں اور ہونٹوں پر اپنے سرد لب اتار دیتے۔ سفید بوسے جو ہمارے رخساروں کو نم کرتے تھے۔ ہمارے بالوں کو سفید کرتے تھے۔ یہ میری پہلی برفباری تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ جو کچھ بھی آپ کے ساتھ پہلی بار ہوتا ہے وہ آپ کو ایک سنسنی خیز ہیجان سے آشنا کرتا ہے۔ آپ کی آنکھیں خمار سے بند ہوتی ہیں اور بدن بخار سا ہونے لگتا ہے۔ وہ پہلی محبت ہو یا پہلا بوسہ یا پہلی برفباری۔ شاید یہ وہی شب تھی جب میں اپنا ڈفل کوٹ اوڑھ کر پیدل چلتا۔ اک عجب سفید لطف میں مبتلا رابن ہڈ کے شیروڈ جنگل میں چلا گیا۔ اب یہ جنگل کہاں ہونا تھا۔ ایک پارک تھا جہاں چند ایک درختوں کو شیروڈ فارسٹ کا نام دیا جاتا تھا۔ وہاں عجب سفید تنہائی تھی جو برف کے ساتھ گرتی چلی جاتی تھی۔ برف بے آواز گرتی تھی لیکن کبھی کبھار جب کسی ٹہنی پر برف کا بوجھ بڑھ جاتا تو ٹہنی دوہری ہو جاتی اور ایک مدھم سی سرسراہٹ سنائی دیتی جو برف کے گرنے سے جنم لیتی۔ چار سو جس طرف کوئی دیکھے۔ برف گرتی ہے سازبجتے ہیں۔ اور ایک ایسی سرد تنہائی جو صرف برف گرنے سے ہی وجود میں آتی ہے۔ ازاں بعد اس سفر حیات میں بے انت برف باریوں کے، جو بھول گئے، موسم کرتے لیکن نوٹنگھم کے شیروڈ فارسٹ کی پہلی برفباری کی وہ کوری اور سفید چپ تنہائی اب تک نہیں بھولی۔ جیسے پہلی محبت اور پہلا لمس۔ ہمارے لئے یہ امر حیرت کا باعث تھا کہ یورپ میں کرسمس کے دن ہر جانب ویرانی اور خاموشی ہوتی ہے جیسے کرفیو نافذ ہو گیا ہو۔ پورا گائوں یا شہر مکمل طور پر سنسان‘ یہاں تک کہ کوئی اجنبی آ جائے تو بھوکا مر جائے کہ کوئی ریستوران یا قہوہ خانہ بھی کھلا نہیں ہوتا۔ کرسمس کا جتنا شور شرابا ہوتا ہے اور شرابا کا مطلب ہے بہت ساری شراب تو وہ کرسمس ایونٹ یعنی 24دسمبر کی شب کو ہوتا ہے اور پھر چُپ چاں۔ البتہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں کچھ موج میلہ کر لیتے ہیں۔ کالج میں کرسمس کی چھٹیوں کا اعلان کرتے ہوئے پرنسپل صاحب نے نہایت کھلے دل سے کہا تھا کہ کرسمس کے دن میرے گھر کے دروازے بے گھر غیر ملکی طالب علموں کے لئے کھلے ہوں گے۔ اگر آپ اداس ہو جائیں تو میں آپ کو خوش آمدید کہوں گا۔ پرنسپل صاحب نے تو شاید رواداری میں ہمیں مدعو کیا تھا لیکن ہم نے اس دعوت کو سنجیدگی سے لیا اور کرسمس کے روز اور ابھی برفباری جاری تھی کہ کشاں کشاں، اپنے دھنسے پائوں برف میں سے کھینچتے ان کے گھر پہنچ گئے۔ پرنسپل صاحب نے دروازہ کھولا تو ہمارے غول کو دیکھ کر پہلے تو ذرا گھبرا گئے اور پھر فوری طور پر سنبھل گئے اور ہمیں میری کرسمس کی خواہش کرتے پشت پر تھپکیاں دیتے اپنے سجے ہوئے لائونج میں لے گئے اور ہمیں خوب کھلایا پلایا۔ اگرچہ ہم صرف کھانے والے تھے ‘ فی الحال پینے والے نہ تھے۔ کھانے کے بعد پرنسپل صاحب کی خوبرو بیٹی پیانو پر بیٹھ کر کرسمس کے گیت گانے لگی۔ آئی ایم ڈریمنگ آف اے وائٹ کرسمس۔ تب ہم پر اپنے گھروں سے دوری کی اداسی اتری اور ہم سب چپ سے ہو گئے اور باہر برف گرتی گئی۔ نصف شب کی قربت میں جب ہم ہوسٹل واپس آ رہے تھے تو یکدم برفباری تھم گئی۔ ہر سو سناٹا چھا گیا۔ ایک چپ طاری ہو گئی جس میں صرف ہمارے برف میں دھنسے قدموں کی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی۔ پہلی برفباری پہلا پیار اور پہلی کرسمس۔ ازاں بعد کبھی لندن میں کبھی سائوتھ اینڈ آف سی یا مانچسٹر میں کرسمس کے موسم آئے اور ان کے سرد لطف بھی بدن میں اترے لیکن۔ وہی پہلی برفباری ‘ پہلا پیار اور پہلی کرسمس! آج کرسمس ہے’’برف نہ سہی پورے شہر کو سفید دھند نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس دھند میں لاہور کے کلیسائوں کی گھنٹیاں مترنم ہوئی جاتی ہیں اور وہی گیت کہ۔ میں ایک سفید کرسمس کا خواب دیکھ رہا ہوں۔ یہاں لاہور میں بھی تو گایا جا سکتا ہے کہ سفید کرسمس سے صرف برفیلی کرسمس تو نہیں سفید دھند کی کرسمس بھی تو ہو سکتی ہے۔ اپنی پہلی برفباری اور پہلی کرسمس کی پرانی یادوں کو تازہ کرنا تو محض ایک بہانہ تھا اپنے عیسائی ہم وطنوں اور دوستوں کو ہیپی کرسمس کی خواہش کرنے کا۔ اور میں یاد کرتا ہوں لکشمی مینشن کے ان مسیحی دوستوں کو جو کرسمس کے موقع پر مجھے کشمش سے گندھا ہوا خصوصی کرسمس کیک بھیجا کرتے تھے۔ آپ سب کو یہ بڑا دن مبارک ہو اور بڑی خوشیاں آپ کے نصیب میں ہوں۔ فاصلوں کی کمند سے آزاد میرا دل ہے کہ شہر میونخ ہے چار سُو‘ جس طرف کوئی دیکھے برف گرتی ہے‘ ساز بجتے ہیں (مجید امجد)