بھارت کی مودی سرکارنے شہریت ترمیمی بل کو ایوان زیریں ’’لوک سبھا‘‘ میں منظورکرلیااور چنددنوں کی بات ہے کہ اسے اب ایوان بالا’’ راجیہ سبھا‘‘میں بھی علاقائی جماعتوں کے تعاون سے اسے فورا پاس کرا لیا جائے گا۔اس قانون کے تحت بھارت کے پڑوس کے مسلم ممالک پاکستان ،بنگلہ دیش اورافغانستان میں بسنے والے غیر مسلموں کو ہندوستانی شہریت دینے کی گنجائش نکالی گئی ہے۔اس کی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ متذکرہ مسلم ممالک میں غیرمسلموں پر ظلم ہوتا ہے۔بل پیش اورپاس کرتے ہوئے البتہ مودی سرکاری یہ بات پس پشت ڈال گئی ہے کہ جتنے مظالم ہندوستان کے اندر مسلم اقلیت پر ہوتے ہیں کسی دوسرے غیرمسلم ملک میں نہیںہوتے اور مسلمانوں کے ساتھ لنچنگ کا اعتراف خودمودی نے بھی کردیا ہے ۔ یہ عجیب دوہرا معیار ہے کہ ہندوستان کے اندر اقلیتوں پر مظالم کی جب بات ہوتی ہے توحکومت اس کو داخلی معاملہ کہہ کر رفع دفع کردیتی ہے لیکن دوسرے ممالک کا یہی مسئلہ عالمی بن جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی شہریت ترمیمی بل کے کشمیرپرکیسے مہلک اورہلاکت خیز اثرات مرتب ہونگے جبکہ 5اگست 2019ء کواٹھائے جانے والے بھارتی اقدام کے بعد کشمیرپراسرائیلی ماڈل لاگوکرنے کے بلیغ اشارے مل چکے ہیں اورNRC اورCAB یعنی نیشنل ر جسٹریشن آف سٹیزن شپ اور سٹیزین شپ امنڈمنٹ بل منظورکرنے سے ان اشاروں کے درست اورصحیح ہونے پرمہرتصدیق ثبت کردی گئی۔اس بل کوہمیں 5اگست کوکشمیرمیں اٹھائے جانے والے اقدام کے تناظرمیں دیکھ لیناچاہئے۔کشمیر پر لاگو بھارت کا ایکٹ 370 اور اسکی ضمنی شق 35Aکے تحت کشمیرکی دھرتی پرکوئی غیرریاستی باشندہ مستقل طورپررہائش اختیارکرسکتا تھا اورنہ ہی یہاں کوئی پراپرٹی خریدسکتاتھالیکن 5اگست کوجب بھارت نے اس ایکٹ کوختم کردیااورساتھ ہی یہ قانون بھی بنادیاکہ پڑوسی ممالک سے غیرمسلم ،ہندو،سکھ ،پارسی وغیرہ بھارت آکربھارت کے مستقل باشندے بن سکتے ہیں توچھوت چھات کی لعنت میں گرفتاربھارت کی تمام ریاستیں انہیں اپنی سرزمین پربسیراکہاں کرنے دیں گی اس لئے عذرلنگ تراش کرانہیں ارض کشمیرجہاں کٹھ پتلی ریاستی نظام ختم کردیاگیااورجب انتظامی طورپرکوئی روکنے ٹوکنے والاکوئی موجودہی نہ ہوتوپھرسرزمین کشمیرپرانہیں بسائے جانے میں کوئی دورائے نہیں۔جب صورتحال یہ ہوکہ سوفیصدمسلم اکثریتی علاقے وادی کشمیر میں سب سے بڑا،اسلامی مرکز’’جامع مسجدسری نگر‘‘سے چارماہ کے عرصے سے اذان پرپابندی عائدہواورمسلمانوں کو ہی اپنے عقائد کی ادائیگی کی اجازت نہ دی جارہی ہوتواس کاصاف مطلب یہ ہے کہ اس سرزمین کی اسلامی شناخت ختم کرنے کے ناپاک بھارتی منصوبے تکمیل کوپہنچ چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کواس طرح کی جرأت کیسے ہوئی کہ کشمیرکے سب سے بڑے مرکزکومسلمان کی عبادت کے لئے بندکردے شائداس لئے کہ وہ اسرائیل کی طرح سمجھ رہاہے کہ اس کے پڑوس میں جوحکمران طبقہ ہے وہ بزدل لوگوں پرمشتمل ہے ا وریہ کہ وہ ’’دیوارگریہ‘‘اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک عدداچھی تقریرکے سواعملی طورپرکچھ نہیں کرسکتے ورنہ سوال ہی پیدانہیں ہوتاکہ گائے اوربندرکے پجاری ہندو کی اتنی ہمت نہ ہوتی۔ یہ عجب تماشہ ہے کہ ایک طرف بھارت کی مودی حکومت پڑوس کے ممالک میں رہنے والے غیر مسلمین کو شہریت سے نواز رہی ہے اور دوسری طرف خود اپنے ملک کے ہندو بڑی تعداد میں اپنے ملک کی شہریت چھوڑ کر غیر ملکی بن رہی ہے۔ دنیا کے کچھ ممالک میں شہریت حاصل کرنا مشکل اور کہیں پر ناممکن ہے۔ یورپ وامریکہ میں شہریت مل تو جاتی ہے لیکن اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔بھارتی شہری ہنسی خوشی سے ساری صعوبتیں برداشت کرکے وہاں کی شہریت اختیار کرکے اپنی ہندوستانی شہریت چھوڑ دیتے ہیں ۔بھارت کی تعلیم گاہوں سے نکل کربھارتی طالب علموں کے ہاں یورپ اور امریکہ میں تعلیم حاصل کرنا ہمیشہ ہی باعثِ فخر سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہاں جانے والے شاذونادر ہی واپس آتے ہیں ۔ مشرق وسطی میں کسی کو شہریت نہیں دی جاتی لیکن مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق بھی نہیں ہوتی لیکن اگر وہ پابندی اٹھ جائے تو وہاں برسرِ روزگار لاکھوں ہندو باشندے برضا و رغبت اپنی ہندوستانی شہریت کو تیاگ کر ان مسلم ممالک کے شہری بن جائیں گے ۔پاکستان ،بنگلہ دیش اورافغانستان کی پرفضاسرزمین کوچھوڑکر کون غیرمسلم ایسے گندے بھارت میں چلاجائے گاکہ جہاں سانس لینابھی مشکل ہے۔ اس لیے مودی ،امیت شاہ اوراجیت ڈو ل یعنی (MSD) یہ شہریت کا لالی پاپ دکھا کر اپنے بھکتوں کے سوا کسی کو بہلا نہیں سکتے ۔اس پس منظرمیں دیکھاجائے تواس میں کوئی شک نہیںکہ یہ ایک ترغیبی منصوبہ ہے ۔ ادھربھارتی مسلمانوں کی بے بسی کی بھی کوئی انتہانہیں کہ پہلے جنہیں گائے ذبیحہ کی پاداش میںمقتل پہنچناپڑاپھرطلاق ثلاثہ کے نام پر انکی شریعت میں مداخلت کی گئی ،اس کے بعدانکی عظیم تاریخی مسجد’’بابری مسجد‘‘کورام مندربنادیاگیا اوراب انکے سماجی حقوق سلب کئے جارہے ہیں۔یہ محمودمدنی جیسے ملت فروشوں مسلم قیادت کے لئے تازیانہ عبرت ہے کہ جو مودی حکومت کے اشاروں پر ناچنے رہے اور ببانگ دہل کہتے رہے کہ انہیںاس بات پرفخرہے کہ انہوںنے نظام مصطفیٰ کومستردکرکے ہندوستان میں ہی رہنے کوترجیح دی ۔ آج جب بھارتی مسلمانوں کو اس ملک میں آبائی باشندے ثابت کرنے کے لئے خوفناک پریشانیوں کا سامنا ہے تواس میں کوئی شک نہیں کہ مفتی محمودمدنی کسی کونے کھدرے میںسرچھپائے بیٹھے ہونگے ۔ ہندوسمجھتاہے کہ بھارتی مسلمان صرف ظلم سہنے کے لئے اس ملک میں پیداہوئے ہیں۔لیکن اب وقت آچکاہے کہ وہ پوری دنیاکوبتادیں کہ ہندوکابھارتی مسلمانوں کے خلاف نظریہ بالکل غلط ہے اب بھارتی مسلمانوںکے لئے کوئی چارہ کارنہیں بچ سکاکہ وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ اب اگر وہ مزید ظلم پر خاموشی اختیار کریں توصفحہ ہستی سے ہی مٹ سکتے ہیں،مسلمان کاعقیدہ ہے کہ ظلم کا جواب دینا بھی ایمان ہے ۔وہ ان تمام حالات کا جائزہ لیں کہ کیوں انہیں اتناکمزورسمجھ کراس طرح کی ذلت آمیززندگی جینے پرمجبورکیاجارہاہے۔یہ بھی ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو انہیں جری اور صحیح نمائندگی اورقیادت نہ ملنے کی وجہ سے کمزور ہوکر رہنا پڑرہاہے۔بھارتی مسلمانوں کوبھارت کے ہندوراشٹر بنانے اور مسلمانوں کوپشت بہ دیوارلگانے پراب ان کے پاس اگر کوئی راستہ ہے تووہ راستہ اس مسلم کش قانون کی کھلے عام مخالفت کرنے اوراسے قبول نہ کرنے کاہے ۔