اینٹی کرپشن ساہیوال نے ضلعی انتظامیہ پاکپتن کے ساتھ مل کر بڑی کارروائی کرکے نواز شریف فیملی کی ملکیتی اتفاق شوگر ملز کے 1982ء سے زیر قبضہ 3 کروڑ 25 لاکھ روپے مالیت کی 36 کنال سرکاری اراضی واگزار کرالی۔ حالیہ کارروائی سے اس امر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سابق حکمران شریف خاندان کے عہد اقتدار میں معاملات کو کس نہج پر چلایا جا رہا تھا۔ گویا سرکاری اراضی کو لوٹ کا مال سمجھا گیا،جہاں چاہا قبضہ کر لیا اور مل کھڑی کر دی۔ آج بھی یہ خاندان رمضان شوگر ملز کے حوالے سے احتساب عدالت میں کیس کا سامنا کر رہا ہے جس میں ان پر آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کے علاوہ یہ الزام بھی ہے کہ چار سال قبل 36 کروڑ روپے سے مقامی آبادی کے نام پر تحصیل بھوانہ کے قریب سیوریج نالہ بنایا گیاجو دراصل شوگر ملز کے لئے بنوایا گیا تھا۔ لہٰذا صورتحال کا تقاضا ہے کہ ساہیوال میں اس خاندان نے 37 سال تک سرکاری اراضی پر جو قبضہ کر رکھا تھا اس کے غیر قانونی استعمال پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ سرکاری اراضی پرجو بھی گروہ قابض ہیں ان کے خلاف بھرپور، بے رحمانہ اور بلاامتیاز آپریشن کیا جائے ،اس اراضی کو واگزار کروا کر سرکاری استعمال میں دیا جائے اور ملزمان سے زیرقبضہ اراضی کی قیمت وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائے تاکہ آئندہ کسی کو سرکاری اراضی پر قبضہ کی جرأت نہ ہو سکے۔