آپ کا کیا خیال ہے پاکستان میں کثیف ترین جگہ کون سی ہے؟ ایک زمانے میں سنتے تھے کہ گوجرانوالہ ایشیا کا سب سے زیادہ گندا شہر ہے مگر آج معلومات کا جو خزانہ آپ کو حاصل ہونے لگا ہے، اس کے بعد گوجرانوالہ آپ کو پیرس لگے گا۔ کیا آپ خیبرپختونخوا کے کسی دور افتادہ گائوں یا پنجاب کی کسی کچی بستی کا سوچ رہے ہیں؟ کیا کثیف ترین مقام سے آپ کے ذہن میں اندرون سندھ کی کوئی گوٹھ آ رہی ہے؟ نہیں! آپ غلط ہیں، آپ فریب خوردہ ہیں۔ میرے خیبرپختونخوا کے گائوں، میرے پنجاب کے قریے، میرے سندھ کے گوٹھ صاف ستھرے ہیں، کچے صحنوں میں دلہنیں نانیاں دادیاں چاچیاں مائیں بہنیں صبح شام جھاڑو دیتی ہیں۔ ایک ایک کمرے سے گرد جھاڑی جاتی ہے۔ ایک ایک برتن مانجھ کر چمکایا جاتا ہے۔ مکان کچے سہی، دیواریں مٹی کی سہی، برتن معمولی قیمت کے سہی اجلا پن ضرور ہوتا ہے۔ یہ عورتیں صبح سے شام تک اپنے گھروں کو بہشت کا ٹکڑا بنانے میں لگی رہتی ہیں۔ دھریک اور نیاز بو کے پودے بہار دکھاتے ہیں۔ انار کے سرخ پھول عاشقوں کی آنکھوں سے ٹپکے ہوئے آنسو یاد دلاتے ہیں ؎ گل انار کچھ ایسے کھلا تھا آنگن میں کہ جیسے کوئی کھڑا رو رہا تھا آنگن میں منافقت کیا ہے؟ ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ منافقت کیا ہے؟ مگر افسوس ہم میں سے کسی کو بھی نہیں معلوم کہ منافقت کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں۔ یہ فرمان کہ جھوٹ بولنے والا، وعدہ خلافی کرنے والا اور امانت میں خیانت کرنے والا منافق ہے، یہ فرمان ہم نے اپنے دل و دماغ سے نکال باہر کر دیا ہے مگر منافقت کی کوئی حد ہے نہ سرحد۔ جس قوم کے واعظ اور استاد، منبروں، محرابوں سے اور کلاس روموں میں ہر روز چیخ چیخ کر بتاتے ہوں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور صفائی ایمان کی شرط ہے، اس قوم کی غلاظت دیکھنی ہو تو اس قوم کے دارالحکومت کو دیکھو۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ عبرت پکڑو اے آنکھو والو، ماتم کرو اس قوم کی منافقت پر۔ سروں پر دو ہتھڑ مارو اس قوم کی غلاظت پر اور بدذوقی پر۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں شرم دلانے کے لیے کوئی بتائے کہ تمہاری پشت پر درخت اگا ہے تو حیا سے عاری یہ لوگ فخر سے سینہ تان کر جواب دیں گے کہ ہاں اگا ہے، اچھا ہے چھائوں میں بیٹھیں گے۔ آج کوئی علائوالدین خلجی ہوتا تو ترقیاتی ادارے کے سربراہ کو نشان عبرت بنا کر رکھ دیتا۔ کوئی شیر شاہ سوری ہوتا تو کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بہادر کو بدبو کے بھبکوں میں بیٹھ کر کھانا کھانے والوں کے ساتھ بٹھاتا اور کئی دن تین وقت کا کھانا وہیں کھانے کا حکم دیتا۔ یہ دارالحکومت کا دل ہے۔ عین وسط، فائیوسٹار ہوٹل کی بغل، ملک کے سب سے بڑے سرکاری کمرشل بینک کے مقامی ہیڈ کوارٹرز کا علاقہ۔ ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ اسے ’’سوک سنٹر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ معلوم ہے ’’سوک‘‘ کے معنی تہذیب کے بھی ہیں؟ جب آپ کہتے ہیں فلاں شخص میں سوک سینس نہیں ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ تہذیب اور تمیز سے بے بہرہ ہے۔ اس نام نہاد ’’سوک سنٹر‘ میں ایک فوڈ پارک ہے۔ فوڈ پارک بنا تو ایک مخصوص احاطے میں تھا مگر کہاں کا احاطہ، کہاں کی حد بندی، احاطے اور حد بندیاں وہاں ہوتی ہیں جہاں ریاست کا وجود ہوتا ہے، جہاں شہروں کے والی گلی گلی کوچہ کوچہ بازار بازار سیکٹر سیکٹر راتوں کو اور دوپہروں کو اور صبحوں کو اور شاموں کو بنفس نفس گھومتے ہیں۔ ہر شے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ایک ایک دیوار کا ہاتھ لگا کر، چھو کر معائنہ کرتے ہیں۔ فوڈ پارک تو احاطے میں تھا مگر اس مخصوص احاطے کے باہر بھی ریستوران کھل گئے۔ ان غلاظت خانوں کو ریستوران لکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ قلم لکھنے سے انکار کرتا ہے۔ کاغذ دہائی دیتا ہے۔ اس سوک سنٹر میں ایک دلہن بھی ہے۔ اس دلہن کے بے مثال حسن کے ذکر سے پہلے رونگٹے کھڑے کر لیجیے کیوں کہ بعد میں آپ رونگٹے کھڑے کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ غلیظ ریستورانوں کے عین درمیان ایک نالی ہے۔ ایک بدر رو، اس کی گہرائی برائے نام ہے۔ اس کا مقصد شاید بارش کے پانی کا اخراج تھا مگر یہ بارش کے پانی کی محتاج نہیں، بارش ہو یا نہ ہو، یہ ہر وقت سیوریج کے پانی سے بھری رہتی ہے، نہیں۔ بھری ہی نہیں رہتی، گٹر کی طرح ابلتی ہے۔ بدبودار پانی اس کے کناروں سے باہر آ کر فرش پر پھیل جاتا ہے۔ بدبو کے بھبکے اٹھتے ہیں۔ آفرین ہے ان مسلمانوں پر، ان پاکستانیوں پر، جو اس بدر رو کے دونوں کناروں پر، میز کرسیوں پر، بیٹھے کھانا کھاتے ہیں، سارا دن، ساری شام چائے پیتے ہیں۔ یہ بدر رو، سوک سنٹر کی یہ دلہن اس قوم کی منافقت کا طرۂ امتیاز ہے۔ اگر یہ صرف گزرگاہ ہوتی تب بھی اس گندی نالی کا جواز نہ تھا مگر اس پر بیٹھ کر کھانا کھانا، پراٹھے، پوریاں، قورمے، گندی نالی کا تعفن، کیچڑ، ادھر نوالہ منہ میں ڈالا۔ ادھر بدبو کا بھبکا ناک میں گیا۔ تف ہے کھانوں پر اور خدا کی مار بھلا کر جیبیں بھرنے والوں پر۔ درختوں کے اردگرد یہاں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہیں، جگہ جگہ فرش کی اینٹیں اکھڑی ہوئی ہیں۔ گڑھوں سے کوڑا کرکٹ چھلک چھلک کر باہر آ رہا ہے۔ ان تاجروں سے اتنا نہیں ہوتا کہ دکانوں کے سامنے اکھڑی ہوئی اینٹیں ہی دوبارہ جوڑ دیں۔ جتنے برآمدے ہیں، دکانداوں کے مال سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ برآمدے اس لیے بنے تھے کہ گاہک یہاں چلیں گے۔ بوتلوں کے کریٹ، گندے کپڑے، دیگچے، ناجائز تجاوزات کا غلیظ ترین مظاہرہ دیکھنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، یہ ’’سوک سنٹر‘‘ وزیراعظم کے دفتر سے اور عالی شان شاہراہ دستور سے صرف پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ٹیلی ویژن چینلوں کے اینکر تعفن کے اس مرکز کو پردہ سیمیں پر دکھاتے مگر ان اینکروں کے پاس اتنا وقت کہاں، یہ تو عالمی مسائل کے ٹھیکیدار ہیں۔ یہ تو کھانے فائیو سٹار سے اس طرف کھاتے ہی نہیں۔ یہ ارب پتی اینکر اب اس فضا میں رہتے ہیں جس میں ایک زمانہ پہلے انڈین سول سروس کے انگریز بیوروکریٹ رہتے تھے۔ یہ کندھے حکمرانوں سے رگڑتے ہیں، اقتدار کے برآمدے ان کی پسندیدہ سیر گاہیں ہیں۔ غیر سیاسی پروگرام کرنے پر، عوامی مسائل اجاگر کرنے پر، ان کی شان میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ دارالحکومت کے ہزاروں درختوں پر کچھ عرصہ پہلے جب قیامت ٹوٹی تو رئوف کلاسرہ کے سوا کسی نے صدائے احتجاج نہ بلند کی۔ انڈین سول سروس کی شان والے یہ متکبر اینکر رئوف کلاسرہ کو ضرور طعنہ دیتے ہوں گے کہ ہر کچھ روز بعد وہ اپنے گائوں اور علاقے کی حالت زار پر کیوں لکھتا ہے۔ کروڑوں کا بجٹ ہے اسلام آباد کیپٹل ٹیری ٹری کی انتظامیہ کا۔ ایک سفید ہاتھی کے اوپر ایک اور سفید ہاتھی بیٹھا ہے۔ سفید ہاتھیوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ ترقیاتی ادارہ، اس کے ممبر، اس کا سربراہ، پھر چیف کمشنر، پھر ڈپٹی کمشنر، پھر اسسٹنٹ کمشنر۔ پھر اہلکاروں کی بٹالینوں کی بٹالینیں، گاڑیاں، دیدہ زیب فرنیچروں سے بھرے دفاتر، پروٹوکول، نزاکتیں، نخرے، ایک نائب قاصد دروازہ کھولتا ہے۔ دوسرا بریف کیس نکالتا ہے۔ تیسرا سلیوٹ مارتا ہے۔ پی اے بات کرنے سے پہلے دروازے میں بنے سوراخ میں لگے شیشے سے دیکھتا ہے کہ صاحب کس پوز میں بیٹھے ہیں۔فون کرنے سے کہیں پوز کے جاہ و جلال میں کمی نہ واقع ہو جائے۔ نائب قاصد اندر چائے لے جانے سے پہلے اپنی واسکٹ ٹھیک کرتا ہے کہ طبع نازک پر کوئی سلوٹ گراں نہ گزر جائے اور شہر کا مرکز، نام نہاد ’’سوک سنٹر‘‘ غلاظت اور تعفن میں نوبل پرائز کا حق دار۔ وزیراعظم کے لیے ایک تجویز ہے کہ سعودی شہزادہ تو واپس چلا گیا۔ اب کوئی اور ایسا بلند مرتبہ مہمان آئے تو اسے اس ’’سوک سنٹر‘‘ کی سیر ضرور کرائیں۔