کل ظفر علی خان ٹرسٹ میں ایک غیر معمولی اجتماع تھا۔ حکم ہوا حاضر ہونا ضروری ہے۔ایک دوست نے تو چپکے سے مسکراتے ہوئے کان میں کہا کہ کفر و اسلام کی جنگ ہے۔ خلیل الرحمن قمر یہاں مدعو تھے۔ یہ گزشتہ ایک ماہ میں ان سے میرا دوسرا پبلک آمنا سامنا تھا۔ ظاہر ہے بحث یہی عورت مارچ تھا۔خلیل الرحمن دبنگ آدمی ہیں اور لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ مجھے بھی اذن اظہار ہوا۔ میں نے اپنی طرف سے بڑی معصومیت سے ایک بات کہہ ڈالی۔ جب میں نے ٹی وی پر ان کا ماروی سرمد سے ٹاکرا دیکھا تو میں ایک منٹ کے لئے چونکا اور خود سے سوال کیا کہ انہوں نے جو یہ دو گالیاں دی ہیں‘ ان کے ہوتے میں ان کی تائید کیسے کروں میں نے وہ گالیاں دہرا بھی دیں۔ ثقہ لوگوں کی محفل تھی۔ لگتا تھا سب سوچ میں پڑ جائیں گے۔ لیکن کسی کے چہرے پر بدمزگی کا تاثر نہ تھا۔ میں نے ایک لمحے کے لئے توقف کے بعد عرض کیا‘ پھر مرے اندر سے آواز آئی‘ اگر یہ گالیاں اسی طرح منٹو نے لکھ دی ہوتیں تو ہم اس پر کیا ردعمل ظاہر کرتے۔ ثقہ لوگوں نے تالیاں بجا دیں۔ میں نے دوبارہ عرض کیا کہ سب جانتے ہیں میں ادب میں بھی اسلامی اقدار کا حامی ہوں۔ گزشتہ دنوں بھی میں نے یو ایم ٹی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مجھے منٹو اور نسیم حجازی میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں منٹو کا انتخاب کروں گا اور یہ سب میں اپنے اسلامی اور ادبی جذبے کو پیش نظر رکھتے ہوئے کروں گا۔شاید یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان بنا تو میرے بڑوں نے اسلامی ادب اور پاکستانی ادب کی بنیاد منٹو کے ساتھ مل کر رکھی تھی۔ حسن عسکری نے منٹو سے مل کر ایک بڑے کام کا آغاز کیا تھا۔ افسوس وہ آگے نہ بڑھ پایا۔ کراچی میں تو ازراہ تفنن یہ تک کہا گیا تھا ‘ اپنے اہل زبان دوستوں کو چھیڑنے کے لئے کہ امرتسر کا کشمیری ہوں‘ منٹو کی زبان لکھتا ہوں۔ ہاں گالی سے یاد آیا ہمارے افتخار عارف بھی ایک بڑے ثقہ لکھنوی ہیں‘ چار بار ایک لفظ ان کے منہ سے سنا جو مرے نزدیک گالی ہے۔ عرض کیا یہ آپ کیا کہہ دیتے ہیں۔ کہنے لگے‘ ہمارے لکھنو میں یہی ایک گالی ہے جو عورتوں کے سامنے بھی دے دی جاتی ہے۔ ایک بات خلیل الرحمن قمر نے بھی کہی اور وہ یہ کہ کسی نے کہا آپ بس اپنے غصے پر قابو پائیں۔ کہنے لگے ایسا کروں گا تو مر جائوں گا۔ اپنے سلیم احمد یاد آئے جو کہتے تھے مجھ سے مرا سب کچھ لے لو‘ مجھے بس مرا غصہ دے دو۔ یہ ساری باتیں کر کے مجھے خیال آیا یہ تو ثقہ لوگوں کی باتیں ہیں‘ ادب کا تذکرہ ہے اور یہاں پالا تو دوسری ڈھب کے لوگوں سے پڑا تھا۔ شوبز کا میدان تھا‘ منہ پھٹ سامنے ہوں گے اور بات لکھ کر تحریر کی شکل میں نہیں زبانی کلامی اظہار پا رہی تھی۔یہاں کون سا اصول لاگو ہو گا۔ پتا نہیں۔صرف اتنا جانتا ہوں کہ بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ جائز بھی ناجائز اور ناجائز بھی جائز نظر آتا ہے۔ ویسے یہ مسئلہ کسی جھگڑے یا واقعے کا ہے ہی نہیں۔ کیوں خوامخواہ خلط بحث ہو رہا ہے۔جہاں بھی جائو یہی ایک بات ہے۔ اللہ کے بندو اور بندیو‘ مجھے سمجھا ئوان نعروں کا مطلب کیا ہے۔ جائو ‘ کوئی اور کام کرو‘ شرم کرو ‘ حیا کرو۔ پرانی بات ہے کہ ایک ٹی وی مذاکرہ ہوا مجھے آج بھی اس ریکارڈنگ کی تلاش ہے جو کبھی نہ ڈھونڈ پائوں گا۔ مہتاب اکبر راشدی اس کی میزبان تھیں۔ شرکاء میں مرے ساتھ جو دو خواتین تھیں‘ ان میں ایک عائشہ منور تھیں جو ہمارے بھائی منور حسن کی اہلیہ ہیں اور دوسری شائستہ بتول جو ہمارے کرار حسین کی بیٹی۔ اندازہ کر سکتے ہیں کیسی فضا ہو گی۔ اختلاف کے ہزار پہلو نکل سکتے تھے۔ مگر اللہ کی توفیق سے ایسی جم کر بات ہوئی کہ مجھے آج تک یاد ہے۔ خصوصی وہ داد جو مجھے ان تینوں معزز خواتین سے ملی اور وہ اتفاق جو ہم سب میں پایا گیا۔دلچسپ بات ہے کوئی اختلافی شکل تھی ہی نہیں۔ یہ جو اختلاف ہے یہ تو جاہلیت کی پیداوار ہے‘ وگرنہ سنجیدگی سے سچ بولا جائے تو چند لمحوں میں پھولی ہوئی سانس معمول پر آ جاتی ہے اور دل کی دھڑکنیں درست ہو جاتی ہیں۔ میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ اسے دین کے ترازو میں نہ بھی تولو تو بھی ایک بنیادی تہذیبی مسئلہ ہے جسے چند چھچھورے لوگ طے نہیں کر سکتے۔ میں کہیں عرض کر چکا ہوں کہ ہم تو اس معاشرے کو حرام کاری کے رویے سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ نہ ہم حرام کار مردچاہتے ہیں نہ حرافہ عورتیں۔ باقی رہی حقوق کی بات تو یہ بھی عرض کیا تھا کہ اس کی لمبی تاریخ ہے۔ حقوق نسواں سے آزادی نسواں تک ایک لمبی کہانی ہے۔ پھر آزادی نسواں میں لمبی بحث ہے۔ ایک وہ مرحلہ بھی آیا جب عورت نے کہا عورتوں کو مرد سے مکمل نجات حاصل کر لینا چاہیے۔ وہ تحریکیں اپنی موت آپ مر گئیں۔ غیر فطری بات ہے۔ بحث کرنا ہے تو کر لیتے ہیں۔ مرا خیال ہے دوشیزہ مریخ پر اقبال کی فارسی نظم کو کسی وقت ترجمے کے ساتھ پیش کردوں بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ مجھے یاد ہے کہ جب اپنی اہلیہ کی تعلیم کے دوران میں 93ء میں آسٹریلیا گیا تو پہلی خواہش ہوئی کہ اخبار ڈھونڈا جائے۔ وہاں کے سب سے معتبر اخبار کے صفحہ اول پر پورے صفحے کا فیچر تھا۔ نام تھا Men under seigeمحاصرے میں گھرا مرد۔ اس وقت پاکستان میں ابھی آزادی نسواں کا زمانہ تھا اور یہ بیچارے مرد کی آزادی کے لئے نکل پڑے تھے۔ دو چار جگہ یہ بحث دیکھی تو معلوم ہوا آج کل یونیورسٹیوں میں اس موضوع پر تحقیق کے لئے بڑے فنڈز موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے میڈیا کو بھی میسر کئے گئے ہوں۔ بہرحال وہاں زمانہ آ گیا تھا کہ عورتوں کی آزادی کے بعد اب مرد کی رہائی کی کوشش ہو رہی تھیں۔ خلیل الرحمن قمر نے ایک اور پتے کی بات کی کہ فنڈڈ صحافت کبھی محب وطن نہیں ہوا کرتی۔ میں عموماً این جی او پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ اسے موخر کرتا ہوں کہ انہیں باہر سے فنڈز ملتے ہیں‘ بلکہ اس تصور پر بات کرتا ہوں جب ایک بڑے انقلابی بیانیے سے ہٹ کر چھوٹے چھوٹے کاموں کی طرف توجہ دے دی جاتی ہے۔ مابعد جدیدیت کی پیداوار یہ تصور بڑا غور طلب ہے۔ آپ جاگیرداری کے خلاف تو بولیں گے نہیں‘ اس کے خلاف جدوجہد نہیں کریں گے اور چاہیں گے کاروکاری ختم ہو جائے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ کو نظام بدلنا پڑے گا۔ اگر کسی نے کہا ہے کہ بلاول خواتین کے حقوق کی بات تو کرتا ہے مگر اپنے حلقے میں ان برائیوں کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ میں کہتا ہوں یہ نہیں کہ کرتا نہیں‘ کر سکتا ہی نہیں۔ اس بات پر جتنا جلد غور کر لیا جائے‘ پاکستان کے لئے یہ اتنا ہی بہتر ہو گا۔ ہمیں چھوٹے‘ ذیلی اور ضمنی کاموں پر لگا دیا گیا ہے حالانکہ ضرورت نظام کے بدلنے کی ہے۔ شرم کرو‘ حیا کرو