گزشتہ ایک دہائی سے تین برس اوپر کی بات ہے۔2007ء کا زمانہ تھا جب ہم کالے کوٹوں کے سحر میں مبتلا تھے۔ ہم انہیں آمر کے سامنے ڈٹ جانے والے بہادر‘ جبر کے سناٹے میں اپنے گریبان کا پرچم باہر لے کر نکلنے والے دیوانے اور آئین اور قانون کو تحفظ دینے والے محافظ سمجھتے تھے۔ جسٹس افتخار اپنا تاریخی ’’انکار‘‘ آمر کے سامنے کر چکے تھے۔ عدلیہ کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ جسٹس افتخار کے انکار کو تحریک میں بدلنے والے یہی کالے کوٹ والے دیوانے ہی تھے ان کا کالا کوٹ آئین اور قانون کے تحفظ کا استعارہ بن گیا تھا۔ زوال کی انتہا ہے کہ کالے کوٹ والوں نے 11دسمبر 2019ء کو عدلیہ تحریک میں کمائی ہوئی نیک نامی کو جس انداز میں برباد کیا۔ اس پر ہم سب کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ ظلم‘ لاقانونیت اور بدترین بے حسی کا جو بھیانک کھیل کالے کوٹوں میں لاہور کے پی آئی سی ہسپتال میں کھیلا گیاوہ ایک طرف شرمناک اخلاقی گراوٹ اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے کی مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے اور دوسری طرف مجموعی طور پر ہمارے سماج میں اخلاقی زوال کی افسوسناک صورت حال کا غماز ہے۔ آخر وکیل بھی اسی سماج کا حصہ ہیں۔ ان کی تربیت اور ذہنی ساخت بنانے والے والدین سکول اور تعلیمی ادارے بھی اسی سماج ہی کا حصہ ہیں۔ لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ یہ سانحہ چیخ چیخ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی کا اعلان بھی کر رہا ہے۔ ایوان عدل سے پی آئی سی لاہور کے دل کے ہسپتال جیل روڈ تک جتھوں کے جتھے پیدل مارچ کرتے ہوئے ڈاکٹروں کے خلاف نعرہ بازی کرتے حملہ آوروں کی طرح آتے ہیں لیکن کوئی قانون نافذ کرنے والا متعلقہ ادارہ اور انتظامی مشینری حرکت میں نہیں آتی۔ وکیلوں اور ڈاکٹروں کے درمیان یہ تنازعہ پندرہ روز پرانا تھا اور اس پھڈے کا علم بھی انتظامیہ کو تھا، کیا وجہ ہے کہ پھر اس قدر نااہلی کا ثبوت دیا گیا کہ انہیں روکا نہیں جا سکا۔ پانچ چھ سو وکیل کس طرح ایک جگہ جمع ہو کر ایک جتھے کی صورت ہسپتال پر حملہ کرنے چل پڑتے ہیں اس ساری سرگرمی میں یقینا وقت صرف ہوتا ہے۔ اس وقت انتظامیہ کہاں سوئی ہوئی تھی۔ دل کے ہسپتال کے داخلی دروازوں پر سکیورٹی کیوں نے بڑھائی گئی۔ اگر ہسپتال کے گردو نواح میں اتنی سکیورٹی ہوتی کہ کالے کوٹوں والے ہسپتال کے اندر داخل نہ ہو سکتے تو بھی اتنے بڑے سانحے کو ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا جن کے سروں پر وحشت سوار تھی نہ صرف یہ کہ ہسپتال کا بیرونی گیٹ توڑ کر بائونڈری کے اندر داخل ہو گئے بلکہ ہسپتال کی ایمرجنسی ایڈمن بلاک اور آپریشن تھیٹروں تک پہنچ گئے۔ ان ظالموں نے یہاں مریضوں کے آکسیجن ماسک تک کھینچ کر اتار دیے۔ ڈرپس اتاریں۔ سوچیں کہ اس وقت انتہائی حساس بیماری میں مبتلا بے کس بیماروں کا کیا حال ہو گا۔ جب اچانک ان پر ان کے اپنے ہی ہم وطن حملہ آور ہو گئے ہوں ان کے شر سے بچنے کے لئے مریضوں کے لواحقین انہیں ڈرپس سمیت ہسپتال کے بستروں سے محفوظ مقام کی طرف پہنچانے لگے لیکن محفوظ مقام یہاں کہاں تھا۔ ہر طرف دہشت گرد موجود تھے۔ وحشت کا ایک بھیانک کھیل جاری تھا۔ مریض سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ کیا قیامت ان پر ٹوٹ پڑی ہے۔ اپنے ہی ہم وطن شیطانوں کی صورت میں ان پر حملہ آور ہیں: تیر سارے کڑی کمان میں تھے ہم کہ اک شہر بے امان میں تھے رزم آرائی اب کے گھر میں رہی حادثے یہ کہاں گمان میں تھے جیل روڈ پر موجود ہسپتال کا بیرونی منظر بھی کسی رزم گاہ کا منظر پیش کر رہا تھا ان ظالموں نے راستے میں آنے والے کسی شخص کو نہیں بخشا۔ راہگیروں کو مارنے پیٹنے ‘ فیاض الحسن چوہان کو زدو کوب کرنے۔ پولیس وین کو آگ لگانے کی ویڈیوز سب نے دیکھی ہوں گی۔ ہسپتال میں کروڑوں کی مشینری کو نقصان پہنچایا کھڑکیاں دروازے توڑے ‘ ان سفاک وکیلوں نے چار مریضوں کی جان لی یہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک لڑکا روتے ہوئے دہائی دیتا تھا کہ میری 22سالہ اکلوتی بہن کے منہ پر لگے ہوئے آکسیجن ماسک کو ایک شیطان صفت نے کھینچ کر اتارا اور بے چاری چند اکھڑی سانسیں بھر کر چل بسی۔ ظلم سا ظلم ہے ماتم اور افسوس کی گھڑی ہے۔ جنگوں میں بھی ہسپتالوں پر ریڈ کراس کے نشان حملہ آوروں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ یہاں مریضوں کا علاج ہوتا ہے ۔یہ شفاخانے ہیں ان پر حملہ جنگی اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔ مگر میرے وطن کے وکیلوں نے اپنے ہسپتال کو قتل گاہ بنا دیا۔ ڈاکٹروں اور وکیلوں کے درمیان ایک تنازعہ جو کم و بیش پندرہ روز پہلے ہوا یہ اس کا ردعمل تھا۔ اس سانحے کے پس منظر کو سمجھنے کی ضرورت بھی ہے۔ صرف ایک کالم اس پر کافی نہیں ہے 11دسمبر کو جو کچھ ہوا ایک بکھرتے ہوئے سماج۔ بدترین ابتری اور شرمناک اخلاقی زوال کا مظہر ہے۔ ڈبلیو بی ییٹس کے الفاظ مستعار لیتی ہوں۔ Things fall apart the centre cannot hold, Mere anarchy is loosed upon the world. ایک دہائی اور تین برس اوپر۔2007ء میں ہم ان کالے کوٹوں والوں کی عظمت کے گن گاتے تھے اور آج 2019ء میں ان پر کف افسوس مَلتے ہیں اور اس شرمناک اخلاقی زوال پر ماتم کرتے ہیں۔ (جاری)