وفاقی دارالحکومت کے ’’نئے‘‘ ایئر پورٹ سے ابھی ابھی لوٹا ہوں اور سر پکڑ کر بیٹھا ہوا ہوں ؎ منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ عمارتیں ہم بنا لیتے ہیں۔ سسٹم مغرب سے نقل کر لیتے ہیں مگر چلا نہیں سکتے۔ عمارتیں اندر سے بدنظمی کا شہکار ہوتی ہیں ‘اُوبر اور کریم ہی کو لے لیجیے۔ ساری دنیا میں چل رہی ہیں اور ایک طریقے‘ ایک قانون اور ایک نظم کے تحت کام کر رہی ہیں۔ وہی اچھا بھلا ادارہ ہمارے ہاں آتا ہے تو اس کا حلیہ بگڑ جاتا ہے۔ کوئی شے ان گاڑیوں میں رہ جائے تو شاید ہی ملے۔ ایپ کے ذریعے رائڈ بک کریں تو آپ کے گھر پہنچنے کے بجائے پانچ میل دور پہنچے گی اور آپ کو اطلاع ملے گی کہ کیپٹن پہنچ گیا ہے۔ بقایا رقم آپ کے اکائونٹ میں کبھی کریڈٹ ہو گی کبھی نہیں ہو گی۔ یہ اسلام آباد ایئر پورٹ ہے۔ دارالحکومت کا ہے، کسی چھوٹے موٹے شہر کا نہیں۔ بیرون ملک جانے والے مسافروں کے لئے ’’پاسپورٹ کنٹرول‘‘ کا بورڈ لگاہے۔ اس میں پانچ چھ کائونٹر بنے ہیں ‘تین کائونٹروں پر لکھا ہے‘ غیر ملکی پاسپورٹ ۔دوسرے تین کائونٹروں پر لکھا ہے‘پاکستانی پاسپورٹ۔ لیکن گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ غیر ملکی اپنے کائونٹروں کے سامنے قطار باندھے کھڑے ہیں۔ مگر ان کے آگے اُسی قطار میں پاکستانی پاسپورٹ والے مسافر کھڑے ہیں گویا غیر ملکیوں کے کائونٹر پر پاکستانی قابض ہیں۔ یہ ایف آئی اے کا دائرہ کار ہے ۔جو افسر ایئر پورٹ پر ایف آئی اے کی قیادت کر رہا تھا اسے ڈھونڈا۔ اُسے اِس موقع واردات پر بنفس نفیس لایا۔ غیر ملکیوں کے ساتھ یہ ’’حسنِ سلوک‘‘ اسے دکھایا۔ اسے بتایا کہ دنیا کے دوسرے ایئر پورٹوں پر مقامی اور غیر ملکی مسافر بیک وقت ہزاروں کی تعداد میں قطاریں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک ۔صرف ،ایک اہلکار وہاں کھڑا ہوتا ہے جو بلند آوازسے ہدایت دیتا رہتا ہے کہ مقامی مسافر اس طرف اور غیر ملکی اس طرف! کسی ایک قطار میں بھی یہ اصول نہیں ٹوٹتا۔ یہاں کیوں نہیں ایسا ہو سکتا؟ افسر خوش اخلاق تھا مگر اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔ کیا ہم میں کوئی پیدائشی نقص(Manufacturing Defect)ہے جو ہمیں سیدھے راستے پر چلنے سے روکتا ہے اور مسلسل روکتاہے؟ ہم ایک قانون وضع کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ سے پاس کراتے ہیں آئین کا حصہ بناتے ہیں پھر اس کی خلاف ورزی شروع کر دیتے ہیں۔ ہر جگہ ‘ ہر وقت ‘ ہر سطح پر۔ ہر ممکن طرح سے! ساتھ ساتھ شور مچاتے جاتے ہیں کہ قانون پر عمل نہیں ہو رہا۔ قانون توڑا جا رہا ہے! ہم پروہ محاورہ پورا پورا صادق آتا ہے۔ چور مچائے شور۔‘‘ وزیر اعظم سے لے کر عام شہری تک ‘ایم این اے سے لے کر پرائمری سکول کے استاد تک۔ ایم پی اے سے لے کر معمولی کلرک تک۔ کارخانے کے مالک سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے مزدور تک ۔ماں باپ سے لے کر بچوں تک۔ استاد سے لے کر شاگرد تک۔ ہر شخص اپنے اپنے دائرے میں قانون کا تیا پانچہ کر رہا ہے! ہر کوئی حسب توفیق قواعد اور ضوابط کو جوتوں تلے روند رہا ہے۔ ساتھ ساتھ دوسروں پر الزام دھرے جا رہا ہے۔ ہم ایک بورڈ لگاتے ہیں ۔اس پر جلی حروف میں اتنا واضح لکھا ہوتا ہے کہ اندھا بھی پڑھ لے۔ پھر اسی بورڈ کے سامنے عین اس بورڈ کے نیچے بورڈ پر لکھی ہوئی ہدایت کی ایسی تیسی کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہمیں ایک لمحے کے لئے بھی شرم نہیں آتی۔ حیا سے ہم عاری ہیں۔ ڈھٹائی ہمارا طرز زندگی ہے! اپنے لکھے ہوئے کی بے حرمتی خود کرتے ہیں ۔اپنا تھوکا ہوا چاٹتے ہیں ۔اپنے منہ پر اپنے ہاتھوں سے کالک ملتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہم جیسا روئے زمین پر کوئی نہیں! دنیا بھر سے ہم برتر ہیں ‘باقی سب ہمارے مقابلے میں مٹی کے بے بضاعت ذرے ہیں! غور کیجیے ! ہمارے ہاں جس طرح مقرر کردہ آخری تاریخوں میں توسیع در توسیع ہوتی ہے‘ شاید ہی کہیں اور اس طرح ہوتا ہو۔ انکم ٹیکس فائل کرنے کی‘ کہیں رقم جمع کرانے کی ‘کوئی قرض واپس کرنے کی‘ آخری تاریخ ہو ‘اس کی پابندی اس حد تک برائے نام ہوتی ہے کہ تاریخ بڑھانا پڑتی ہے۔ آپ دنیا کی بڑی بڑی یورنیورسٹیاں دیکھ لیجیے۔ داخلے کی تاریخ ہو یا امتحان کی تاریخ‘ تین تین چار چار سو سال سے یہ تاریخیں نہیں بدلیں۔ ہمارے ہاں میٹرک سے لے کر ایم اے تک ۔ہر امتحان کی تاریخ آئے دن تبدیل ہوتی ہے۔ رہا کالج یونیورسٹی یاسکول میں داخلہ‘ تو سفارش اور اقربا پروری کا کلچر اس قدر نفوذ کرچکا ہے کہ کسی وقت بھی شب خون کیا، دن دہاڑے مقررہ تاریخ کو پامال کیا جا سکتا ہے! شادیوں اور تقاریب کے دعوتی کارڈ ہماری منافقت کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔یہ ثبوت ہاتھ سے لکھا ہوا نہیں‘ باقاعدہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ دعوت دینے والے اور دعوت میں آنے والے‘ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ جو وقت دیا ہوا ہے وہ فقط نمائش کے لئے ہے۔ اصل وقت گھنٹوں بعد کا ہے ۔صدر سے لے کر وزیراعظم تک سب سرکاری تقاریب میں تاخیر سے آتے ہیں۔ سامعین آزاد شہری نہیں۔ محکوم رعایا کی طرح پہروں صبر سے انتظار کرتے ہیںبے حسی اجتماعی ہے ! بے شرمی قومی سطح پر ہے۔ اس طرزِعمل کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سطح پر اعتماد کا مکمل فقدان ہے۔ انفرادی سطح پر غور کیجیے۔ میں کسی کو بتاتا ہوں کہ اتنے بجے تمہارے پاس آئوں گا‘ تو مجھے بھی اور اسے بھی ‘ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ جھوٹ ہے! ہو سکتا ہے کہ آدھا گھنٹہ اورممکن ہے دو تین گھنٹے تاخیر سے آئوں۔ اچنبھاہے نہ کوئی شکوہ شکایت! اجتماعی سطح پر دیکھیے‘ ادارے اعتبار کھو چکے ہیں۔ کوئی سرکاری یا نجی ادارہ کلائنٹ کو جو تاریخ دیتا ہے کلائنٹ اس پر اعتبار نہیں کرتا نہ اسے سنجیدگی سے کوئی مسئلہ بناتا ہے۔ دونوں فریق اس خلاف ورزی پر اس منافقت پر‘ اس جھوٹ پرسمجھوتہ کر چکے ہیں! تہذیب اور ترقی صرف مادی اشیا سے عبارت نہیں! اس میں رویوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ جس دن لکھا ہوا حرف ہمارے لئے حرف آخر ثابت ہو گیا‘ اس دن ہم مہذب بھی ہو جائیں گے اور ترقی یافتہ بھی! آئین میں یا بورڈ پر‘ یا دعوتی کارڈ پر جو کچھ لکھا ہے اسے من و عن عملی جامہ پہنائیں گے تو تبدیلی آئے گی! ہمیں اس دو عملی سے نجات حاصل کرنا ہو گی کہ لکھا کچھ اور ہے کرنا کچھ اور ہے! قول اور فعل کا تضاد ہمیں بدتر سے بدترین کر رہا ہے!گفتار کے ہم غازی ہیں ‘کردار کے حوالے سے سامانِ عبرت ہیں! ہر کام میں رویہ غیر سنجیدہ ناقابل اعتبار اور Casualہو تو وہی مقام حاصل ہوتا ہے جو اس وقت دنیا ہمیں دے رہی ہے!