’’19اکتوبر 1947کی درمیانی شب کا یہ واقعہ ہے کہ چھاپہ مار بجلی کی سرعت کیساتھ دشمن کے علاقے میں داخل ہوئے۔ان کی تیز رفتاری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک سو پندرہ میل کا فاصلہ پانچ روز میں طے کرتے ہوئے سرینگر سے صرف چارمیل کے فاصلے پر پہنچ گئے جہاں سے سرینگر کی ٹمٹماتی ہوئی روشنیاں صاف نظر آرہی تھیں۔وہ بارہ مولا 30میل پیچھے چھوڑ آئے تھے اور یہاں تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد تین ہزار تھی۔مہاراجہ کشمیر سرینگر سے فرار ہوکر دہلی پہنچ گیا تھا۔اور بھارتی حکومت سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے یہ موقف پیش کیا تھا کہ کشمیر پر وحشی جنگی قبائل نے حملہ کردیا ہے اور اگر ابھی سے اس خطرے کا سد باب نہ کیا گیا تو ان وحشی جنگی قبائل کی اگلی منزل دہلی ہوگی۔اس موقف کو اُس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ وی پی مینن نے بڑے زور و شور کے ساتھ دہرایااور بھارتی حکومت کو یاد دلایا کہ اگر اس وقت کشمیر کی حفاظت نہ کی گئی تو آٹھ صدی قبل جس طرح افغانستان نے شمالی ہندوستان کو روندتے ہوئے سترہ مرتبہ بھارت کو تخت و تاراج کیا تھا اسی طرح اب وہ تاریخ پھر دہرائی جائے گی۔اگلے ہی روز بھارتی فوجیوں کی کمک ہوائی جہازوں کے ذریعے کشمیر پہنچنا شروع ہوگئی اور ان دستوں کی مدد بھارتی جنگی جہازوتوپ خانہ کررہا تھا۔اور یہ بھارتی فوجیں تیزی کے ساتھ قبائلی چھاپہ مار وں کی پیش قدمی روکنے کے لئے حرکت میں آگئی تھیں۔مگر افراتفری میںان کا یہ حملہ انہی کے لئے نقصاندہ ثابت ہوا ۔قبائلیوں نے نہ صرف بھارتی فوج کو پیچھے دھکیل دیا بلکہ ان کا کمانڈر کرنل رائے بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔سرینگر کے قریب چوتھے میل پر جہاں توپ خانے نے مورچہ بندی کر رکھی تھی ،وہ راستہ لاشوں سے اٹا پڑا تھا۔اور دونوں متحارب طاقتیں پیش قدمی کے لئے مشین گنوں کی مدد سے راستہ بنانے کی کوشش کر رہی تھیں۔جیسے جیسے یہ چھا پہ مار قبائلی آگے بڑھ رہے تھے ،رکاوٹیں دوچند ہوتی جارہی تھیںکیونکہ سرینگر کے ارد گرد پھیلے ہوئے ندی نالے اور جھیلیں ان کی پیش قدمی کو مشکل ترین بنا رہی تھیں۔لہٰذا مجبوراً انہیں سمٹ سمٹا کر اسی شارع پر آنا تھا جو سرینگر اور میدان ِجنگ کے درمیان تھی۔‘‘ درج بالا اقتباس میں نے اُس وقت چھاپہ ماروں کی قیادت کرنے والے جنرل اکبر خان کی کتاب ’’پاکستان میں پہلی فوجی بغاوت ‘‘ سے لیا ہے۔جنرل اکبر خان لکھتے ہیں:’’ 15اگست1947کو برصغیر برطانوی سامراج سے آزاد ہو کر دو نئی مملکتوں میں تقسیم ہوچکا تھااور یہ دو نئے ملک ہندوستا ن اور پاکستان کے نام سے وجو دمیں آئے۔یہ دونوں ریاستیںخود مختار تسلیم کی گئیں۔تاہم ان دونوں ریاستوں کو برطانوی کامن ویلتھ کا حصہ ہی رہنا تھا۔گو اس دن سے برطانوی حکمرانوں نے برصغیر پر اپنے اختیارات کے خاتمے کا اعلان کردیا تھا مگر یہ دونوں ملک اپنے اختیارات کے استعمال سے قاصر رکھے گئے کیونکہ 1,777,438مربع میل پر پھیلے ہوئے وسیع رقبے میںجہاں چالیس کروڑ انسان آباد تھے۔568ایسی ریاستیں بھی موجود تھیں جو مختلف راجاؤں، مہاراجوںاور نوابوں کے زیر نگیں تھیں اور ان میں سے بیشتر وہ ریاستیں بھی تھیں جن کے حکمرانوں نے دونوں میں سے کسی بھی ملک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ برصغیر پاک و ہند ہی نہیں بلکہ عالمی رہنماؤں کی صف ِ اول میں ہونے کے باوجود جواہر لال نہرو کی یہ عصبیت بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ایک سوالیہ نشان بنی رہے گی۔کشمیر کے حوالے سے بھارت کے ممتاز صحافی اے جی نورانی نے اپنی کتاب میں جو خطوط جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ سمیت دیگر رہنماؤں کے شائع کئے ہیں ۔ جہاں تک آرٹیکل 370کی شق A-35کے خاتمے کا تعلق ہے تو یہ یقینا کشمیر کی خوں ریز ہنگامے تاریخ کا ایک اور سیاہ باب یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی 72سالہ تاریخ میں کسی بھارتی حکمراں کو اس بات کی جرأت اور ہمت نہیں ہوئی ۔کہ وہ جموں ،کشمیر کی تاریخ ہی سرے سے تبدیل کردے۔ یقینا گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانے والا نریندر مودی جیسا جنونی بھارتی حکمراں ہی اس طرح کاانتہائی اقدام کر سکتا تھا۔ جو ’’سقوط ڈھاکہ‘‘ کی فاتح جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی بھی نہیں کرسکیں۔یہاں ریکارڈ کی درستگی کیلئے عرض کر تا ہوں کہ بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کا ذکر کرتے وقت اس کا ذمہ دار مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کو ٹھہرایا جاتاہے۔جو سرینگر سے محض 5میل دور پہنچ جانے والے قبائلی چھاپہ ماروں کے خوف سے دہلی فرار ہوگیا اور پھر مہاراجہ ہری سنگھ کی درخواست پر بھارت کو یہ آئینی اور اخلاقی جواز مل گیا کہ وہ اپنی فوجیں سرینگر میں اتاردے۔ہم یہ بھول جاتے ہیںکہ ’’جموں کشمیر‘‘کی ایک آزاد ریاست سے حیثیت تقسیم پاک و ہند سے پہلے تو تھی ہی مگر 1921ء میں جموں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ اور انگریز حکمرانوں سے آرٹیکل 370شقA35کا اضافہ کروادیا تھا کیونکہ اُسے خوف تھا کہ کشمیر جیسی حسین وادی میں ایسی کشش ہے کہ سارے بھارت سے کیا، ہندو کیا ،سکھ اور مسلمان یہ خواہش رکھتے تھے کہ وہ اس ریاست میں ضرور ایک قطعۂ اراضی لے کر اپنی گرمیوں کی چھٹیاں ہی یہاں نہ گزار سکیں بلکہ مستقل رہائش ہی اختیار کرلیں۔مہاراجہ ہری سنگھ کو یہ خوف ہوا کہ اس سے کشمیر ی پنڈت اقلیت میں رہ جائیں اور اسی سبب جموں و کشمیر کے آئین میںآرٹیکل 370شق35Aرکھی گئی۔ بھارتی غاصبانہ قبضے کے باوجود جموں و کشمیر کی یہ حیثیت 72سال سے برقرار تھی جس کے سبب اس کا ایک الگ پرچم تھا۔جو دیگر ہندوستانی ریاستوں سے اُس کی منفرد حیثیت برقرار رکھتا تھا۔امریکی صدر ٹرمپ نے لگتا ہے ہمارے سیدھے،صاف شفاف وزیر اعظم کے ساتھ ہاتھ کردیا کہ ’’ثالثی‘‘ تو مسئلہ کشمیر کی کیا ہوتی ۔آئینی اور قانونی طور پر بھی سارے کشمیر پر ہی بھارت ترنگا جھنڈا لہرا دیا۔