بھارت نے کشمیر اور لداخ کو دو ٹکڑوں میں بانٹ کر دہلی کے تابع دو گورنر بٹھا دیئے ،کشمیری سراپا احتجاج ہیں اور عالم اسلام کی بے حسی کا ماتم بھی کر رہے ہیںانہوں نے کشمیر کے خصوصی حیثیت کے خاتمے کی طرح یہ تقسیم بھی مسترد کر دی ہے وہاں آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں جن کا مکمل بلیک آؤٹ ہے لیکن تحریک کشمیر کے بیس کیمپ پاکستان میں لگنے والے آزادی کے نعرے بھارتی میڈیا کی ہیڈلائینزکاشت کررہے ہیں۔ معتدل مزاج تجزیہ نگار یہی سوال لئے پریشان دکھائی دے رہے ہیں یقینا یہی سوال آپکے ذہن میں بھی ہوگا جسے تھوڑی دیر کے لئے منجمد کرتے ہوئے میں آپ کو امریکہ کے پڑوس میں چھوٹے سے ملک میکسیکولئے چلتا ہوں جس کی پہچان فٹبال اورمنشیات فروش مافیاہیں یہ بھی پاکستان کی طرح کرپشن کے ناسور سے پریشان ہے جسکے بعد قرضوں کی زنجیر میں جکڑی معیشت میکسیکو کے نوجوان وزیر اعظم آندرے مینیول لوپز کے لئے ایک اور بڑا چیلنج ہے یہاں وہ سب سماجی، معاشرتی خرابیاں ہیں جو ایک قرض دار اور منشیات فروش مافیاؤں والے ملک میں ہوسکتی ہیں یہاں قانون سے زیادہ میکسیکو کرنسی ’’پیسو‘‘ کی چلتی ہے ،تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں کی طرح یہاں ’’مافیا‘‘ اور سیاستدان بااثرترین طبقے میں شامل ہیں ،ادھیڑ عمر خاتون جوزیفا گونزالیز موخر الذکر طبقے سے ہیں وہ ایک کامیاب سیاستدان رہی ہیں رواں برس کے وسط تک حکومت کا بھی حصہ تھیں انکے پاس قدرتی وسائل اورماحولیات کی وزارت تھی اوروہ وزیر اعظم سے خاصے قریب سمجھی جاتی تھیں لیکن ایک چھوٹی سی بات سے وہ لوپز کی نظروں سے ہی نہیں کابینہ سے بھی دور ہو گئیں،بھلاتھوڑی دیر کے لئے جہاز رکوالینا کوئی مسئلہ تو نہ ہوا!جوزیفا نے کہیں جانا تھا اور کسی وجہ سے وہ وقت پر ائیرپورٹ نہیں پہنچ پا رہی تھیں انہوں نے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا اور کمرشل پرواز رکوا دی جو چالیس منٹ تک رکی رہی ،اس تاخیر پر مسافروںنے شور شرابا کیا بات باہر نکلی وزیر صاحبہ پر تنقید ہوئی سوسائٹی کا دباؤ بڑھنے لگاتو انہیں احساس ہوا کہ کچھ غلط ہوگیا ہے، وزیر صاحبہ شرمندہ ہوئیں اور اتنی ہوئیں کہ انہوں نے وزیر اعظم کو استعفیٰ لکھ کر بھیج دیا۔ لیٹویا یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے اسے تنہائی پسنداور کم گولوگوںکا ملک بھی کہا جاتا ہے کم بولنا لیٹویا کی تہذیب کا حصہ سمجھا جاتا ہے ،نوجوان والدس ڈومبرووسکس اس خوبصورت ملک کے 2009ء سے 2014ء تک وزیر اعظم رہے ہیںنوجوان والدس ڈومبرووسکس ایک زیرک سیاستدان تھے جسکا سیاسی مستقبل روشن تھا انہوں نے مزید حکمرانی کرنی تھی کہ انہیں ایک ایسے واقعے پر کرسی چھوڑنی پڑی جسکا ان سے کوئی تعلق نہ تھا ہوا یوں کہ لیٹویا کے دارلحکومت ریگا میں ایک سپر اسٹور کی چھت گر گئی اس حادثے میں پچاس افراد ہلاک ہو گئے گرنے والی اس عمارت کی تعمیر میں لیٹویا کے وزیر اعظم کا کوئی کردار تھا نہ انہوں نے اپنے کسی عزیز کو اسکا ٹھیکہ دیا تھا لیکن اس حادثے پر وہ نوجوان اپنے ہم وطنوں کی طرح اتنا افسردہ ہوا کہ اس نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا کہ میں اس حادثے سے اخلاقی طور پر خود کو بری الذمہ نہیں سمجھتا میں اپنے ضمیر پر پڑنے والے بوجھ کے ساتھ لیٹوینزکا وزیراعظم نہیں رہ سکتا۔ جنوبی کوریا ہم سے ایک برس چھوٹا ہے ہم 1947ء اور کوریا1948ء میں جمہوریہ بنا اسے بھی ہماری طرح ایک جارح پڑوسی کو بھگتنا پڑ رہا ہے وہ تین جنگیں لڑ چکا ہے ،چنگ ہونگ اسی کوریا کے اڑتیسویںوزیر اعظم تھے وہ فروری2013ء سے 2015ء تک جنوبی کوریا کے وزیر اعظم رہے ان کے دوسالہ دو ر اقتدار کے دوران جنوبی کوریا کو ایک بدترین حادثہ دیکھنا پڑا،ایک مسافر بردار بحری جہاز کے سمندر میں ڈوبنے سے تقریبا تین سو مسافر ہلاک ہوگئے،اب ایک بحری جہاز کے غرقاب ہونے کا وزیر اعظم سے کیا تعلق؟ اسے شمالی کوریا نے کوئی میزائل مارا نہ سمند ر کی لہریں کوریا کے وزیر اعظم ہاؤس سے کنٹرول ہوتی ہیں اسکے باجود جب سمندر سے ایک کے بعد ایک لاش نکالی جارہی تھی ہونگ چونگ کی آنکھوں کی نمی بڑھتی جارہی تھی اسکا سرجھکا ہوا اور ٹھوڑی سینے سے لگی ہوئی تھی وہ بالکل خاموش تھا جیسے کچھ سوچ رہا ہو بالآخر ہونگ چونگ نے یوں گہری سانس لی جیسے اس نے فیصلہ کر لیا ہو اور پھر کوریا کے وزیر اعظم نے اس حادثے پر استعفیٰ دے کر قوم سے معافی مانگ لی۔ کوئلہ بنی چوہتر لاشوں پربیان دینے کے لئے ٹیلی وژن پرآنے والے سرخ و سپید شیخ رشید صاحب کو چہکتے دیکھ کرمجھے یہ سب ’’احمق‘‘ یاد آئے احساس ہوا کہ جوزیفا بھی جھلی تھی اورلیٹویا کا والدس بھی ناسمجھ ،لیٹویا کے وزیر اعظم نے بھی حد کی بھلا سپر اسٹور کی چھت گرنے سے ان کا تو کوئی واسطہ نہ تھااور کوریا کے وزیر اعظم ہونگ چونگ کے تو کیا ہی کہنے حادثہ سمندر میں ہو اورانہوں نے استعفیٰ خشکی پر دے دیا ۔۔۔میں سوچ رہا ہوں کہ ان میں اور ہم میں کیا فرق ہے ؟ شائد ضمیراوراحساس ذمہ داری کا یا اس شے کا جسے لغت میں شرم و حیاء کا نام دیا جاتا ہے،ہماری سرحد وں سے پارکی دنیا میںکسی بھی حادثے پر کوئی سوال یا اٹھنے والی انگلی، انگشت شہادت اور انگوٹھے کے درمیان استعفیٰ لکھنے کے لئے قلم تھما دیتی ہے اور اک ہم ہیںکہ ڈھیٹوں کی طرح دمکتا چہرہ لئے کیمروں کے سامنے بانجھ تحقیقات کا اعلان کرنے آجاتے ہیں ،شیخ رشید صاحب نے بھی ایسا ہی کیا۔31 اکتوبر کی سہ پہرسانحہ تیز گام پر میڈیا سے بات کرنے چلے آئے ایک طرف چوہتر سوختہ مسخ لاشیں تھیں اور دوسری جانب ان کاہشاش بشاش چمکتا ہواچہرہ۔ وزیر ریلویز ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے محکمے کی ایک ریل میں آتشزدگی کے خوفناک حادثے اور ناکافی احتیاطی تدابیر پر کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے سے صاف انکار کر دیاکسی رپورٹر نے استعفیٰ کا پوچھا تو کہا اس پر پھر بات کریں گے۔ میری وزارت میں سب سے کم حادثے ہوئے ہیں یعنی ابھی مزید حادثوں کی گنجائش ہے ۔۔۔سوال ہے کہ متاثرہ ٹرین جس پلیٹ فارم پر آکر رکی ،جہاں سے مسافر سوار ہوئے وہ کس کی ملکیت اور زیر انتظام ہے۔ مسافروں کا سامان چیک کرنا ان کا محفوظ سفر یقینی بنانا کس کی ذمہ داری ہے ؟کیا ریلویز پولیس کے 7043پولیس اہلکارکھیتوں میں مولیاں اگانے کے لئے بھرتی ہیں ؟ریلویز اسٹیشنز پر موجود اسٹاف اور ریل گاڑیوں کے عملے کی آنکھوں میں سفید موتیا اترا ہواہے۔ آگ گیس سلنڈر پھٹنے سے لگی توانہیں مسافروں کے سامان میں گیس سلنڈر نظر کیوں نہیں آئے؟ ڈوبنے والے جہاز کا آخری ذمہ دار کپتان ہوتا ہے۔