پاکستانی سیاست دائروں میں گھومتی ہے۔ میں اپنے پرانے اخباروں اور مضمونوں کے ڈبے کو ڈھونڈ رہا تھا تو ایک مضمون کی کاپی مل گئی جو میں نے 16اکتوبر 1995ء کو روزنامہ ڈان میں لکھا تھا۔ میں اس وقت ڈان کا واشنگٹن میں بیورو چیف تھا اور مجھے امریکہ آئے ہوئے کوئی 7مہینے ہی ہوئے تھے۔ کیونکہ میں پاکستان میں سیاسی رپورٹنگ ہی کرتا تھا تو پاکستانی سیاست ہی میرا شوق تھا۔ اکتوبر 95ء میں بے نظیر کی حکومت تھی اور میاں نواز شریف حزب اختلاف کے قائد تھے۔ بی بی اور زرداری کا پورا زور تھا اور میاں صاحبان سخت مشکل میں تھے۔ اکتوبر میں وہ واشنگٹن کے دورے پر آئے اور کیونکہ مجھ سے بھی اچھے تعلقات تھے تو انہوں نے کھانے پر بلایا۔ وہ واشنگٹن کے ڈائون ٹائون میں ایک بہت مہنگے ہوٹل میں ٹھہرتے تھے اور وہیں پہ لنچ ہوا۔ ان کے بھائی شہباز شریف‘ بیگم کلثوم اور ان کے پکے دوست اور پارٹنر سعید شیخ بھی موجود تھے۔ کوئی ایک گھنٹہ بات کرنے کے بعد روزنامہ نیشن کے مشہور صحافی مرحوم خالدحسن کو بھی بلا لیا اور کھل کر سب باتیں ہوئیں۔ ان سے ملاقات کے بعد جو کالم میں نے ڈان میں لکھا وہ بہت محتاط لفظوں میں لکھا گیا تھا مگر آج اس کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ پاکستانی سیاست اور سیاسی لوگ کیا سوچتے ہیں اور کس کے لئے سوچتے ہیں۔ اس کالم میں لکھی گئی تمام باتیں ریکارڈ کا حصہ ہیں اور کبھی نہ میاں صاحب نے یا کسی اور نے یہ نہیں کہا کہ کوئی بات غلط لکھی گئی۔ میں نے کالم اس ابتدائیہ سے کیا کہ شریف خاندان آج کل ایک بہت بڑے گوبر کے ڈھیر میں پھنسا ہوا ہے اور بے نظیر اور زرداری ان کو وہی دوا پلا رہے ہیں جو نواز شریف ان کو 1990ء سے 1993ء تک پلاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بے نظیر نے اس حالت میں پہنچا دیا ہے کہ وہ اور ان کے سارے کاروبار دیوالیہ ہونے والے ہیں۔ ان کا خیال تھا بے نظیر نے اپنے سارے معاملات آصف زرداری کے ہاتھ میں دے دیے ہیں اور جس طرح وہ ان معاملات کو چلا رہے ہیں شریف خاندان کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ بھٹو خاندان کے پاس دنیا کی سب سے زیادہ دولت ہے اور وہ تمام اسمبلی کے ووٹ خرید سکتے ہیں۔ اس لئے ان کو ہٹانے کے لئے ایوان کے اندر تبدیلی لانا مشکل ہے۔ نواز شریف نے کہا زرداری پاکستان کا سب سے امیر آدمی بن گیا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کرپشن کی تمام حدود پھلانگ دی گئی ہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ حکومت پر ایوان صدارت پر اور عدلیہ میں اپنے لوگ بٹھانے کے باوجود بے نظیر ان کے خلاف ایک بھی مالی کرپشن کا کیس نہیں لا سکیں۔ نواز شریف، میرے اور میرے ساتھیوں کے خلاف 150کیس بنائے گئے ہیں مجھے ان کی پرواہ نہیں لیکن سوچ لیں جب ان کی باری آئے گی تو کتنے اور کیسے کیس ان پر بنیں گے۔ شہباز شریف بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے اور ان کے سارے درد جا چکے تھے اور وہ پاکستان جانے کو تیار تھے۔ پھر بات چیت کراچی کے مسائل پر آئی اور وہ الطاف حسین کی حمایت میں بولتے رہے مگر جلد ہی انہوں نے مجھ سے امریکی حکومت اور پالیسی کے بارے میں سوال شروع کر دیے۔ انہی دنوں میں بے نظیر نے نواز شریف پر بغاوت کا کیس بنایا تھا اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس کے خلاف بیان بھی جاری کیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ جس دن یہ بیان جاری ہوا، امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر نے مجھے فون کر کے کہا کہ ہم نے بیان تیار کر لیا ہے اور اگر کوئی صحافی روزانہ ہونے والی بریفنگ میں سوال کرے گا تو ہم پورا بیان جاری کر دیں گے۔ میں بریفنگ میں روز جاتا تھا اور ترجمان نک برنس سے میں نے سوال کر دیا اور فوراً ہی انہوں نے پورا جواب سرکاری طور پر دے دیا۔ نواز شریف حیران تھے کہ امریکہ کیوں اتنی دلچسپی لے رہا تھا۔ مگر ان کا خیال تھا کہ امریکہ بے نظیر کی حکومت کی حمایت کر رہا ہے۔ پھر وہ پوچھتے رہے کہ بے نظیر کا کیا ہو گا کیا وہ کراچی کے حالات پر قابو پا لیں گے اور پھر بولے میں نہیں چاہتا کہ بے نظیر کو جبری طور پر نکالا جائے، ورنہ وہ پھر سیاسی شہید بن کر دعویٰ کریں گی۔ ان کی سیاست کو اپنی موت آپ مرنا چاہیے۔ کہنے لگے بے نظیر اور کراچی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ میرے علاوہ کسی کو بھی حکومت میں لے آئو کراچی کا 50فیصد مسئلہ حل ہو جائے گا۔ شہباز شریف بولے جو بھی آئے اس کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہونا چاہیے۔ نواز بولے میں جلدی میں نہیں مگر کسی کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا ملک اہم ہے یا جمہوری سسٹم۔ پھر انہوں نے کہا ملک کے نظام میں کرپشن‘ بدانتظامی اور کاروباری سیاست کے خاتمے کے لئے ایک لیڈر کے پاس تمام طاقت ہونی چاہیے نہ کہ تین قلعے جیسے وزیر اعظم‘ صدر اور فوج کے سربراہ۔ شہباز شریف بولے میرے خیال میں امریکہ یا فرانس کا سسٹم اچھا رہے گا کیونکہ پھر کوئی لیڈر 300ممبروں کی بلیک میلنگ میں نہیں آئے گا۔ پھر میں نے تبصرہ کیا کہ یہ باتیں وہ ابھی ملک میں ٹھوس تجاویز کے ساتھ نہیں کر رہے تاکہ ان پر بحث ہو مگر وہ چاہتے ہیں کہ کسی آمر کے حکم سے نہیں بلکہ جمہوری طریقے سے یہ تبدیلی آنی چاہیے۔ میرا آخری جملہ یہ تھا کہ شریف برادران ملک واپس آئیں گے اور حکومت سے ڈریں گے نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو ابھی عوامی حمایت حاصل ہے۔ یہ ساری کہانی دہرانے کا میرا مقصد یہ تھا کہ 25سال پہلے کے خیالات اور صورتحال میں اور آج کل کی سیاست میں کیا فرق ہے۔ بالکل وہی کہانی ہے، شریف برادران لندن میں ہیں اور یہاں بے نظیر کی نہیں عمران خان کی حکومت ہے مگر وہی کیس وہی گالم گلوچ وہی دھمکیاں اور وہی ملک کے نظام کو بدلنے کے وعدے اور دعوے اور سیاسی شعبدہ بازی۔ مگر اب ایک بڑا فرق ہے کہ شریف برادران چوری کرتے پکڑے جا چکے ہیں کئی کیس ثابت ہو چکے ہیں اور زرداری بھی لائن میں لگے ہیں۔ یہ دونوں خاندان اپنی اپنی باری لے کر اور جو ملک کے ساتھ کر سکتے تھے کرنے کے بعد اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہیں۔ درمیان میں ایک تیسری قوت اور ایک عوامی قوت اور حمایت سے حکومت میں آنے والے عمران خان ایک ایسا نعرہ لے کر آ گئے ہیں کہ ان دونوں خاندانوں کا اب دوبارہ حکومت یا اصلی طاقت میں آنا بہت مشکل ہے۔ ہاں اگر عمران خان خود بھی انہی غلط راستوں پر چل نکلے جوبہت مشکل ہے تو پھر یہ سارا نظام بالکل اس طرح لپیٹ دیا جائے گا جیسے شہباز شریف اور نواز شریف 25سال پہلے واشنگٹن کے ایک ہوٹل میں بیٹھے مجھے اور خالد حسن کو بتا رہے تھے۔ 25سال پہلے کے نواز شریف اور آج کے شریف برادران میں کیا فرق ہے۔ میں ان کے واپس آنے کے بعد اور پھر 1997ء میں حکومت میں آنے اور 1999ء میں دوبارہ ہٹائے جانے کے بعد بھی ان سے ملتا رہا ہوں اور 2000ء میں ایک دن پورے خاندان یعنی میاں شریف(اباجی) کلثوم نواز‘ مریم نواز‘ کیپٹن صفدر اور باقی لوگوں کے ساتھ رائے ونڈ میں کئی گھنٹے بات چیت میں گزارے جب کہ نواز اور شہبازشریف اٹک جیل میں تھے اور جنرل مشرف بالکل انہیں چھوڑنے کوتیار نہیں تھے۔ اس وقت شریف خاندان کے حوصلے کافی بلند تھے اور لڑنے کے لئے تیار تھے۔ خود کلثوم نواز نے سڑکوں پر مہم چلائی تھی۔ مگر آج کل شریف خاندان لگتا ہے ہمت ہار چکا ہے اور اب بالکل کمزور اور تنکوں کے سہارے چلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ فرق دیکھیں کہ آج لڑائی اس بات پر ہے کہ نواز شریف ملک سے باہر رہیں گے اور انہیں واپس نہ بلایا جائے اور ان کی بیٹی کو بھی ملک سے باہر بھیجا جائے۔ اگر وہ چلی بھی گئیں تو کہا جائے گا کہ شریف خاندان جیت گیا جبکہ اصل میں وہ چوری کی سزا اور جیل سے بھاگ کر لندن میں آرام سے رہیں گے۔ یہ ان کی سیاست کے لئے کتنا نقصان دہ ہو گا اس کے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں خود ن لیگ کے لوگ اب ٹی وی پر کھل کر بات کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے لیڈر جو خود بھی کیسوں میں پھنسے ہوئے ہیں ہر نجی محفل میں شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں بیچ منجدھار میں چھوڑ کر 2000ء کی طرح پھر پورا شریف خاندان باہر جا چکا ہے یا اس کوشش میں ہے۔ کئی تجزیہ کار تو کہتے ہیں کہ نئے این آر او پر آدھا عمل درآمد ہو چکا اور باقی بھی جلد ہو جائے گا۔ یہ عملدرآمد کون کروا رہا ہے سب پر ظاہر ہے مگر کوئی کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ہر ایک کو اپنے گناہوں کی سزا کا ڈر ہے مگر یہی کچھ اگر ہونا ہے اور سارے لیڈر اپنی عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ لوٹو اور پھوٹو یعنی کمائو اور جائو تو اب یہ دور بھی ختم ہونے والا ہے۔ ایک بات سب کو سمجھ آ جانی چاہیے۔ چوری کر کے بھاگنے والے سزا سے تو بچ سکتے ہیں مگر ان کا اور ان کی سیاست کا جنازہ کچھ تو نکل چکا اور باقی رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی۔ کوئی چور دوبارہ حکومت میں نہیں آئے گا اور ہونا بھی یہی چاہیے۔