وہ ہمارے ملک کے بہت ممتاز اور محب وطن ماہر معاشیات ہیں۔وہ بہت اعتماد سے کہہ رہے تھے کہ یہ جو پنڈورا باکس کھلا ہے،اس کے نتیجے کے طور پر کچھ بھی نہیں ہو گا۔ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے جو باتیں دلیل کی زبان میں بیان کیں۔ میں حیران ہوں اہل نظر کی اس پر نگاہ کیوں نہ پڑی۔ان کا کہنا تھا کہ آپ کو سمجھ لینا چاہیے، یہ حکومت اشرافیہ کے تحفظ کے لئے بنی ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کر سکتی، اس حوالے سے انہوں نے جو دلیل دی وہ نقل کیے دیتا ہوں۔ 2019ء میں حکومت پاکستان نے ایک قانون پاس کیا کہ جس کے پاس غیر ممالک میں دولت موجود ہے۔ اسے یہ دولت ڈالروں میں پاکستان لانے کی ضرورت نہیں۔وہ اس دولت کا صرف6 فیصد یا شاید 3فیصد ٹیکس ادا کرے اور اس کی یہ دولت قانونی تصور کی جائے گی۔یعنی ڈالر پاکستان لانے کی ضرورت نہیں۔اس پر صرف ٹیکس ادا کر دیجیے۔بہت سے لوگوں نے اعتراض کئے کہ بھئی ملک کو ڈالروں کی ضرورت ہے۔ یہ صرف ٹیکس کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لئے اتنی بڑی رعایت کیوں دے رہے ہیں۔صاف ظاہر ہے اس دولت کو جو اشرافیہ نے بیرون ملک چھپا رکھی ہے،اسے تحفظ دیا جا رہا تھا۔اس حکومت پر لوگوں کا اعتماد اتنا کم تھا کہ اس وقت بھی لوگ خوفزدہ رہے کہ یہ حکومت جانے ہم سے غیر ملکی اثاثے ڈکلئیر کر کے کیاکرے گی۔تاہم جو محرم راز داں نہ تھے۔انہوں نے اس آفر سے فائدہ اٹھایا۔ ہماری پیاری حکومت نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ ڈالر کی قیمت دھڑا دھڑ کم کرنا شروع کر دی۔جس کے نتیجے کے طور پر اس اشرافیہ کو اپنی چھپائی ہوئی دولت پر دیکھتے ہی دیکھتے روپے کی قدر میں 50فیصد کا اضافہ ہو گیا۔تو انہوں نے جو چند فیصد تھے‘فائدہ مگر چوکھا ہو گیا۔ اس کے بعد اس حکومت نے تیسرا قدم اٹھایا،جو آج تک جاری ہے۔وہ قدم یہ تھا کہ اپنے ڈالر ہمارے کھاتوں میں انویسٹ کرو اور 7فیصد کا منافع کمائو اور آپ اسے روپے میں بدل کر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہو،تو11فیصد نفع کمائو۔ڈالر پر اتنا منافع دنیا بھر میں کوئی نہیں دیتا۔ہماری اشرافیہ کے تو وارے نیارے ہو گئے۔جس کے پاس 100ڈالر تھے ،اس نے اسے چند سکوں کے عوض قانونی بنایا پھر اس پر روپے کی قدر بڑھ جانے سے فائدہ اٹھایا یا پھر ٹیکس سے کہیں زیادہ شرح سود پر اس کی سرمایہ کاری کر دی۔ اب سوال یہ ہے کہ جو حکومت اشرافیہ کو اس طرح کی چھوٹ دے رہی ہو، وہ کس طرح اس اشرافیہ کے نام آف شور کمپنیوں میں آ جانے کی وجہ سے ان پر گرفت کریں گے۔پہلے تو ان کی ساری غیر قانونی دولت قانونی ہو چکی ہو گی، پھر وہ اس پر خوب خوب منافع کما رہے ہوں گے۔ اس حکومت نے اس اشرافیہ کی خاطر اور بہت سے کام کئے ہیں۔مثال کے طور پر کہنے کو تو کنسٹرکشن انڈسٹری کو مراعات دی گئی ہیں تاکہ ملک میں ہائوسنگ کا مسئلہ طے ہو،مگر اس میں بھی غیر ملکی سرمایہ کو قانونی بنانے کے راستے کھولے گئے ہیں،ایسے میں آپ کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ یہ حکومت اس اشرافیہ کے خلاف کارروائی کرے گی۔یہ نہیں کہ اس حکومت ہی نے اشرافیہ کے فائدے میں قانون بنانے ہیں۔بلکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔یہ جو ایس آر او جاری ہوتے تھے ،ایک چیز پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جاتی تھی۔دو چار دنوں میں دوبارہ کھول دی جاتی تھی۔سرمائے کے ملک میں لانے پر کوئی پابندی نہ تھی۔اس کے لئے اسٹیٹ بنک کے علاوہ دوسرے چینل بھی موجود تھے،ملک پر لانے پر تو پابندی نہ تھی‘لبرل پالیسی کے نام پر ہم نے لے جانے پر سے بھی پابندی اٹھا لی۔ملک میں کارپوریٹ سیکٹر نے ان سہولتوں سے خوب فائدہ اٹھایا،نیب کا قانون تو ایک ڈھکوسلہ ہے، جس کی سچ کہیے تو کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ قانون تو بنا ہی مشرف عہد میں تھا تاکہ پولیٹیکل انجینئرنگ کا اس سے کام لیا جائے یہ کام آج تک جاری ہے اس وقت میں اس قانون کی نئی ترجیحات پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ ہوا صرف یہ ہے کہ اس کے شکنجے میں ہم سیاسی لوگوں کو جکڑنا چاہتے تھے مگر نتیجہ یہ نکلا کہ انتظامیہ اور کاروباری طبقہ بھی مفلوج ہو کر رہ گیا۔اس کے اثرات صاف ظاہر ہو رہے ہیں، حکومت یہ چاہتی ہے کہ مخالفوں کو رگڑا جائے۔اپنوں کو قابو میں رکھا جائے مگر یہی گراپ اگر افسر شاہی پر یا کاروباری طبقے پر آزمانا چاہتے ہیں تو جان لو کہ وہ طبقہ تم سے زیادہ دانااور طاقتور ہے۔ ویسے یہ بات ہی سمجھ لینے کے لئے کافی ہے کہ اس سارے معاملے کی تحقیق کے لئے ہم نے کوئی رسک نہیں لیا۔وزیر اعظم آفس کے ایک ذیلی ادارے وزیر اعظم انسپکشن ٹیم کے ماتحت سی بی آر‘ایف آئی اے اور سٹیٹ بنک کے افسروں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ چاہے تو عظمت سعید کی سربراہی میں جوڈیشل کمیٹی بھی بنائی جا سکتی تھی۔ بات کو مختصر کرتے ہیں۔قرائن بتاتے ہیں اور ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ اس ملک میں اشرافیہ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا،بلکہ ملک میں اشرافیہ ہی حکومت کر رہی ہے۔ویسے پولیٹیکل سائنس میں یہ بھی ایک تصور ہے۔اشرافیہ کی حکومت کیا خیال ہے!