کچھ مدت پہلے مجھے اپنے زمانے کے بابائے صحافت اور شہنشاہِ خطابت آغا شورش کاشمیری کے ایک صاحبزادے نے اپنے والد کا ایک تاریخی قول سنایا اور اس کا بیک گرائونڈ بھی بتایا۔ یہ 1974ء کا واقعہ ہے۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار نصف النہار پر تھا۔ بھٹو صاحب 1973ء کے متفقہ آئین کا سہرا اپنے سر باندھنے کے بعد اپنے سیاسی مخالفین کو فکس اپ کرنے میں مشغول تھے۔ انہی دنوں لاہور کی تاریخی جلسہ گاہ موچی گیٹ میں جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی زیر صدارت جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حکمرانوںکو وہ سبق یاد دلایا جو انہیں اقتدار کا قرب حاصل ہوتے ہی بھول جاتا ہے اور انہیں یہ سبق تب یاد آتا ہے جب ان کی اقتدار سے عبرتناک جدائی کا لمحہ آن پہنچتا ہے۔1974ء میں پنجاب کے گورنر نواب صادق حسین قریشی تھے۔ آغا شورش کاشمیری نے گورنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’نواب صاحب! ذوالفقار علی بھٹو کو بتا دوکہ دو چیزیں عارضی ہوتی ہیں ایک مصیبت اور دوسری حکومت‘‘ برسر اقتدار آتے ہی بھٹو صاحب کے اندر کا جاگیردار اپنی تمام تر وحشت و دہشت کے ساتھ جاگ اٹھا۔ انہوں نے ایک جمہوری دستور منظور کروا کے ایک انتہائی غیر جمہوری رویہ اختیار کر لیا۔ ان کے ہی دور حکومت میں ڈاکٹر نذیر جیسا بندہ درویش شہید کیا گیا۔ خواجہ رفیق ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے اور ولی خان جیسے سینئر سیاست دانوں کو زندانوں میں مقید کیا گیا۔ ایک دنیا ذوالفقار علی بھٹو کی ذہانت کی قدر شناس ہے۔ بلا شبہ بھٹو صاحب وسیع المطالعہ اور ذہین و فطین انسان تھے۔ وہ ایک واضح ورلڈ ویو رکھتے تھے۔ البتہ بھٹو صاحب کی شخصیت‘ ان کی سیاست اور ان کی حکومت کا مطالعہ اور تجزیہ کرنے والوں کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھٹو صاحب کی انا پرستی ان کی ذہانت پر حاوی تھی۔ اور یہی انا پرستی انہیں تخت سے اٹھا کر تختہ دار تک لے گئی۔بھٹو صاحب نے بے نظیر کی تعلیم و تربیت پر بے پناہ توجہ دی۔ بے نظیر بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پہلے امریکہ کی ممتاز یونیورسٹی ہاورڈ گئیں پھر آکسفورڈ آ کر انہوں نے اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کی۔ بے نظیر نے بھٹو صاحب کی موت کے بعد انتہائی کٹھن حالات میں اپنے خاندان اور اپنی جماعت پیپلز پارٹی کو یکجا رکھا اور پھر وہ 1988ء میں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر پاکستان میں سربراہ حکومت بنیں۔1996ء میں وہ دوبارہ وزیر اعظم بنیں۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے زمانۂ اقتدار میں خود اختیار کردہ جلا وطنی کے ایام دوبئی میں گزار رہی تھیں۔ وہ امریکی سرپرستی میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ پس پردہ معاہدہ کر کے پاکستان آئیں اور یہاں 27دسمبر 2007ء کو ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو گئیں۔ ان کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری برسر اقتدار آ گئے۔ آج کل بلاول بھٹو اپنی والدہ بے نظیر اور اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت کے وارث ہیں۔ لال شہباز قلندر کی بستی سیہون شریف سے تعلق رکھنے والے اپنے سندھی دوست انجینئر خالد قاضی سے میں نے پوچھا کہ کیا زرداری صاحب کی گرفتاری کی صورت میں سندھی عوام سڑکوں پر آئیں گے؟ قاضی صاحب اوائل شباب سے لے کر اب بڑھاپے کی دہلیز تک ہمیشہ پیپلز پارٹی کے جان نثار رہے ہیں۔ میرے سوال کا انہوں نے دو ٹوک جواب دیا کہ سندھی عوام زرداری کی لوٹ مار بچانے کے لئے سڑکوں پر نہیں آئیں گے۔ پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کا موجودہ وارث بلاول بھٹو زرداری ہے۔ یہ تو قاضی صاحب کا جواب تھا تاہم ہماری رائے میں آگے کسی مرحلے پر مرتضیٰ بھٹو کی 36سالہ دانش مند اور دانشور بیٹی فاطمہ بھٹو خاندان کے حقیقی وارث کے طور پر سامنے آ سکتی ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کا تعلق ایک بزنس فیملی سے ہے۔ ان کا خاندان کوچہ سیاست سے بہت دور تھا مگر جب وہ وادیٔ سیاست میں اترے یا اتارے گئے تو آگے ہی بڑھتے گئے۔ وہ دوبار پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ آج پھر وہ کرپشن کے ایک مقدمے العزیز سٹیل ملز میں سزا یافتہ ہو کر پس دیوار زنداں چلے گئے ہیں۔ مگر یہ تو واضح ہے کہ دونوں خاندانوں کے اثاثے ان کے معلوم ذرائع سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ اندرون و بیرون ملک ان کی عیش و عشرت بے حد و حساب رہی جبکہ پاکستان کے 21 کروڑ سے زائد باشندے غربت و افلاس کی پستیوں میں نان شبینہ بھی ترستے رہے۔ اب جبکہ دونوں خاندانوں کی قیادتیں کڑے احتساب کے شکنجے میں کسی جا چکی ہیں۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا سیاسی منظر نامے سے ان قائدین کے ہٹنے کے بعد ان کی جماعتیں بکھر جائیں گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہو گا کیونکہ شریف اور بھٹو فیملی کی جڑیں عوام میں بہت گہری ہیں۔ کیا خاندانوں کی جمہوری حکومتیں قابل مذمت ہیں؟ نہیں ایسا نہیں۔ انڈیا میں نہرو خاندان کی جمہوری و سیاسی وراثت تقریباً ایک صدی سے جاری ہے۔ امریکہ میں کینیڈی‘ بش اور راک فیلر جیسے کئی خاندان سیاست میں بہت نمایاں ہیں۔ خاندانوں کی سیاست میں کوئی عیب برائی نہیں۔ تاہم اگر یہ خاندان جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت سے کام لیں گے‘ اگر یہ خاندان عوام کے خون پسینے کی کمائی لوٹ کر ملکوں ملکوں اپنے محلات سجائیں گے۔ اگر یہ خاندان عوام کو یکسر نظر انداز کر کے اپنی اور اپنی اولادوں کے لئے دنیا جہان کی ہر نعمت اکھٹی کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے اور اگر یہ خاندان ہل من مزید ہل من مزید پکارتے ہوئے قارون سے بڑھ کر خزانہ جمع کرنے کو اپنا مقصد حیات قرار دیں گے تو پھر کسی روز تلخیٔ ایاّم کے ماروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور ان کا عوامی ریلہ بہت کچھ بہا کر لے جائے گا۔ بلاول بھٹو اگر حکمت و دانش سے ’’پدری شفقت‘‘ کے بوجھ سے آزاد ہو جائیں گے اور صاف سلیٹ کے ساتھ اپنی سیاست کو آگے بڑھائیں گے تو وہ پیپلز پارٹی کی سیاست بچا لے جانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی طرح شریف فیملی کی سیاست کا انحصار خاندانی اتحاد پر ہے۔ میاں شہباز شریف نے برادر خورد بن کر دکھایا اور وہ کسی دبائو یا لالچ کا شکار نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے انداز سیاست سے ہزار اختلاف کے باوجود وفاداری بشرط استواری نبھائی ہے۔ اگر مریم نواز اور حمزہ شہباز وغیرہ خاندانی روایات کے مطابق اپنا اتحاد قائم رکھنے میں کامیاب رہے تو پھر وہ اپنی خاندانی اور پارٹی قوت بچانے میں کامیاب رہیں گے ورنہ مسلم لیگ(ن) تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی۔دونوں خاندانوں کی جواں سال قیادت کو ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ مستقبل کی سیاست کا انحصارعوامی استحصال پر نہیں‘ عوامی خدمت پر ہے ‘تو وہ سیاسی منظر نامے پر موجود رہیں گے‘ وگرنہ پرانے طرزِ سیاست کے سہارے نئی فضا میں ان کے لئے زندہ رہنا ناممکن نہیں تو بے حد محال ہو گا۔