دو بار وزیر اعلی پنجاب اور تین بار وزیر اعظم پاکستان کے منصب پر فائزرہنے والے جناب نواز شریف خود ہی نہیں ان کا پورا خاندان مشکلات میں گھرا ہوا ہے، انہوں نے ہمیں سمجھا یا نہ سمجھا، ہم انہیں اس ملک کا برابر کا بلکہ برابر سے بھی بڑھ کر شہری سمجھتے ہیں ان کے ان مصائب کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال میں اس لئے زیر بحث نہیں لاؤں گا ، کیونکہ میرا ایمان اور میرا یقین یہی ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ منجانب اللہ ہوتا ہے اور جو ہوتا ہے بہتری کیلئے ہی ہوتا ہے، یہاں آپ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جو ہوا کیا وہ بھی اللہ کی مرضی تھا؟ میرا یہاں بھی یہی جواب ہوگا،، جی ہاں ،،،لیکن ان دونوں حادثات کوایک ہی ترازو میں تولنا نا انصافی ہوگی، مجھے آج اپنا کالم نواز شریف پر ہی کیوں لکھنا پڑا؟ اس کا باعث بنا ہے نواز شریف کا احتساب عدالت کے باہر دیا گیا یہ بیان کہ نیب کا ادارہ ختم نہیں کیا جانا چاہئیے، کیونکہ ہم شریفوں نے تو نیب کو بھگت لیا اب دوسروں کو بھی اسے بھگتنا چاہئے، میاں صاحب کے اس بیان میں مخالف سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کیلئے نفرت ہی نفرت جھلک رہی ہے،صاف سنائی دے رہاہے کہ اپنی تکلیفوں کا انتقام وہ سب سے لینا چاہتے ہیں اور اگر کبھی انہیں موقع ملا وہ سب کو نیست و نابود کر دیں گے، احتساب کا یہ ادارہ میاں صاحب نے ہی جنم دیا تھا، پہلے احتساب کمشنرسیف الرحمان کے ذریعے انہوں نے ہی مخالفین کو بلا ثبوت سالہا سال جیلوں میں بند رکھنے کی داغ بیل ڈالی، یہ میاں صاحب کی نیب ہی تھی جس کے عقوبت خانے میں میاں ارشد جیسے لوگ داخل ہوئے اور روح کے پرواز کر جانے کے بعد لاشے بن کر باہر نکلے، ،آج کل میاں صاحب کی سب سے بڑی مصروفیت خود کو اور اپنے خاندان کو جدی پشتی ٹا ٹا، برلا اور سہگلوں کا ہم پلہ ثابت کرنا ہے، انہوں نے مکرر ارشاد فرمایا ہے کہ سیاست میں آنے سے پہلے ہم بہت خوشحال تھے،سیاست میں آنے کے بعد پریشانیاں بڑھ گئیں، یہ شکوہ انہیں اپنے مرحوم قبلہ و کعبہ والد محترم میاں محمد شریف کی روح سے کرنا چاہیے جو انہیں انگلی پکڑ کر جنرل جیلانی کے اسکول میں داخل کرانے گئے تھے۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، ہمارے یہ شریف سیاستدان کن انتقامی خصا ئل کے مالک ہیں؟ آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کا دور تھا ،خواجہ ریاض محمود فرام گوالمنڈی جو شریف خاندان سے گہرا تعلق رکھتے ہیں، انہیں میاں صاحب نے لاہور کا لارڈ مئیر بھی بنوایا تھا، ایک دن مجھے خلاف توقع خواجہ صاحب کا فون آیا، وہ کہہ رہے تھے،، بیٹا کیا تم کل لنچ میرے ساتھ کر سکتے ہو؟ میں ان دنوں ایک اخبار کا چیف نیوز ایڈیٹر تھا، میں نے خواجہ ریاض محمود صاحب کو جواب دیا،، چاچا جی ! میں ضرور آؤں گا، انہوں نے مجھے اگلے دن مال روڈ کے ایک ہوٹل میں آنے کی دعوت دیدی، خواجہ صاحب میرے والد محترم کے نیاز مندوں میں شامل تھے اسی نسبت سے میں انہیں چاچا جی کہہ کر بلاتا ہوں، میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب میری عمر چار پانچ سال تھی، لکشمی چوک میں ہمارا پروڈکشن آفس ہوا کرتا تھا ،ہاشمی صاحب ان دنوں اپنی ذاتی فلم ،، چشم بد دور۔۔بنا رہے تھے، ایکسپریس ڈرائی کلین کی دکان سے اگلی اسی عمارت کے گراؤنڈ فلور پر خواجہ صاحب کی بھی شاپ ہوا کرتی تھی، ہمارے آفس کے ایک ملازم کی ڈیوٹی تھی مجھے اور میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر اختر نعیم کو روزانہ ہمارے مزنگ والے گھر سے آفس لے جانے کی ، ساٹھ سال پہلے پانچ برس کی عمر میں روزانہ لکشمی چوک جانے کے ثمرات میں آج بھی سمیٹ رہا ہوں، میرا بچپن ہمیشہ میرا سرمایہ رہا ہے، وہ سرمایہ جس پر میں نازاں ہوں، اس چوک کے ارد گرد ان تمام لوگوں کے مسکن تھے جو اپنے اپنے فن کے حوالے سے یکتا تھے اور جو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے، وہاں جن لوگوں کو ہر روز دیکھتا ان میں قتیل شفائی،طفیل ہوشیار پوری،اے حمید، شریف متین،حفیظ قندھاری۔ شورش کاشمیری ،عیسی غزنوی ،ظہیر کاشمیری، ناصر کاظمی،ایم اسماعیل، حبیب جالب، سیف الدین سیف، احمد راہی، تنویر نقوی،منیر نیازی اورجناب علامہ لطیف انور جیسے نام ہوتے، کنگ سرکل ہوٹل میں ان سب لوگوں کی میزیں مخصوص ہوا کرتی تھیں اور یہ لوگ اپنے ہر ملاقاتی کی چائے کافی کا بل خود ادا کیا کرتے تھے، ہر میز پرادب اور شاعری کی باتیں ہوا کرتی تھیں جناب ! بات تو ہو رہی تھی خواجہ ریاض محمود صاحب کے مجھے لنچ پر بلانے کی اور میں لے گیا آپ کو لکشمی چوک میں، اگلے دن میں عین وقت پر ہوٹل پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خواجہ ریاض محمود مجھ سے پہلے وہاں بیٹھے تھے، انہوں نے مجھ سے پوچھا، کیا کھاؤگے؟ میں نے کہا جو آپ کھائیں گے، کھانا آگیا، میں منتظر تھا کہ خواجہ صاحب کچھ بولیں مجھے کیوں بلوایا ہے؟ ظاہر ہے یہ ممکن نہ تھا کہ انہوں نے مجھے صرف لنچ کیلئے بلایا ہوگا، کھانے کے دوران ہی خواجہ صاحب گویا ہوئے۔۔۔۔۔۔ بیٹا، تمہیں ایک نصیحت کرنی ہے، اگر سمجھ سکو تو۔۔۔۔۔ یہ جو دونوں بھائی ہیں(نواز، شہباز) بہت کینہ پرور ہیں، جہاں تک ممکن ہو،ان سے ہوشیار رہنا، یہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں،، خواجہ صاحب نے اس کے علاوہ اور کوئی بات نہ کی، انہوں نے بل ادا کیا اور ہم ہوٹل سے باہر نکل کر اپنے اپنے راستے پر ہو لئے۔۔۔۔ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ نظریاتی یا غیر نظریاتی سطح پر بے ایمانی نہیں کی، جب میں اپنی کرسی پر بیٹھتا ہوں تو کوئی میرا دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی دشمن، میں ہوتا ہوں اور میرے پاس آنے والی خبریں، ہر خبر پر فیصلہ میرٹ پر کرتا ہوں، کبھی کسی خبر کو کسی کی خوشی کیلئے شائع کیا نہ کبھی کوئی خبر کسی کی ناراضی مول لینے کیلئے چھاپی، میرے اندر بسے ہوئے انصاف کے مندر ہی کا کمال تھا کہ ایک ہی ادارے میں پنتیس سال گزار دیے اور ایک بھی دن مجھ پر کسی فریق نے جانبداری کا الزام نہ لگایا، اسی لئے کوئی خبر چھاپتے ہوئے کبھی خوفزدہ نہ ہوا، نواز شریف صاحب ہمارے بہت سارے مہربان دوستوں کے بہکاوے میں آ کر مجھے اپنا مخالف تصور کرتے رہے، جب کئی برسوں بعد میری نواز شریف صاحب کے ساتھ پہلی ملاقات ہوئی تو وہ میرے بارے میں کہہ رہے تھے، یار، یہ تو بہت اچھے انسان ہیں، آپ لوگوں نے یونہی ڈرایا ہوا تھا ہمیں،،، نواز شریف کی سیاسی موت کا ایک بڑا سبب وہ چند صحافی رہے ہیں جو روزانہ انہیں فیڈ بیک دیا کرتے تھے، اس طرح صحافیوں کے ایک مخصوص ٹولے نے انہیں اور ان کی بصارت کو یر غمال بنائے رکھا اور جب پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف کو خود ساختہ جلا وطنی کاٹنا پڑی تو محدود اور مخصوص صحافیوں کا یہ ٹولہ چوہدری پرویز الہی کی گود میں جا بیٹھا تھا، خواجہ ریاض محمود کا مجھے انتباہ چند ہی ہفتوں کے بعد اس وقت سچ ثابت ہو گیا جب نواز شریف نے ہمارے اخبار کے ایڈیٹر انچیف سے کئی صحافیوں کے سر مانگ لئے، یہ ایک لمبی فہرست تھی، اس اخبار میں کام کرنے والے کئی اور صحافی بھی اس کی زد میں آئے، مطالبہ یہ کیا گیا کہ فلاں فلاں صحافی کی ڈیوٹی تبدیل کر دی جائے،، فلاں فلاں صحافی کی تنزلی کر دی جائے یا ان کے عہدے بدل دیے جائیں، میرے بارے میں تین بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کا مطالبہ اور حکم یہ تھا کی اس کی ملازمت ختم کردی جائے یعنی کہ چھٹی کرا دی جائے، ایڈیٹر انچیف نے یہ پوری کی پوری فرمائش مسترد کردی اور نقصان برداشت کرنے کو ترجیح دی، یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا کسی میڈیا گروپ کے مالک کی طرف سے۔۔ یہ چھبیس، ستائیس سال پہلے کا منظرتھا اب سارے مناظر بدل چکے ہیں، کردار بدل چکے ہیں، اب وہ صحافی بھی گنتی کے ہی باقی رہ گئے ہیں جن سے حکمرانوں کو شکایات رہتی ہوں ۔آخر میں خواجہ ریاض محمود سے معذرت اور معافی چاہتا ہوں اس ایک دن کی ملاقات کو منظر عام پر لے آنے پر، خواجہ صاحب اس وقت عمر کی تراسی بہاریں دیکھ چکے ہیں، میں نہیں جانتا کہ آج ان کے اور شریف خاندان کے تعلقات کیسے ہیں، اللہ پاک ان کی صحت کے ساتھ عمر دراز کرے اور انہیں اب بھی توفیق دے کہ وہ مجھ جیسے بے خبرلوگوں کو خطرات سے پیشگی آگاہ کرتے رہیں۔